نئے صوبے ایک سیاسی شوشہ


1۔ صوبہ کراچی
2۔ صوبہ قبائلستان
3۔ صوبہ گلگت بلتتستان
4۔ بلوچستان
5۔ صوبہ مکران و قلات
6۔ صوبہ سندھ
7۔ صوبہ پختونخوا
8۔ صوبہ ہزارہ
9۔ صوبہ پنجاب
تے
10۔ صوبہ بہاولپور

لیں جی دس صوبے بن گئے ہیں۔ اب آپ ان کے لئے اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم و دستیابی کی مانگ کرو۔ ہر شہر میں صوبہ بنا لو جب تک وسائل نہیں ملنے اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم ممکن نہیں ہونی کوئی فائدہ نہیں۔ تو پھر صوبے مانگنے والونیک نیتی کا ثبوت دو اور آو سب مل کے اس نسل در نسل اشرافیہ و سامراج اور ان کے ثپوتوں سے وسائل و اختیارات کے حصول کے لئے ایک مشترکہ جدو جہد کریں اور تاریخ میں ایک اور میگنا کارٹا کا اضافہ کریں۔ اپنی جدو جہد کو ایک عقلی اور منطقی جہت دیتے ہوئے دنیا کے سامنے اجتماعی شرمندگی سے بچ جائیں۔ تا کہ رہتی دنیا تک ہماری جدو جہد کو تاریخ کی کتابوں مین لکھا اور پڑھا جائے۔ نہ کہ یہ لکھا جائے کہ دنیا میں پاگل بندروں کا ایک ایسا گروہ بھی تھا جن کے ہاتھ چنوں سے بھرا دیگچہ کہیں سے لگ گیا اور وہ آپس میں لڑ لڑ کے مر گئے اور چنے سوداگر لے گیا۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو آو مل کر یہ دس صوبے مانگتے ہیں خالی پنجاب کیوں؟

ویسے سچ کہوں یہ صوبہ صوبہ کا جو کھیل رچایا گیا ہے کہ پھر سے یہ صرف الیکشن جیتنے کے شوشے ہیں جو سیاسی مداریوں نے اپنی اپنی ڈگڈگی پر چھوڑنا شروع کر دیے ہیں۔ اور ہم جیسے بیوقوف بندر مداری کی اس ڈگڈگی پر ناچنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔

متحدہ سندھ کے نعرے ہر جہاں پی پی سندھ سے جیتے گی وہیں جنوبی پنجاب کے نام پر پنجاب واسیوں سے ووٹ مانگے گی۔ تحریک انصاف پختون قومی اتحاد اور فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے پر پجتونوں سے ووٹ مانگے گی اور پنجاب تقسیم کرنے پر جنوبی پنجاب میں اپنا سیاسی پنڈال سجائے گی۔ ایم کیو ایم کراچی اور اردو صوبہ مانگنے پر اپنی سیاسی کشتی لڑیں گے اور بلوچ قوم پرست بلوچستان پر ہونے والے مظالم کی بنیاد پر۔ اور رہی مسلم لیگ ن تو ڈوبتے کو تنکے سہارا۔ اور مذہبی جماعتیں مذہب کے نام پر اپنے الاؤ دہکائیں گی۔ رہے عوام تو ” تو کون۔ میں ایویں ای خواہ مخواہ“ الیکشن ہونے دو۔ کھیل ختم۔ پیسہ ہضم۔

مگر ایک بہت بڑا ظلم یہ اقتدار کے پجاری جو کر گئے ہیں وہ ہے پنجاب کو بھی نسلی اور لسانی آگ میں جھونکنا ہے۔ باقی ہر جگہ تو ویسے یہ لوگ آگ لگا چکے۔ پنجابی نسل پرست نہیں تھے نہ پنجاب میں انتہا پسندی اور نفرتیں تھی مگر یہ اقتدار کے بھوکے ننگ انسانیت لوگ اپنی اقدار کی ہوس میں پنجاب کو بھی جھونک گئے۔

اب پنجاب میں رہنے والے بلوچ پٹھان سندھی پنجابی سب آپس میں لڑ رہے ہیں۔ مگر میں اتنا بتا دوں کہ انسانیت کے سودے کرنے والو یہ آگ جو تم نے اقتدار کی بھٹی چلانے کے لئے لگائی ہے ایک دن دیکھنا اس نیمیں ں تمہارے اپنے گھر بھی جل جائیں گے۔ بلکہ جل رہے ہیں بس تم سمجھتے نہیں ہو کیونکہ اقتدار کی بھوک اس آگ کی تپش سے زیادہ ہے

ہر الیکشن میں نیا ڈرامہ۔ اور ہم پھنسنے کو تیار۔ یہ لیڈرز یہ اشرافیہ اندر سے ایک ہی نانی کے نواسے ہیں بس ہم عام لوگ ان کے نام پر ان کے پیچھے ان کی امامت میں ایک دوسرے کے گلے کاٹتے ہیں۔

مجھے بتاؤ کس بنیاد پر ایک عام بلوچ سندھی پنجابی اور پختون ایک دوسرے سے نفرت کرتا ہے۔ یہ سارے عام لوگ تو ضروریات زندگی کو سسک رہے ہیں اور ان کا۔ وجود روئے زمین پر محض نسل در نسل اس اشرافیہ اور حکمران سامراج کی نسلیں پالنے کا ذریعہ ہے۔

جس دن سارے صوبوں کی اقوام آپس میں لڑائی چھوڑ کر اپنے طے شدہ اور جائز مطالبات پر ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اشرافیہ اور حکمران سامراج کے خلاف متحد ہو گئیں اور ایک دوسرے کے حقوق کے حصول کے لئے ایک دوسرے کی طاقت بن گئیں تو اس دن اس ملک سے سامراج اور سالوں سے جاری استحصال کا اختتام ہو جائے گا۔ صوبوں اور ان کی اقوام کے آپس میں لڑنے اور ایک دوسرے کو وجود کو تسلیم نہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سے نفرت کرنے میں ہی اس سامراجی جنتر منتر کی طاقت ہے۔ سامراج سامراج ہوتا ہے اس کو کسی ایک صوبے سے جوڑا نہیں جا سکتا۔ اس ملک کا اصل مسئلہ وسائل اور اختیارات کی منصفانہ اور نچلی سطح تک تقسیم ہے۔ تمام صوبوں کے لوگو اس بات کو سمجھو اور اپنی اپنی قوم کے حقوق و عزت کے لئےایک دوسرے کی طاقت بنو۔
سچ یہ ہے کہ پاکستان میں ایک نئے معاہدہ عمرانی اور میگنا کارٹا یا پھر انسانی حقوق کے بل کی ضرورت ہے۔ اس بات کو جتنی دیر سے سمجھا جائے گا اتنا ہی خراج زیادہ دینا پڑے گا۔

اور وہ لوگ جو ملکی حالات کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہمارا کام تو بس اپنی بقا ہے۔ بس سفید ہاتھیوں کو ووٹ دے دیا اللہ اللہ خیر صلا۔ ہاتھی جانیں اور ان کا کام۔ تو فیل بانوں تمہاری فیل بانی کے چکر میں چیونٹیوں کے گھر پامال ہوئے تو کیا عجب۔ یا پھر یوں کہہ لیں کہ طوفان کو رستہ دینے والوں کے گھر تو بہہ ہی جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).