جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کے نام اک کھلا خط


محترم جناب جنرل صاحب:

میری عمر اب چھیالیس برس ہے اور میں عین اسی نسل سے تعلق رکھتا ہوں جس کے ضائع ہونے کے بارے میں آپ نے چند ماہ قبل جرمنی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ (ماخوذ) چالیس سال قبل افغانستان میں تشدد کی حمایت کرنا پاکستان کی غلط پالیسی تھی اور اس پالیسی نے پاکستان کی نسلوں، طرزِ معاشرت اور شہریوں کے اذہان کو مسلسل خرابی کے گھن چکر میں ایسا رکھا کہ پاکستانی نسل، معاشرت اور خیال پہچانا ہی نہیں جاتا۔

میں سولہ برس کا تھا جب جنرل ضیاءالحق کے طیارہ کا حادثہ ہوا اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں اپنے والد صاحب، جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا، کا ہاتھ تھام کر ملکوال کے بازار میں سے گزر رہا تھا تو پیپلز پارٹی کے اک جیالے کارکن نے جو ریہڑی بان تھا، انہیں مبارک دی۔ والد صاحب نے اس بات کا برا منایا اور کہا کہ کسی کے مرنے کی خوشی مہذب رویہ نہیں اور یہ کہ وطن و ریاست کے سر سے اک دم ہی چوٹی کی قیادت کا معدوم ہو جانا بذات خود اک بحران تھا۔ میرے لیے یہ بہت حیرت کی بات تھی کیونکہ میرے والد صاحب نے جنرل ضیاء کے دور میں اپنے حصے کی اذیت بہرحال کاٹ رکھی تھی۔

طیارہ کے واقعہ کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا دورِ حکومت آیا اور ٹھیک چھ ماہ بعد، میں تقریبا سترہ برس کی عمر میں اس بات پر بھرپور یقین کر چکا تھا کہ وہ اک کرپٹ، بددیانت خاتون اور پاکستان کے تحفظ کے لیے اک خطرہ ہیں۔ میں اس بات کا بھی یقین کر چکا تھا کہ سیاستدان اس کرہ ارض کی بدترین مخلوق ہوتے ہیں اور جب ان کی حکومت کو اٹھارہ ماہ بعد ٹھوکر مار کر نکال باہر کیا گیا تو مجھے کامل یقین تھا کہ اب پاکستان کے دن بدل جائیں گے کیونکہ ان کی جگہ میاں نواز شریف صاحب لے رہے تھے۔ انہیں بھی تقریبا بیس ماہ بعد حکومت نکالا مل گیا۔ پھر بینظیر بھٹو آئیں اور پھر تقریبا دو سال بعد نکالی گئیں۔ نواز شریف صاحب آئے اور دو سال بعد پھر نکال دئیے گئے۔

میں نے پہلا ووٹ سنہ 1993 میں پیپلز پارٹی کو دیا تھا، جناب جنرل صاحب، اور خیال تھا کہ ووٹ دینا اک فضول اور بےکار کی کارروائی ہے۔ ملکوال کی مقامی سیاست کے زیراثر مجھے یہ کام مگر کرنا ہی تھا۔ میں مانتا ہوں کہ شعور میں پختگی تقریبا تیس سال کی عمر گزار لینے کے بعد آنا شروع ہوئی جب اسلام آباد میں رہتے ہوئے تقریبا دس سال بیت گئے تھے اور بہت سارے شہری اور آزاد خیالات کا سامنا ہونے کے ساتھ ساتھ ان سے سیکھنے کا بھی موقع ملتا تھا۔ مطالعہ میں وسعت آئی، مختلف الخیال اور اکثر اوقات اپنے خیالات سے مخالف اور متضاد خیالات کو سننے اور اپنی ذات پر جبر کرکے ان سے سیکھنے کا موقع ملتا تھا۔

جناب والیٰ، مقصد آپ کو اپنی زندگی کی کہانی سنانا نہیں، بس اک مختصر پس منظر بیان کرنا تھا اور اب میں مقصد کی جانب لوٹتا ہوں۔

اور مقصد اپنی تھکن بیان کرنا ہے جس کا اک براہِ راست اثر میرا اپنی ریاست کے معاملات سے بیزاری کی صورت میں نمودار ہو رہا ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ مجھ سے اگلی آنے والی نسل جو میری نسل کی محنت سے تھوڑی مڈل کلاس ہو گئی ہے، وہ شاید یہ بیزاری بھی محسوس نہیں کرے گی۔ وہ شاید کچھ بھی محسوس نہیں کرے گی کہ انہیں پاکستان، عمومی طور پر اک ابنارمل اور غیرفطری معاشرت پر مبنی ملک محسوس ہوتا ہے جس میں شور و غوغا بہت ہے اور معاشرے کی اٹھان پابندیوں اور سختی پر ہے جہاں اپنے ٹیلنٹ کی بنیاد پر اک صحت مند زندگی گزارنا ممکن نہیں۔ گویا مجھ جیسے جو یہاں پیدا ہو کر اک ریاست کی موجودگی میں بھی سیاسی یتیم رہے، وہ اپنے آنے والے سالوں میں تنہائیوں کے اس لیے ڈسے ہونگے کہ ان کے پیاروں کو یہ ریاست اک فطری زندگی نہ دے پائی۔

تو جنابِ محترم، میں اب چونکہ سولہ سال کا نہیں رہا تو مجھے پاکستانی سیاستدانوں کے کرپٹ ہونے کے معاملہ پر کوئی یقین نہیں۔ میں اب سولہ سال کا نہیں رہا تو مجھے میڈیا کے ذریعے ذہن سازی کی مسلسل کوششوں سے متلی محسوس ہوتی ہے۔ میں اب سولہ سال کا نہیں رہا تو مجھے آپ کا ادارہ پاکستان کی سیاسی بقا کا واحد ضامن نہیں محسوس ہوتا۔ میں اب سولہ سال کا نہیں رہا تو مجھے پاکستان کے آئین کی حرمت پر بھرپور سیاسی ایمان ہے۔ میں اب سولہ سال کا نہیں رہا تو کچھ اندازہ ہے ان ریاستی غلطیوں کا جن کی وجہ سے پاکستان، جو اک عظیم ملک بن سکتا تھا، اک عجیب ملک بن کر رہ گیا۔ میں اب سولہ سال کا نہیں رہا تو مجھے حکایت کے مرحوم عنایت اللہ صاحب کے بیان کردہ معجزات کے بیانیہ سے نفرت اور سبطِ حسن کے بتائے ہوئے ارتقاء سے محبت ہے۔ میں اب چونکہ سولہ سال کا نہیں رہا، سر، تو مجھے تبدیلی کا چورن نہیں، سیاسی ارتقاء کی معجون زیادہ پراثر معلوم ہوتی ہے۔

اور چونکہ جنرل صاحب، میں اب سولہ سال کا نہیں رہا تو میں اس بات کو بھی تسلیم نہیں کرتا کہ سیاست میں واقعات خود بخود وقوع پذیر ہوتے ہیں، چاہے وہ سنہ 2014 کا دھرنا تماشہ ہو یا 2017 کا ختم نبوت کے معاملہ پر رضویانہ ڈھکوسلا، وہ محترم پرویز مشرف صاحب کی کمر کا درد ہو، ڈان لیکس کے معاملہ پر میڈیائی یلغار، اک سیٹھ-میڈیا چینل کی بندش اور پھر اسی چینل پر مہربانیاں یا اک ہیروں جیسے لوگوں پر مبنی جے آئی ٹی کی رپورٹ کی دس جلدیں جو کہ مجھ جیسا مشاق ٹائپسٹ سمجھتا ہے کہ چھ لوگ ان چند دنوں نہیں بنا سکتے۔

سر، میرے وطن میں مسلسل خوف ہے۔ ریاست ماں نہیں، سوتیلی ماں کا وجود لیے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔ آپ کے ادارے، جو کہ میرا ادارہ بھی ہے، سے لوگ خوفزدہ ہیں اور اس نتیجے پر گویا پہنچ چکے ہیں کہ آپ کے ادارے کے ساتھ Reason نہیں کیا جا سکتا کیونکہ آپ کا ادارہ ریاست کی اصل طاقت رکھتا ہے اور اس طاقت کا غیرمنصفانہ استعمال کرنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتا۔ چند ماہ قبل، اک وفاقی ادارے نے ریاستی قانون کے ہوتے ہوئے پاکستانی شہری، عدالت میں پیش کیے بغیر اس لیے اٹھا کر اپنی قید میں کئی دن رکھے کہ ان کے فیس بک سٹیٹسز اور ٹویٹس “قابل قبول” نہ تھیں۔ میں نہیں جانتا کہ گراؤنڈ-اپ آپ کو شاید “تمام ہرا ہے” کی رپورٹس ملتی ہونگی، مگر سر، وطن میں شورش ہے، معاشرتی بےچینی ہے، مسلسل خوف ہے، گھٹن ہے، بےیقینی ہے، بیزاری کی کیفیت ہے اور اک بیانیہ ہے کہ یہاں کچھ بھی صحت مند ہونے والا نہیں، تو لہذا، یہاں سے بھاگ نکلنا ہی بہتر آپشن ہے۔

اس تاثر کو ختم ہونا چاہیئے جناب۔ گھٹن میں تو جانور نہیں مناسب طور پر پل سکتے، انسان کیا بڑے ہوں گے اور کیا بڑھیں گے!

اس ساری درخواست میں بالآخر مرضی محترم جنرل صاحب، آپ کی اپنی ہی ہے۔ یہ کہتے ہوئے اپنی گزارش ختم کرتا ہوں کہ پاکستان، اس وقت، اک صحت مند معاشرت کا حامل ملک نہیں اور اک مسلسل خوف اور ردعمل کی کیفیت میں ہے۔ اس میں ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ ہم پہلے ہی بہت پیچھے ہیں۔

مخلص،

مبشر اکرم

اک پاکستانی شہری


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).