جادوگر نے لال ٹوپی سے کبوتر نکالا


بھائی اس حکایت کو کان لگا کر سنو۔ یہ کہانی نہیں، کتھا نہیں، داستان نہیں، یہ بزرگوں کی نصیحت ہے۔ فقیر اسے خلق خدا کے فائدے کے لیے عام کرتا ہے۔ یہ ان دنوں کا قصہ ہے کہ ہمارے شہر میں ابتلا کا موسم اترا تھا۔ خرابی کا وقت ہمارے شہر میں اکثر آتا تھا۔ مائیں بچوں کو گھروں میں روک لیتی تھیں۔ گل گوتھنے بچے کلکاریاں مارنا بھول جاتے تھے۔ گبھرو جوان، رگ رگ میں شوخی شرارت بھری تھی مگر ٹڈی دل کے اترنے کی خبر پاتے تھے تو کان لپیٹ کر نامعلوم کس کونے کھدرے میں جا چھپتے تھے۔ خوش رنگ خوبانِ شہر اپنے بالا خانوں کے دریچے بند کر لیتی تھیں۔ شاخوں پر پھوٹتی کلیاں اپنے جوبن کی داد پانے کی آس میں مرجھا جاتی تھیں۔ کسی کو ہمت نہیں ہوتی تھی کہ انہیں چن کر گجرے پروئے یا بلور صراحی گردن پر ڈھلکتے اجاڑ جوڑے میں آویزاں کر لے۔ سفید ریش بوڑھے وبا کا نام سنتے تھے تو بے چراغ گلی میں لاٹھی ٹیکتے اپنی دہلیز کے پار ایسے غائب ہوتے تھے گویا کسی تاریک غار میں چلہ کاٹنے جا پہنچے۔ بڑی بوڑھیاں چاندی بالوں پر بڑی سی چادر کھینچ کر مناجات کا ورد شروع کر دیتی تھیں اور اپنے ضعیف سہاگ کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگتی تھیں۔ بات یہ ہے کہ یہ شہر جادو کے سائے میں زندہ تھا۔ یہاں کے راگ رنگ کی بندش میں جنتر منتر تھا۔ یہاں کے لوگوں کا رہن سہن جادو سے عبارت تھا۔ جادو کے کھیل سے انہیں ایسا لگاﺅ تھا کہ پورا سال گویا جادو کا میلہ چلتا تھا۔ اور غضب یہ کہ جادو کے ہر نئے کھیل کے ساتھ شہر میں کوئی خرابی اترتی تھی۔ کبھی خوفناک آندھی سے چھتیں اڑ جاتی تھیں تو کبھی بارود کی بارش سے کھیت کھلیان جل جاتے تھے۔ کبھی یہاں کے بچے جوانی کی بہار دیکھے بغیر بوڑھے ہو جاتے تھے۔ کبھی کنویں کا پانی پاتال میں اتر جاتا تھا تو کبھی شہر کے رعنا جوان بن بتائے آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے تھے۔ کچھ کہتے تھے یہاں کی ہوا میں خرابی ہے۔ کوئی پانی میں زہر کا اثر بتاتا تھا۔ کچھ کہتے تھے کہ مٹی بنجر ہے ۔ یہ سب آفتیں اس شہر پر آتی تھیں مگر جادو میں ایسا رجھاﺅ تھا کہ بچے بوڑھے اپنی مصیبتیں بھول کر چوک میں ہجوم کرتے تھے اور تماشا دیکھتے تھے۔

یہ جاننا مشکل تھا کہ شہر میں جادوگروں کی اصل تعداد کیا تھی۔ لیکن دو ساحروں کا بہت شہرہ تھا۔ ایک تو جدہ کا جادوگر تھا اور دوسرا …. بس یہی تو غضب تھا۔ کوئی اس دوسرے جادوگر کا نام تک نہیں جانتا تھا۔ کسی نے اس کی شکل تک نہیں دیکھی تھی۔ نامعلوم کیسے چپاتی بٹتی تھی کہ نئے کھیل کی آمد آمد ہے اور فضا میں جادو کے منظر نمودار ہو جاتے تھے۔ بڑے بوڑھے مگر متفق تھے کہ اس شہر کا اصل جادوگر یہی آنکھ اوجھل ساحر تھا۔ جدہ کا جادوگر تو موسم کا پنچھی تھا۔ چیت بیساکھ میں پھیرا کرتا تھا جب گندم میں درانتی پڑتی تھی یا پھر ساون رت میں آواز لگاتا تھاجب آم کے باغ میں ٹپکے کا میلہ سجتا تھا۔ مٹھی بھر گیہوں زمیندار سے لیے، کٹورا بھر آٹے کا دان ساہوکار کے دروازے سے ملا، فصل کی نشانی دانہ بھر چاول چونچ میں رکھے۔ کمنڈل میں کچے آم دھرے اور جھولی بھر دعائیں دیتا اگلی رت تک رخصت ہو گیا۔ اوجھل جادوگر کا ڈنکا البتہ بارہ مہینے بجتا تھا۔ آدھی کشش تو یہی تھی کہ کیسا باریک کاریگر ہے۔ خود نظر آئے بغیر ہوا میں تصویریں تراشتا ہے۔ ارگن باجے سے گیت سناتا ہے۔بادلوں میں رقص کرتی اپسرائیں دکھاتا ہے۔ دشمن کی بربادی کے منظر کھینچتا ہے۔ اوجھل جادوگر کے پاس طرح طرح کے رنگوں کی بہت سی ٹوپیاں تھیں۔ وہ اپنی چھڑی سے جس طرف اشارہ کرتا، اسی رنگ کی ٹوپی سے سفید براق کبوتر پھڑپھڑاتے ہوئے برآمد ہوتے اور قطار اندر قطار پرواز کرتے بادلوں میں گم ہو جاتے تھے۔

عامی، غریب، اجلاف اور اہل حرفہ کی کیا مجال کہ اوجھل جادوگر کے بارے میں دل میں کوئی خیال بھی لائیں۔ اشراف اور امرا میں البتہ اس غلطی کے کچھ نمونے ملتے تھے۔ ایک بادشاہ نے جادوگر کا راز جاننے کی خواہش کی تھی۔ وہ بادشاہ بانسری کا یکتا کلا کار تھا۔ اس مرلی منوہر کی تان سن کر خلقت قطار اندر قطار گھروں سے نکل آتی تھی۔ جادوگر کے غضب کا شکار ہو کر پھانسی پا گیا۔ ایک ملکہ نے کہ حسن اور تدبر میں جس کی مثال چار دانگ عالم میں نہیں تھی، جادوگر سے لڑائی مول لی۔ بھرے شہر میں عین جلوس شاہی کے دوران دھواں ہو گئی۔ ایک اور بادشاہ نے پہاڑوں میں بیٹھے جادوگر کے چیلوں کی طرف اشارہ کیا تھا، وہ ایسے گرداب میں آیا کہ بن باس لے کر گہرے پانیوں کے پار صحراﺅں میں نکل گیا۔ اس کے بچے برسوں اس کا انتظار کرتے رہے۔ رعایا کو بعد مدت اپنے بادشاہ کے دوبارہ درشن نصیب ہوئے۔ ایک اور بدقسمت بادشاہ کا جوان پوت خرکار اٹھا کر لے گئے۔ وہ اپنے وقت کا یوسف تھا مگر گمشدہ لعل کے نام کی پکار سینے میں دبائے شہر کی گلیوں میں جوگی سمان پھرتا تھا۔ کبھی ایک سادھو کے دوار جاتا تھا، کبھی دوسرے سوامی کی چوکھٹ پر ماتھا ٹیکتا تھا۔ یہ سب قصے خلقت کو معلوم تھے اور لطف یہ کہ خلقت جادوگر کے نام کی مالا جپتی تھی۔

تو یہ اس برس کا قصہ ہے کہ جادو کے نئے کھیل کی خبر گلی کوچوں میں پھیل چکی تھی۔ لڑکے بالے سرگوشیوں میں ایک دوسرے کو بتاتے تھے کہ غائب جادوگر اس دفعہ ایسا کھیل لے کر میدان میں اترا ہے کہ نہ کسی نے دیکھا اور نہ سنا۔ تماشائیوں کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جائیں گے۔ جادوگر نے دور دور کی زمینوں سے موکلوں کا انوکھا جتھا اکٹھا کیا ہے۔ لڑکوں کا جوش و خروش اپنی جگہ مگر گلی کی نکڑ پر میلی چادریں لپیٹ کر اونگھتے بوڑھوں کی آنکھوں میں خوف کے سائے لرزتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ غائب جادوگر کے ہر نئے کھیل سے بستی میں خرابی اترتی ہے۔ اگر اس بار کھیل کا شہرہ ایسا پھیل گیا ہے اور نقاروں کی چوٹ سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تو خدا جانے بستی پر کیا آفت آئے گی۔ مگر پھر عجیب تماشا ہوا۔ شہر کے چوک میں لال ٹوپی نظر آئی۔ چھڑی لہرائی اور تماشا کرنے والی آنکھوں نے دیکھا کہ لال ٹوپی سے نکلنے والا کبوتر اڑنے کی بجائے ایک ٹانگ پر پھدکتا چوک ہی میں لوٹ پوٹ ہونے لگا۔ اس پر غضب یہ کہ اچانک تماشائیوں کو جادوگر کا ہیولا بھی نظر آنے لگا۔ اس کی ہیبت ایسی تھی کہ کمزور دل تماشائیوں نے خوف سے آنکھیں بند کر لیں۔ جن منچلوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر ذرا آنکھوں پر زور دیا، انہیں جادوگر کے لباس اور کل پرزوں میں عیب بھی نظر آنے لگے۔

جاودگر کا سحر ٹوٹ رہا ہے۔ ابھی تو سب مزے سے کھیل دیکھ رہے ہیں۔ اگلی بار جادو کی کشش ختم ہو جائے گی اور جادوگر گلی کے بچوں کا تماشا بن کر رہ جائے گا۔ جادوگر کڑیل جوان ہے، ہاڑ ایسے چوڑے جیسے برگد کا پیڑ کاٹ کر تراشے ہیں۔ قد میں قطب کی لاٹھ ہے۔ اس کی انگلیوں میں ایسا ہنر ہے کہ جی چاہے تو ریشم کے تھان کاتے اور من بھائے تو مدھر سروں کا جال بنے ۔ مگر لال ٹوپی میں بدشگونی کا کوئی بھید چھپا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ جادوگر کے ہنر پر ماہ و سال کی گردش سے زوال آ رہا ہے۔ کچھ کو ڈر ہے کہ اگر اس کھیل میں جادوگر کی اپنی بھد اڑ رہی ہے تو شہر پر کیا خرابی اترے گی۔ بڑے بوڑھے مگر متفق ہیں کہ جادوگر کچھ دیر کے لیے یہ تمثیل روکے اور ایک طرف بیٹھ کر سوچ بچار کرے کہ اس شہر کی گلیوں سے، یہاں کے مرد و زن سے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نگر کی رونقوں سے اس کا روزگار بندھا ہے۔

(25 مئی، 2014ء)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).