لاعلمی کی حیا سے علم کی بے حیائی زیادہ بہتر ہے


اپنے خیالات تحریر کرنے سے قبل بیشتر سوچا کہ خواتین کا مسئلہ ہے ، میں کیوں قلم کو زحمت دوں ۔ اس مسئلے پر ظاہر ہے میری رائے کسی خاتون سے مستند کس طرح ہو سکتی ہے؟ سچ پوچھیں تو یہ خوف بھی کہیں خواتین کے بحث میں اپنی معصومانہ رائے شامل کرکے مذاق نہ بنوالوں۔ مگر یہ خوش فہمی چاہے جیسی بھی ہے آخر میری رائے تو ہے۔ جب ہے تو پھر شرمانہ کیسا؟ کیوں نہ اسکا برملا اظہار کیا جائے۔

طیبہ مصطفیٰ اکثر حقوق نسواں اور اس سے ملتے جلتے موضوعات کو اپنے قلم کی زینت بناتی ہیں اور ان کا انداز مجھے بھاتا بھی ہے۔ حال ہی میں انہوں نے ایک تحریر پڑھی اور اس پر اپنی رائے دینے پر مجبور ہو گئیں جیسا کہ اب میں بھی ہوا ہوں۔

محترمہ طیبہ نے لکھا کہ ہر بات بتانا یا جاننا لازم نہیں ہوتی۔ مجھے ان کے اس ابتدائیے سے ہی اختلاف ہے۔ اول تو ہر شخص کو وہ سب کچھ جاننے کا حق حاصل ہے جس کی وہ جستجو رکھتا ہے اور مناسب وقت پر انسان حقیقت تک پہنچ ہی جاتا ہے۔ آگہی سکون جب کہ عدم آگہی بے چینی اور اضطراب پیدا کرتی ہے۔ بلکہ مسائل کو جنم دیتی ہے۔ سوال میں آدھا علم چھپا ہوتا ہے۔ بات کرنے میں بھی مسائل کا حل پوشیدہ ہوتا ہے۔

شادی کے بعد سیکس کے بارے میں کہا گیا ایک ظاہر ہی سی بات ہے۔ انتہائی احترام کے ساتھ یہ ظاہر ہی سی بات نہیں ہے۔ نہ ہی بعد میں اور نہ ہی شادی سے پہلے۔ ہم بالغ پہلے ہوتے ہیں اور شادی کی نوبت بعد میں آتی ہے۔ ہمارے یہاں تو بچے بھی اس فعل سے محفوظ نہیں۔ ہمیں تو اپنے بچوں کو بھی یہ سب سمجھانے کی ضرورت ہے۔ پھر بالغان میں دیکھ لیا جائے توسڑکوں پر رکھے ایدھی کے جھولے کیوں بھرے رہتے ہیں؟ گلی محلے میں کھلے کلینک کیوں محض ابورشن ہی کا کاروبار بن کر رہ گئے ہیں۔ معاشرے میں بہت سی ذہنی ،جسمانی اور روحانی بیماریاں کیوں جنم لے رہی ہیں۔ شادی شدہ جوڑے فیملی پلاننگ سے آج بھی اس قدر نا بلد کیوں ہیں؟ میرے خیال میں اس سب پر بات کرنے کی۔ آگہی کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ منٹو تو مدتوں پہلے “سرکنڈوں کے پیچھے” کی حکایت لکھ گیا۔ آپ آج بھی انکھ بند کرنے کی بات کرر ہی ہیں۔

خواتین کی ماہ واری سے متعلق بات ہوئی۔ کہا گیا کوئی بھی خاتون کسی بھی سپر اسٹور سے خرید سکتی ہیں۔ آپ خود ہی بتائیں میرے ملک کی کتنی فیصد خواتین کی رسائی سپر اسٹور تک ہے؟ کیا بڑے شہروں کے سوا کہیں سپر اسٹور موجود بھی ہیں؟ پھر سوال تو یہ بھی ہے کہ پیڈ کی افادیت اور استعمال کے بارے میں کتنی خواتین جانتی ہیں؟ کیا پیڈ کے متبادل آج بھی استعمال نہیں ہو رہے جو کہ برسوں پہلے بھی ہوا کرتے تھے؟

اگر ایک عمل ہے جو کہ قدرتی ہے اور سب کے ساتھ ہے۔تو اس پر بات کرنے میں آخر حرج ہی کیا ہے؟

آپ نے کہا اگر ’’ شادی کے بعد سیکس، پریگننسی ، ڈیلیوری کا عمل اور عورت کو اس کا سامنا‘‘ پر بلاگ لکھ کر بھیج دوں تو اس پر بلاگ لکھنا مقصود نہیں۔ آپ ہی بتائیں کیوں مقصود نہیں؟ اگر اس پر معنی خیز بلاگ لکھ دیا جائے تو کیا پڑھنے والوں کو افادیت نہیں ہوگی؟ خواہ ایک مرد ہی کیوں نہ پڑھ رہا ہو؟ کیا ہمارے یہاں کہ مردوں کو خاص کر کہ جو رشتہ ازدواج میں بندھنے جا رہے ہوں کو یہ جاننے کا حق نہیں ہونا چاہئے کہ خاتون کا بچہ پیدا کرنا کس قدر پیچیدہ اور تکلیف دہ عمل ہے۔ پھر اس میں کب خاتون کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس عمل کے پہلے اور بعد کی کیا کیا تدابیر ہیں؟

آپ ہی بتائیے ،سیکس اور ان جیسے تمام مسائل کے بارے میں اگر آپ کو سب سے پہلے پتہ چلا تو کیسے؟ آخر کہیں سے تو آگہی ملی؟ اگر نہ ملتی تو کیا ہوتا؟ میرا سیکس سے پہلا تعارف میرے احباب نے کروایا۔ اور جو کچھ انہوں نے بتایا خاصہ ادھورا تھا۔ ہمارے ہاں تو شادی شدہ جوڑے بھی اس قسم کے مسائل پر بات کرنے سے پہلے بس سوچتے اور شرماتے ہی رہتے ہیں۔ پھر غیر شادی شدہ کس قدر اندھیرے میں ہوں گے۔ اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ آخر ہر پاکستانی کے پاس انٹرنیٹ آج بھی میسر نہیں۔ اور جس کو میسر ہے بھی تو مثبت استعمال سے واقف نہیں۔ پھر اس طرح کے موضوعات پر انگریزی زبان میں زیادہ کھلی ڈلی بحث ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مجھے وہاں روشنی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔

میرے خیال میں لاعلمی کی حیا سے علم کی بے حیائی زیادہ بہتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).