کل پھر آنا


 ممتاز افسانہ نگار تیجیندر شرما پنجاب کے شہر جگراؤں میں 21 اکتوبر 1952 کو پیدا ہوئے۔ دلّی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم۔ اے کی ڈگری لی اور کمپیوٹر سائنس میں ڈپلوما حاصل کیا۔ ان کے افسانوں کے مجموعے “کالا ساگر” (1990)، “ڈھبری ٹائٹ” (1994)، “یہ کیا ہو گیا” (2003)، “بے گھر آنکھیں ” (2007) شائع ہو چکے ہیں۔ پنجابی، نیپالی، اڑیا، مراٹھی، گجراتی اور انگریزی میں افسانوں کے ترجمے ہو چکے ہیں۔ انگریزی میں بھی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ 1998ء سے تیجیندر شرما  برطانیہ میں مقیم ہیں۔  انہیں ملکہ برطانیہ نے 2018 میں او بی ای (OBE) کے اعزاز سے نوازا۔

٭٭٭    ٭٭٭

“دیکھ ریما، میں اب پچاس کا ہو چکا ہوں۔ میرے لیے اب عورت کے جسم کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا…اب تم مجھ سے کوئی امید نہ رکھنا۔”

کبیر کے یہ الفاظ ریما کے دل کی دھڑکن کو اتھل پتھل کر دینے کے لیے کافی تھے۔ کچھ دن کی خاموشی کے بعد ہی اس نے اپنا منھ کھولا، “کبیر آپ پچاس کے ہو گئے تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ میں تو ابھی سینتیس کی ہوں۔ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ہماری ازدواجی زندگی آپ کے صرف ایک جملے سے ختم ہو گئی۔ جس طرح پیٹ کو بھوک لگتی ہے، کبیر! جسم کو بھی بھوک محسوس ہوتی ہے۔ یوں تو پیٹ کی بھوک شانت کرنے کے کئی طریقے ہیں لیکن جسم…”ریما کو اپنی بات درمیان میں ہی روکنی پڑی۔ کبیر کے بے سرے خراٹے کمرے میں گونجنے لگے تھے۔

ریما کو وہم ہے کہ 13 کا ہندسہ اس کے لیے بدقسمتی لے کر وارد ہوتا ہے۔ اگر 13 تاریخ کو جمعہ ہو تو وہ گھر سے باہر نہیں نکلتی مگر آج تو اس کی شادی کو 13 برس مکمل ہو چکے ہیں اور آج جمعہ بھی ہے۔ آج کبیر نے یہ جملہ بول کر ریما کے دل میں 13 کے ہندسے کے بارے میں اس کے خیالات کو بنیاد فراہم کر دی ہے۔ کیا اب اس کی باقی زندگی کا ہر دن 13 تاریخ والا جمعہ بننے والا ہے ؟

شملہ کے رٹز ہوٹل کی وہ رات! ہنی مون کے بارے میں سن رکھا تھا۔ اس رات کی یادیں حقیقتاً بلو ہاٹ بلو کولڈ والی یادیں ہیں ؟ کبیر نے زبردستی اسے سنترے کے رس میں و وڈکا ڈال کر پلائی تھی۔ رات دس بجے سے تین بجے تک کبیر نے اپنے آپ کو پانچ بار سکھ دیا تھا اور وہم کی ماری ریما ہر بار اپنا جسم دھونے کے لیے باتھ روم میں جاتی تھی۔ ہوٹل میں بجلی کا مسئلہ چل رہا تھا، اس لیے رات کو گرم پانی فراہم نہیں تھا۔ پہلی بار تو کسی طرح ٹھنڈے پانی سے ریما نے نہالیا۔ بقیہ چار بار تو اس نے اپنے اعضائے مخصوص دھوئے اور بغلوں کو گیلے تولیے سے پونچھ لیا۔ ایک رات میں پانچ بار کرنے والا کبیر اچانک سنت کیسے بن گیا؟

کیا دو بچے پیدا کرنے کے بعد اس کے جسم میں نمک نہیں بچا؟ اپنے ملک میں گذارے تین سال کبیر کی بانہوں میں گذرے تھے۔ مگر یہاں لندن میں آ کر بسنے کے بعد سے دونوں کے درمیان ایک عجیب سرد فاصلہ بڑھتا رہا۔ لندن کا سرد موسم شاید ان کے رشتوں پر اثرا نداز ہونے لگا تھا۔

اپنے والدین کی تیرہویں اولاد ریما، اپنے شوہر سے تیرہ برس چھوٹی ریما، اپنی شادی کے تیرہ برس بعد سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر اس کا اپنے شوہر کے ساتھ رشتہ کیا ہے۔ اب بچے اتنے چھوٹے بھی نہیں کہ انھیں ہر کام کے لیے ماں کی ضرورت محسوس ہو اور اتنے بڑے بھی نہیں کہ مکمل طور پر خود کفیل ہوں۔

پھر بھی ریما کے کچھ کام تو طے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو ہر صبح تیار کرتی ہے، ناشتہ بناتی ہے، کھلاتی ہے ، پھر انھیں کار میں بٹھا کر اسکول چھوڑنے جاتی ہے۔ دونوں بچے ہائی اسکول میں پڑھتے ہیں۔ ریما کو پرائیوٹ اسکول میں بچوں کو پڑھانا پسند نہیں، اس لیے بچے اسٹیٹ اسکول میں ہی جاتے ہیں۔ کبیر کی انا کو ٹھیس پہنچتی ہے کہ اتنی بڑی ائیر لائن کے افسر کے بچے اسٹیٹ اسکول میں پڑھیں مگر ریما کی سوچ الگ ہے۔

ریما نے سوچتے سوچتے دو سال اور گذار دیے ہیں۔ اب اس نے راتوں کو رونا بند کر دیا ہے۔ کتنی راتیں وہ سج دھج کر ڈائننگ ٹیبل پر کبیر کا انتظار کرتی۔ وہ رات کو گیارہ بجے آتا اور آسانی سے کہہ دیتا کہ دفتر میں ہی کھا چکا ہے۔ ریما کھائے بغیر اور ٹیبل صاف کیے بغیر وہاں سے اٹھ کر کبیر کے ساتھ بیڈروم کی طرف چل دیتی۔ کبیر وہیں لاو ¿نج میں بیٹھ جاتا اور ٹی وی کے سامنے اونگھنے لگتا اور وہیں سوجاتا۔ اس کے منھ سے وہسکی کی مہک آتی رہتی۔ بیڈ روم میں وہ اکیلی تڑپتی رہتی اور ان خوب صورت راتوں کو یاد کرتی جب کبیر کو اس کے جسم میں دلچسپی تھی۔

“آپ آج رات پھر بیڈروم میں نہیں آئے؟”

“دفتر کے کاموں میں اتنا تھک جاتا ہوں کہ بس یہیں ٹی وی کے سامنے نیند آ جاتی ہے۔ “

“کبیر میرا بھی تو جی چاہتا ہے کہ کبھی آپ مجھ سے بھی پیار کی دو باتیں کریں۔ اس میں بھلا میرا کیا قصور ہے کہ میں اکیلی بستر پر کروٹیں بدلتی رہوں۔ “

“بھئی دیکھو ریما، میں نے تمھارے آرام کے لیے سارے انتظامات کر دیے ہیں۔ گھر میں تمام سہولیات موجود ہیں ، تمھیں اور کیا چاہیے؟”

ہاں ، ریما کو کچھ اور چاہنے کا حق کہاں ہے ؟ جسم کی بھوک کی طلب بھلا عورت کیسے کر سکتی ہے ؟ اپنی زندگی میں وہ ایسے موڑپر کھڑی ہے جب جسم اور زیادہ مانگتا ہے۔ تبھی اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کا ساتھی تھک گیا ہے۔ سچی بات ہے کہ اچانک تو نہیں ہوا ہے۔ لندن آنے کے بعد یہ تبدیلی آہستہ آہستہ آئی ہے۔

جب کبیر کی پہلی سکریٹری اے نیٹ آئی تو کبیر نے دیر سے گھر آنا شروع کر دیا تھا۔ اے نیٹ اسکاٹ لینڈ سے آئی تھی۔ اس کی زبان کبھی بھی ریما کی سمجھ میں نہیں آتی تھی مگر اس کے جسم کی زبان شاید کبیر کو بخوبی سمجھ میں آ گئی تھی۔ کبیر جب گھر آتا تو چہرہ نچڑا ہوا سا لگتا، بس کسی طرح کھانا کھاتا اور سوجاتا۔

ریما کو اچھی طرح یاد ہے کہ جب اس کا اور کبیر کا جسمانی رشتہ فعال تھا، تو مجامعت کے بعد وہ کتنی گہری نیند سوتی تھی۔ اب گہری نیند کبیر سوتا ہے اور ریما مجامعت کے لیے تڑپنے کا کام کرتی ہے۔ ریما کو محسوس ہونے لگا کہ کبیر کے کپڑوں سے دوسری عورت کے جسم کی مہک آنے لگی ہے۔

“کیا کہتی ہو تم؟ اس طرح کا گندا الزام لگاتی ہو مجھ پر؟ اتنی بیہودہ بات تم کہہ کیسے گئیں ؟” کبیر کے غصے نے ریما کو دہلا دیا تھا۔ مگر ریما اپنے شوہر کو کھونا نہیں چاہتی تھی، سر نیچا کیے سب سنتی رہی۔ شاید کہیں یہ ڈر بھی تھا کہ اسے گھر سے نہ نکال دیں۔ معاشی طور پر کبیر پر ہی سارا دارومدار تھا۔ اگر عورت معاشی طور پر آزاد نہ ہو تو بھلا وہ اپنے دل کی بات کیسے کہہ سکتی ہے۔

باقی افسانہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

تیجندر شرما
Latest posts by تیجندر شرما (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5