’برا‘ خواتین کو کب اور کیسے پہنائی گئی؟


’لڑکیاں، براہ مہربانی ‘جلد کے رنگ’ کا برا یا انگیا پہنیں اور اس کے اوپر شمیض بھی پہنیں۔‘ کچھ دن قبل مبینہ طور پر دہلی کے ایک معروف سکول میں نویں سے بارہویں کلاس کی طالبات کے لیے یہ نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ ان کا مقصد کیا تھا؟ جلد کے رنگ کی ہی زیر جامہ کیوں؟ اور دہلی کے اس شدید موسم گرما میں برا پر شمیض پہنے کے حکم کیا مطلب ہے؟ ویسے سکول میں لڑکیوں کی لباس کے متعلق یہ فرمان نئے نہیں ہیں۔

خواتین بھی پریشان ہو جاتی ہیں۔۔۔

خواتین کے زیر جامہ بطور خاص ’برا‘ کو جذبات کو ابھارنے والی جنسی شے کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ اور شاید اسی لیے آج بھی بہت سی خواتین انھیں تولیے، دوپٹے یا دوسرے کپڑوں کے نیچے چھپا کر سوکھنے کے لیے رکھتی ہیں۔ کیا کوئی مرد اپنی بنیان اور زیرجامے بھی چھپا کر سکھاتا ہے؟ یہ تحقیق کا ایک دلچسپ موضوع ہو سکتا ہے۔ آج بھی لوگ لڑکی کے ’برا کی سٹریپ‘ دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں۔ نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی پریشان ہو جاتی ہیں اور اشاروں سے لڑکی کو اسے ڈھکنے کے لیے کہتی ہیں۔ اگر آپ ان باتوں کو ماضی کی باتیں سمجھتے ہیں تو یہ اطلاع دلچسپی سے خالی نہیں ہوگي کہ فلم ’کوئن‘ میں انڈین سینسر بورڈ نے کنگنا رناوت کی برا کو دھندلا کروایا تھا۔

برا

’برا‘ اور ’پینٹی‘

گذشتہ سال دہلی میں فائن آرٹس کونسل نے مبینہ طور پر انھیں غیر معمولی وجوہات کے پیش نظر ایک ڈرامے کی پیشکش کو روک دیا تھا۔ ڈرامے کے سکرپٹ اور مکالمے کے بارے میں اس وقت یہ کہا گیا تھا کہ اس کے کچھ مناظر میں ’برا‘ اور ’پینٹی‘ جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ تاہم، منتظمین کا کہنا تھا کہ انھیں صرف برا اور پینٹی جیسے الفاظ پر نہیں تھی بلکہ اس میں کئی ’گندے‘ الفاظ کا بھی استعمال تھا۔

خواتین سے بات کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ برا پہننا ضروری بھی ہے اور ان کے پریشان کن بھی ہے۔.

رفتہ رفتہ عادت ہو گئی ابتدا میں 24 سالہ رچنا کو برا پہننے سے نفرت تھی لیکن رفتہ رفتہ انھیں عادت ہو گئی یا عادت ڈال دی گئی۔ وہ کہتی ہیں: ’نوعمری میں جب ماں برا پہننے کے لیے کہتی تو بہت غصہ آتا تھا۔ بدن عجیب سا کسا کسا سا لگتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ عادت بن گئي اور اب نہ پہنوں تو عجیب لگتا ہے۔‘

برا کی ہزاروں قسمیں

گیتا بھی کچھ اسی طرح کا خیال ظاہر کرتی ہیں: ’اگر ہم اپنے آپ میں بے چینی محسوس کریں گے تو دوسروں کو اس کا احساس ہوگا۔‘

’پہلے مجھے بغیر برا کے کسی جگہ جانے میں بے چینی ہوتی تھی لیکن پھر مطمئن ہو گئی۔‘

آج بازار میں پیڈڈ سے لے کر انڈر وایر اور سٹریپ لیس سے لے کر سپورٹس برا تک ہزاروں اقسام کی برا موجود ہیں۔

ان میں سے چند خواتین کے جسمانی ابھار میں اضافے کا دعویٰ کرتی ہیں تو بعض انھیں چھپانے اور کم کرنے کا۔

لیکن برا پہننے کا چلن شروع کیسے ہوا؟

بی بی سی کلچر میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق ’برا‘ چولی فرانسیسی لفظ ’بریزیئر‘ کا مختصر روپ ہے جس کا مطلب جسم کا اوپری حصہ اور کسنا بھی ہوتا ہے۔

فرانس میں ہی پہلی ماڈرن برا تیار ہوئی۔

فرانس کی ہرمینی کیڈول نے سنہ 1869 میں کورسیٹ (جیکٹ نما لباس) کو دو ٹکڑوں میں کاٹ کر زیر جامہ بنایا تھا۔ بعد میں اس کا اوپری حصہ برا کے طور پر پہنا اور فروخت کیا جانے لگا۔

بہر حال پہلی برا کہاں اور کیسے بنی یہ بتا پانا بہت مشکل ہے۔

برا

یونان کی تاریخ میں برا جیسے لباس کا ذکر ملتا ہے جس میں رومن خواتین چھاتیوں کو چھپانے کے لیے چاروں طرف ایک کپڑا باندھ لیتی تھیں۔

جبکہ اس کے برعکس یونانی خواتین سینے کے ابھار کے لیے ایک بیلٹ کا استعمال کرتی تھیں۔

آج جس قسم کی برا ہمیں نظر آتی ہیں ان کی تیاری سنہ 1930 کی دہائی میں شروع ہوئی جبکہ ایشیا اس کی کوئی واضح تاریخ نظر نہیں آتی۔

برا کی مخالفت ہوئی

مشہور فیشن میگزین ’ووگ‘ نے سنہ 1907 کے ارد گرد ’بریزیئر‘ لفظ کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن اس کے ساتھ ہی اس کی مخالف شروع ہو گئی۔

یہ وہ وقت تھا جب فیمنسٹ تنظیموں نے خواتین کے برا پہننے کے خطرات کے متعلق بیداری پیدا کی اور انھیں ایسے پوشاک پہننے کی ترغیب دی جو انھیں ہر قسم کی سماجی اور سیاسی پابندیوں سے آزاد کرے۔

برا

جدید برا کی ابتدا

سنہ 1911 میں آکسفرڈ ڈکشنری میں پہلی بار ’برا‘ اصطلاح کو شامل کیا گيا۔

اس کے بعد سنہ 1913 میں معروف امریکی سوشلائٹ میری فیلپس نے ریشم کے رومال اور ربن سے اپنے لیے برا بنائی اور اگلے سال اسے پیٹنٹ کرایا۔ میری کی برا کو جدید برا کا آغاز کہا جا سکتا ہے لیکن اس میں کئی خامیاں تھیں۔ یہ پستانوں کو سنبھالنے کے بجائے انھیں چپٹا کر دیتی تھی اور صرف ایک ہی سائز میں دستیاب تھی۔

جب خواتین نے برا کو نذر آتش کیا

اس کے بعد سنہ 1921 میں امریکی ڈیزائن ائیڈیا روزنتھل کو مختلف کپ سائز کا خیال آيا اور وہ مختلف قسم کا برا بنانے لگیں۔ اس کے بعد برا کے فروغ کی جو مہم شروع ہوئی وہ آج تک جاری ہے۔ سنہ 1968 میں مس امریکہ کے مقابلہ حسن کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے تقریباً 400 خواتین جمع ہوئيں اور انھوں نے برا، میک اپ کے سامان اور ہائی ہیلز سمیت کئی چیزیں کوڑے دان میں پھینک دیں۔ جس کوڑے دان میں یہ چیزیں پھینکی گئيں اسے ’فریڈم ٹریش کین‘ کہا گيا۔ اس احتجاج کا سبب خواتین پر خوبصورتی کے معیار کو نافذ کرنا تھا۔

برا

’نو برا، نو پرابلم‘

سنہ 1960 کی دہائي میں برا کو جلانے کا چلن خواتین میں بہت مقبول ہوا جبکہ بہت کم خواتین نے برا کو نذر آتش کیا تھا۔ یہ ایک علامتی احتجاج تھا۔ بہت سے خواتین نے برا کو نذر آتش نہیں کیا لیکن بغیر برا کے احتجاج کرنے باہر آئيں۔ سنہ 2016 میں ایک بار پھر برا مخالف مہم نے سوشل میڈیا پر زور پکڑا۔ یہ اس وقت ہوا جب 17 سالہ کیٹلن جووچ بغیر برا کے ٹاپ پہن کر سکول پہنچیں اور ان کی نائب پرنسپل نے ان سے برا نہ پہننے کی وجہ پوچھی۔

برا اور عورت کی صحت

کیٹلن نے اس واقعے کو سنیپ چیٹ پر بیان کیا اور انھیں زبردست حمایت ملی۔ اس طرح ’نوبرا، نو پرابلم‘ مہم شروع ہوئی۔ برا کے بارے میں بہت سے فسانے ہیں لیکن ابھی تک اس کے پہنے کے فوائد یا نقصانات ثابت نہیں کیے جا سکے ہیں۔ برا پہننے سے چھاتی کے کینسر کے امکان کی باتیں کی جاتی رہیں ہیں لیکن امریکی کینسر سوسائٹی کے مطابق ابھی تک اس کے سائنسی شواہد نہیں ملے ہیں۔ البتہ یہ ہے کہ 24 گھنٹے برا پہننا یا غلط سائز کی برا پہننا نقصاندہ ہو سکتا ہے۔

اس لیے ڈاکٹر بہت چست یا بہت ڈھیلی برا نہ پہننے کی ہدایت دیتے ہیں۔ اسی طرح سوتے وقت ہلکے پھلے اور ڈھیلے کپڑے پہننے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ برا خواتین کو اپنے جسم کو حرکت دینے میں مدد کرتی ہے۔ بطور خاص ورزش کے دوران، کھیل کود یا جسمانی کام کے دوران مدد کرتی ہے۔

معاشرہ اتنا بے چین کیوں؟

اب جبکہ برا خواتین کے لباس کا اہم حصہ بن گیا ہے تاہم اب اس کے خلاف دبی ہوئی ہی سہی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ لیکن برا کی مخالفت یا حمایت سے بڑا سوال یہ ہے کہ سماج اس سے اتنا غیر مطمئن کیوں؟ برا کے رنگ سے پریشانی، برا نظر آنے سے پریشانی، کھلے عام برا سکھانے سے پریشانی اور یہاں تک کہ ’برا‘ لفظ سے بھی پریشانی نظر آتی ہے۔ عورت کے جسم اور اس کے کپڑے کو اس طرح سے کنٹرول کرنے کی کوششیں کس لیے؟ شرٹ، پتلون اور بنیان کی طرح برا بھی ایک لباس ہے۔ بہتر ہو گا اگر ہم اسے بھی ایک کپڑا کی ہی طرح دیکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp