ریاستی اداروں کی فعالیت اور نگران وزیراعظم


میرے عزیز ترین دوست بھی اعتبار نہیں کررہے۔ انہیں یقین کی حد تک گماں ہے کہ مجھے ممکنہ نگران وزیر اعظم کے نام کا علم ہے لیکن نہ جانے کیوں میں اس کا نام انہیں بتانے کو تیار نہیں ہورہا۔ رات گئے تک دوست واحباب کے فون اس موضوع پر گزشتہ چار دنوں سے آئے چلے جارہے ہیں اور میں وضاحتیں دیتا تھک گیا ہوں۔ یہ کالم منگل کی صبح لکھ رہا ہوں۔ ربّ کریم سے فریاد ہے کہ اس کے چھپنے تک نگران وزیر اعظم کا نام طے ہوجائے اور میری جان چھوٹے۔

اپنے صحافتی کیرئیر کا طویل عرصہ میں نے رپورٹنگ کی نذر کیا ہے۔ جبلت اب بھی رپورٹروں والی ہے۔ چند معاملات میں تجسس مگر طبیعت میں اب موجود نہیں رہا۔ شاید اسی لئے ایک لمحے کو بھی جی نہیں چاہتا کہ اسلام آباد میں مقیم ان لوگوں سے رابطہ کروں جو میری دانست میں ایوان ہائے اقتدار میں ہوتی سرگوشیوں کے بارے میں باخبر رہتے ہیں۔

ان کی وساطت سے تین یا چار نام مل جاتے تو اکیلے میں بیٹھ کر حساب کتاب لگاتا اور اپنے تئیں ایک نام ”فائنل“ کردیتا۔ مجھے قوی امید ہے کہ تھوڑی کوشش سے حاصل کئے ناموں پر منطقی حوالوں سے طویل غوروخوض کے بعد میں جو نام ”فائنل“ کرتا بالآخر یکم جون 2018کی صبح وہ نگران وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھاتا نظر آتا۔ مجھے لیکن اب Exclusiveدینے میں دلچسپی نہیں رہی۔ Breaking Newsویسے بھی 24/7چینلوں کی وجہ سے تکلیف دہ حد تک مضحکہ خیز بن چکی ہیں۔ پرانی وضع کا صحافی ہوتے ہوئے اس سے لاتعلق ہونے ہی میں عافیت محسوس کرتا ہوں۔

نگران وزیر اعظم کا نام تلاش کرنے کے ضمن میں میری بے اعتنائی کا اصل سبب عمر کے ساتھ نازل ہوئی سستی ہرگز نہیں ہے۔ ٹھوس حقیقت تو یہ ہے کہ 2014کے بعد سے ثابت ہوگیا ہے کہ وطنِ عزیز میں مناسب اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم کے دفتر میں بیٹھے شخص کی بھی کوئی وقعت نہیں ہے۔نواز شریف اس سال تو بچ گئے لیکن جولائی 2017کے بعد سے گلی گلی ”مجھے کیوں نکالا؟“ کا سوال اٹھائے خوار ہورہے ہیں۔

ان کے نامزد کردہ شاہد خاقان عباسی کی بے بسی راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک پر دئیے دھرنے نے پوری دنیا کے سامنے عیاں کردی تھی۔ آدمی مگر ڈھیٹ ہیں۔ چہرے سے حواس باختہ نظر آتے مگر ہنستے مسکراتے ہوئے اپنے عہدے پر براجمان رہے۔ 31مئی 2018تک ڈنگ ٹپانے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔ تاریخ میں ان کا نام بھی پاکستان کے وزرائے اعظموں کی فہرست میں آجائے گا۔ مثال کے طور پرجیسے آئی آئی چندریگر کا نام۔

میں نگران وزیر اعظم کا نام تلاش کرنے میں یقینا دلچسپی لیتا اگر یقین ہوجاتا کہ 31مئی کے بعد آنے والی حکومت کو دو ماہ کے اندر نئے انتخابات کرواکر گھر نہیں جانا ہے۔ صاف ستھرے،نیک پاک اور ذہین وفطین ٹیکنوکریٹس کی ایک ٹیم کے ساتھ کم از کم تین سال کے لئے حکومت کرنے کے بعد اس ملک کو ہمیشہ کے لئے سیدھا کردینا ہے۔

ایسی حکومت کے لئے مارکیٹنگ بہت ہوئی۔ بات مگر بنی نہیں۔ٹیکنوکریٹ حکومت کی مارکیٹنگ کرنے والے یہ حقیقت سمجھ نہیں پائے کہ ہماری ریاست کے دائمی اداروں میں اب زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں تحقیق کے بعد ریاستی رائے بنانے والے ذہن موجود ہیں۔ انہیں بیرون ملک سے کسی معین قریشی یا شوکت عزیزکو بلاکر پاکستانی معیشت کوسمجھنے کی ضرورت نہیں رہی۔

کراچی میں امن کسی ”ماہر“ کی معاونت کے بغیر بحال ہوا ہے۔ ”ماہر“ کے بجائے ادارہ جاتی Brainstormingہوئی۔Apex Committeesکی گنجائش پیدا کی اور امن بحال ہوگیا۔ کنیڈی سکول آف گورننس کے کسی PHDکی ذہانت سے اس ضمن میں رجوع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

ریاست کے دائمی اداروں میں عدلیہ بھی شامل ہے اور وہ ان دنوں بہت متحرک،آزاد وخودمختار ہے۔ احتساب بیورو بھی اب Overtimeلگارہا ہے۔نسبتاََ غیر معروف اخبار میں غیر نمایاں طورپر چھپے کالم بھی غور سے پڑھتا ہے۔ ایسے ہی ایک کالم کی بدولت احتساب بیورو نے چند روز قبل دریافت کیا کہ نواز شریف نے صرف ایک سال میں چار ارب90کروڑ ڈالرکی خطیر رقم مبینہ طورپر ہمارے ازلی دشمن کے خزانے میں منی لانڈرنگ کے ذریعے منتقل کردی تھی۔عالمی بینک نے ایک باقاعدہ پریس ریلیز کے ذریعے یقین دلانے کی کوشش کی کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔

احتساب بیورو کو لیکن پاکستانی صحافیوں کی تحقیقاتی صلاحیتوں پر کامل یقین ہے۔ تفتیش لہذا جاری ہے۔ ایسے فعال بیورو کے ہوتے ہوئے اب کرپشن پر سیاپا کرتے ہوئے سیاست دانوںکو ووٹ لینے اوراینکر خواتین وحضرات کو اپنے شوز کے لئے Ratingsبڑھانے کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی۔ صاف ستھرے، نیک پاک اور ذہین وفطین ٹیکنوکریٹس کی طلب لہذا ختم ہوئی۔

نگران وزیر اعظم ریاستی اداروں کی بھرپور فعالیت کے اس موسم میں محض ایک ٹوکن مہرہ ہے۔ نمائشی ہے۔ چند ہفتوں کے لئے وزیر اعظم کے دفتر میں بٹھائے شخص کا نام ڈھونڈنے میں وقت ضائع کرنے کا لہذا مجھے کوئی شوق نہیں۔

مجھے اب یہ خدشہ بھی نہیں رہا کہ انتخابات شاید بروقت نہیں ہوپائیں گے۔انتخابات میں تاخیر کے امکانات ہوتے توعمران خان اور ان کی جماعت بہت محنت سے اپنے لئے اقتدار میں آنے کے بعد والے سو دنوں کے لئے ایجنڈا تیار کرکے قوم کے روبرو نہ رکھتی۔ ان کی اس ضمن میں محنت یہ عندیہ دے رہی ہے کہ انتخابات بروقت ہوں گے اور اب کی بار خاں صاحب وزیر اعظم ہوں گے۔

انہیں مگر پیشگی مبارک دینے کو بھی جی میرا مچل نہیں رہا۔ قومی اسمبلی کی 272نشستوں پر براہِ راست انتخابات ہونا ہیں۔ خاں صاحب کے وزیر اعظم بننے کے لئے ضروری ہے کہ انتخاب ہوجانے کے بعد تحریک انصاف ان میں سے کم از کم 137نشستیں جیت جائے تاکہ ایک ووٹ ہی سے سہی وہ اکثریتی جماعت ثابت ہوجائے۔

گزشتہ اتوارکا سارا دن میں اکیلا بیٹھا ملک کے نقشے کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے خیال کو کم از کم 100حلقوں میں گھماتا رہا۔ نون کے لاحقے ولی مسلم لیگ کے ساتھ ان حلقوں میں Neck on Neckوالا معاملہ نظر آیا۔ Walkoverکی فضا نظر نہیںآئی۔ فیلڈ سے دوری نے شاید میری تجزیاتی صلاحیتوں کو زنگ لگادیا ہوگا۔ خاں صاحب کے لئے 100دنوں کا ایجنڈا تیار کرنے والوں میں سے ایک محترم دوست نے کیونکہ اصرار کیا ہے کہ انتخابات والے دن تحریک انصاف کی کم از کم 140سیٹیں پکی ہیں۔

میں نے تفصیل جاننے کے لئے بحث کا تقاضہ کیا تو وہ وقت کی کمی کی وجہ سے اس کے لئے تیار نہ ہوئے۔ ان سے تفصیلی ملاقات ہوگئی تو اپنے ذہن میں آئے حساب سے دوبارہ رجوع کرلوں گا۔شاید اس وقت تک یہ فیصلہ بھی ہوجائے کہ تحریک انصاف چکوال سے سردار غلام عباس کو قومی اسمبلی کے لئے ٹکٹ دے رہی ہے یا نہیں۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).