پاکستان کو تازہ ہوا کی ضرورت ہے
اسلام آباد کی نبض پر ہاتھ رکھیں تو یہ ڈوبتی محسوس ہو تی ہے اور گرمی اور گرانی سے ستائے وطن عزیز کے عوام پر نگال ڈالیں تو ان کی سانسیں اکھڑتی لگتی ہیں۔ موسمی، معاشی، سماجی اور نجی مصائب کے علاوہ جب لوگوں کو ملک کے سیاسی امور کے بارے میں متنوع النوع خبریں مختلف قسم کے مصالحوں کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں تو ان کی بے یقینی میں اضافہ یقینی ہے۔ کوئی بھی حب الوطن اپنے ذاتی مسائل اور مشکلات سے نمٹنے کا حوصلہ اسی وقت پاتا ہے جب اسے اپنے ملک کے حوالے سے خیر کی خبر سنائی دے۔ لیکن شومی تقدیر کہ اہل پاکستان کی اس خواہش کے پورا ہونے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے برعکس ملک میں غداری کے فتوے، بدعنوانی کے قصے اور ذاتی کردار کشی کے سانحات کا اس قدر وفور ہے کہ عام سی فہم رکھنے والا شہری بھی بد حواس اور پریشان ہے کہ آنے والا دن اس کے لئے کون سی بری خبر لائے گا۔ اب اہل وطن کے لئے اچھی خبر کا انتظار دل خوش کن نہیں ہے بلکہ اس دن کو روشن اور سہانا سمجھا جاتا ہے جب کوئی نیا اسکینڈل سامنے نہ آئے اور کسی نئے بحران کی خبر نہ دی جائے۔ تاہم یہی خبر چونکہ ریٹنگ میں اضافہ کا سبب بنتی ہے تو رپورٹر انہی کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے خواہ اس کے لئے اسے جھوٹ کا سہارا لینا پڑے یا کوئی کہانی گھڑنا پڑے۔ اگر اس تلاش میں کوئی کمی رہ جائے تو ٹاک شوز میں زبانی پہلوانی کرنے والے اب دھینگا مشتی کو قومی مزاج کا آئینہ بنا کر اس پر اترا رہے ہیں اور یہ بھی دعویٰ اور خواہش ہے کہ انتخاب ہوجائے تو حکومت میں آکر ملک کے تمام مسائل حل کردئیے جائیں۔ کل ٹیلی ویژن اسکرین پر ایک وفاقی وزیر کو تھپڑ مارنے کا جو تماشہ دنیا نے دیکھا اور دانتوں میں انگلی داب لی، اس پر اب تحریک انصاف کے زعما کہتے ہیں کہ یہ ’بد کلام وزیر‘ اسی قابل ہیں۔ تو یہ گمان کرلیا جائے کہ اسلام آباد میں حکومت سنبھالنے کی امید وار پاکستان تحریک انصاف کی قیادت انتخابات کے بعد اقتدار ملنے پر تھپڑ مار مار کرہی قوم کے مسائل حل کرے گی۔ تاہم اندیشہ ہے کہ اگر اس سعی لاحاصل میں خود پارٹی لیڈروں میں جوتم پیزار شروع ہو گئی تو تشدد کا یہ سلسلہ اس قوم کو نہ جانے مزید کن گہرائیوں میں دھکیلنے کا سبب بنے گا۔
یہ صورت حال کیسے تبدیل ہو۔ نہ سوال مشکل ہے اور نہ اس کا جواب دسترس سے باہر۔ سب کچھ نوشتہ دیوار ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف اس دیوار کو تاکتے ہیں جس پر ہمارے اپنے خوشگوار سفر کا زائچہ تحریر ہوتا ہے۔ و ہ’ دیوار گریہ‘ ملک کی قیادت کا خواب دیکھنے اور دکھانے والے رہنماؤں کی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے جس پر قوم کے مصائب و آلام کا احوال لکھا ہے۔ اس لئے نہ یہ مسائل دکھائی دیتے ہیں اور نہ ان کے حل کی طرف توجہ دینے کی کوشش نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب قومی شعور میں مختلف نقطہ نظر غداری، کمزوری کا اعتراف قومی راز کھولنے کا جرم ، ووٹ کے احترام کی بات تصادم کا راستہ اور آئین کی پاسداری کا معاملہ سول ملٹری جھگڑے سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں کرپاتا۔ اب دیوار پر لکھی یہ سچائی دکھائی نہیں دیتی کہ ملک کو پانی کے شدید بحران کا سامنا ہے اور دشمن ملک اس ملک کو ملنے والے دریاؤں پر ڈیم بنا کر ہمارے حصے کا پانی ہڑپ کررہا ہے اور عالمی سطح پر کوئی ادارہ ہماری بات سننے اور معاہدہ کی اس صریح خلاف ورزی کو رکوانے میں ہماری مدد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ہمیں یہ بھی دکھائی نہیں دیتا کہ 1971 میں مشرقی حصہ سے کم آبادی والے اس خطہ میں اب بنگلہ دیش کے مقابلہ میں ساڑھے پانچ کروڑ زیادہ نفوس آباد ہیں لیکن قومی پیدا وار میں اضافہ کی شرح ایشیا میں کم ترین سطح پر ہے جو ملک کی قومی ضرورتوں کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اسی دیوار پر لکھا یہ مجروح فقرہ بھی ہمیں دکھائی نہیں دیتا کہ قوموں کی تعمیر فساد یا جنگوں کے ذریعے نہیں ہو سکتی۔ اس کا فوجی طاقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ کوئی ملک عسکری لحاظ سے بہت طاقتور ہو سکتا ہے لیکن اس کے بم، بارود اور توپیں اس کے لوگوں کا پیٹ بھرنے کی راہ ہموار نہیں کرسکتیں۔ اس کے لئے معاشرہ کے اندر اور سرحدوں پر امن کی ضرورت ہے۔ ہم ملک کے اندر باہم دست و گریبان ہیں اور سرحدوں پر دشمن ہمیں چین نہیں لینے دیتا اور امن کی کوئی امید افق پر موجود نہیں ہے۔ ہمیں یہ جاننے میں بھی مشکل پیش آرہی ہے کہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی 30 برس سے کم عمر لوگوں پر مشتمل ہے۔ 30 فیصد کے لگ بھگ لوگ 18 اور 30برس کے درمیان ہیں۔ جن ملکوں میں نوجوان آبادیاں کم اور بوڑھوں کی تعداد زیادہ ہورہی ہے ، وہ ان بوڑھوں کو پالنے اور کارخانہ حیات چلانے کے لئے نوجوانوں کی تلاش میں دوسرے ملکوں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں۔ لیکن پاکستان جیسے ملک میں ان نوجوانوں کو قومی بوجھ بنا کر در بدر کی ٹھوکریں کھانے اور بے روزگاری کے عفریت کا مقابلہ کرتے ہوئے مایوسی اور بد اعتمادی کا شکار ہونے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ لیکن ہماری اپنی اپنی دیوار پر لکھا ہے کہ اگر مجھے اقتدار مل گیا تو اس ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔
ان اعلانات میں دراصل اپنی تقدیر اور خواہش کو قومی ضرورت بنا لیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ کوئی سیاست دان ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لئے تیار ہے اور نہ ہی کوئی ادارہ توازن کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ ہے۔ اقتدار سے چمٹے ہوئے اپنے اور قومی مسائل کو اپنی ناکامی یا نااہلی سمجھنے اور اس کی اصلاح کرنے کی بجائے ، دوسروں کو ان مشکلات کا سبب قرار دینے پر اصرار کررہے ہیں۔ نواز شریف کو یہ کہنے میں کوئی حجاب نہیں ہے کہ ان کی نااہلی کا سبب سازش ہے اور انہیں نیب کے مقدمات کا اس لئے سامنا ہے کیوں کہ انہوں نے سابق فوجی آمر کے خلاف غداری کا مقدمی قائم کیا اور اسے اپنے جرائم کا حساب دینے پر مجبور کیا لیکن یہ کوشش ان کے گلے پڑ گئی۔ نواز شریف اگر یہ دعویٰ کرتے ہوئے یہ بھی بتا سکتے تو بہت سوں کا بھلا ہوتا کہ پاناما انکشافات کے بعد وہ قوم اور قومی اسمبلی میں اپنی بے گناہی کے قصے بیان کرنے کی بجائے، پرویز مشرف کو سزا دلوانے کے سلسلہ میں اپنی مجبوری بیان دینے کے لئے کیوں سامنے نہیں آئے۔ کیا انہیں اندیشہ تھا کہ بااختیار پارلیمنٹ میں صورت احوال بتانے سے انہیں حکومت سے علیحدہ ہونا پڑے گا۔ وہ قیمت تو انہوں نے بہر حال ادا کی۔ اور اس خرابی کے بعد کہ پرویز مشرف کو ملکی عدالتوں سے بھاگ کر ملک سے باہر جانے کی اجازت دے کر بھی وہ پیا من بھائے نہ ہو سکے۔ تو اب شکوہ شکایت کس سے اور کیوں؟
ملک میں سب کا پیا اور اختیار کا اصل محور و مرکز اپنی بات پر قائم ہے۔ عوام کو اسکرپٹ رائیٹر کے قصے بھی سنائے جارہے ہیں۔ چیدہ چیدہ صحافیوں اور اینکرز کو بلا کر ’آف دی ریکارڈ‘ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ فوج کون سی ریڈ لائن عبور کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ یہ تسلی بھی دلائی جارہی ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے اور فیصلہ ووٹ اور آئین کے مطابق ہی ہو گا۔ لیکن انتخاب سے پہلے ایک فریق کو دیوار سے لگانے کا طریقہ الیکشن سے پہلے دھاندلی نہیں تو اور کیا ہے اور اگر یہ دھاندلی جائز ہے تو ملک کے در و دیوار میں آئین، انصاف اور جمہوریت کی باتیں کرنے پر کیوں اصرار ہے۔ اب تو پاکستان کا قومی مزاج بھی جمہوریت کو زیادہ اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ بھوک نے ہر گھر میں ڈیرے ڈالے ہیں، پریشانی ہر نوجوان کا مقدر بنی ہے اور طبقاتی تقسیم ایک ہولناک منظر نامہ پیش کرتی ہے۔ ہم اس دیو کو نعروں سے گرانے اور درحقیقت اس کی قوت میں اضافہ کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ جس انتخاب کا بے چینی سے انتظار ہے، اس کے بارے میں وثوق سے بتا دیا گیا ہے کہ اس کے نتیجہ میں سامنے آنے والی پارلیمنٹ معلق ہو گی۔ جو آوازیں سیاست اور معاشرہ میں توازن اور مساوی مواقع کی بات کرنے کا حوصلہ کرتی ہیں انہیں دبانے کا اہتمام یوں کیا گیا ہے کہ میڈیا دنیا میں سب سے زیادہ آزاد بھی ہے لیکن نہ وہ اپنے مفاد سے باہر نکل کر خبر تلاش کرسکتا ہے اور نہ اسے اس انصاف کی بات کرنے کا یارا ہے جسےنگاہ یار نے دھتکار دیا ہو۔ اب ملک میں جمہوری عمل بھی ہے، آئین کی بالادستی بھی، عدالتیں بھی بیباک ہیں اور سیاست دان بھی آزاد ہیں۔ لیکن یہ آزادی ایک دوسرے کے گریبان سے آگے بڑھے تو حد فاصل راستہ روک لیتی ہے۔
اس لئے ملک کے عوام گرمی کے مزے لیں اور عبوری حکومت پر اتفاق اور عدم اتفاق کی چٹخارے دار خبریں سنیں ۔ یہ قیاس کریں کہ انتخاب اگر جولائی میں ہوں تو اس کے آگے کون سے سال کا ہندسہ ہوگا۔ مسائل کی فہرست کو بھلا کر فی الوقت سیاسی تھپڑ اور اندرون خانہ دشنام طرازی کی’ فرسٹ ہینڈ‘ معلومات پر مبنی قصے کا جائزہ لیں۔ اور اگر کوئی کسر باقی رہ جائے تو ہمسایہ کو اپنی تکلیفوں کا ذمہ دار قرار دے کر نعرہ مستانہ بلند کرلیں۔ مسلم لیگ (ن) کے حامی بتائیں کہ لوڈ شیڈنگ تو ختم ہو گئی، اب جان بوجھ کر بد انتظامی کی جارہی ہے اور تحریک انصاف کے موید لوڈ شیڈنگ کے قصے عام کریں کہ اس طرح بیٹ والے بیلیٹ پیپر پر چند مزید نشان آویزاں ہو سکتے ہیں۔ بس یہ نہ سوچا جائے کہ اس ووٹ کا فائدہ کیا ہو گا اور اس سے کیا تبدیلی آنے والی ہے۔ اور یہ تبدیلی ملک کو درپیش مسائل کو کیسے حل کرے گی۔ مسائل سے نظر چرا کر مخالف کو مسئلہ بتانا اس مشکل کا آسان ترین حل ہے۔
قومی بحران یک جہتی سے دور ہوتے ہیں۔ یک جہتی کے لئے لیڈروں ، اداروں اور عوام کے سب گروہوں کو مل کر اصل مسائل کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے۔ ہے کوئی جو اس سچ کی گہرائی تک جانا ضروری سمجھتا ہو۔
- سربراہ مملکت کے کاندھے پر شہیدوں کے جنازے اور ملک کا مستقبل - 18/03/2024
- شہباز شریف کی جی ایچ کیو آمد: ’ایک پیج‘ کی سیاست کا نیا سیزن - 16/03/2024
- شراکت اقتدار کا فارمولا بنایا جائے! - 15/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).