دنیا کا سب سے کم سِن قاتل


وہ ملزموں کے کٹہرے میں کھڑی ماں کی چھاتی سے لگا ہوا تھا۔ جس نے اُسے زور سے ساتھ چپکا رکھا تھا جیسے اس کے کھو جانے کا ڈر ہو۔ وہ جتنا مطمین اب نظر آرہا تھا اسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ تھوڑی دیر قبل گاڑی کے اندر وہ زور زور سے رو رہا تھا۔ جس پر ماں نے دودھ پلانے کیلیے پِستان اُس کے منہ میں ڈالا مگر اُس نے کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی جیسی کہ وہ عموماً ایسے موقعوں پر کلکلیاں کرکے دکھایا کرتا تھا۔

ماں کے کندھے سے سر گُھما کر وہ غور سے کمرہ عدالت میں کھڑے ایک ایک شخص کو دیکھ رہا تھا۔ جیسے اُن کی شکلیں یاد کرنا چاہ رہا ہو۔ اُس کی آنکھیں جو عام بچوں کی آنکھوں سے تھوڑی بڑی تھیں بلکہ کئی بڑوں کی آنکھوں سے بھی بڑی تھیں غیر معمولی طور پر لال ہو رہی تھیں جیسے ان میں اُترے خون کی پیاس ابھی بُجھی نہ ہو۔ کمرہ عدالت جہاں عام دنوں میں ایک دو پولیس والوں، ملزم اور مدعی کے علاوہ کوئی آتا نہیں تھا آج کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہزاروں لوگ عدالت کے باہر کھڑے تھے جب کہ لاکھوں ناظرین سکرینوں کے سامنے بیٹھے ملک کے کونے کونے میں عدالتی کارروائی شروع ہونے کا بے تابی سے انتظار کر رہے تھے۔

اُس کا باپ، دادا، دادی، چچا، چار سالہ بڑا بھائی، سات سالہ بڑی بہن، ماں کی بہنیں، باپ کے بھائی غرضیکہ خاندان کے کوئی پچیس افراد ہتھکڑیاں پہنے ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے تھے نظریں جھکاےٴ۔ کچھ کے تو آنسو تھمنے میں نہیں آرہے تھے۔ اس کی ماں بھی رو رہی تھی۔ خاندان کا وہ واحد فرد تھا جو مکمل طور پر پُرسکون تھا۔ عدالت میں موجود آدھے سے زیادہ لوگوں کے چہروں پرحیرت تھی جبکہ باقیوں کے چہروں پر ڈر۔ وہاں موجود ہر فرد اُس کی تیز نظروں سے آگاہ تھا مگر کسی میں آنکھ ملانے کی ہمت نہیں تھی۔ اگر اچانک کسی کی نظر اُس سے مل جاتی تو دیکھنے والا فوراً نظریں نیچی کر لیتا۔

ہٹو بچو کی آوازوں کے شور میں ایک ادھیڑ عمر جج پچھلے دروازے سے داخل ہوا تو عدالت میں خاموشی چھا گئی۔ وہاں موجود ہجوم کبھی کمسِن ملزم کو اور کبھی جج صاحب کو دیکھ رہا تھا جیسے نظروں سے انہیں تول رہے ہوں۔ جج صاحب کو پولیس اہلکاروں نے گھیرا ڈال رکھا تھا جیسے ان کی جان کو کسی انجانے دشمن سے خطرہ ہو۔ جج صاحب نے پانی کا ایک گلاس پیا، پھر گلا صاف کیا اور ماں کی چھاتی سے لگے بچے کو دیکھنے لگے جو اس وقت بڑے اطمینان سے سو رہا تھا، جیسے کہ وہ عدالت میں نہیں بلکہ ننہال آیا ہوا ہو۔ ایک پولیس کے سپاہی نے اپنی چھڑی اس کے بازو پر لگائی۔ جب وہ نہ جاگا تو اس نے چھڑی کا نوکیلا سِرا اس کے نرم ونازک پیٹ میں چبھو دیا جس پر اس نے بُلبُلا کے آنکھیں کھول دیں۔

سر قاتل پیشِ خدمت ہے سپاہی نے فخر سے اعلان کیا۔

جیسے ہی سپاہی نے یہ کہا تو وہ بھی جج صاحب کی طرف متوجہ ہوگیا۔ ماں کی آنکھوں سے زاروقطار آنسو جاری تھے۔ اُس نے ماں پر ایک لمبی نظر ڈالی جیسے کہہ رہا ہو کہ سب کے سامنے رونا ٹھیک نہیں۔ تو ماں کو جیسے قرار سا آگیا۔

جج صاحب نے بغیر زیادہ تمہید کے پوچھا “تو تم مانتے ہو کہ یہ سفاکانہ قتل تم نے کیے ہیں۔؟” اُس نے جج صاحب کی طرف دیکھا اور زور زور سے “ہوں ہوں” کرنا شروع کردیا۔ اس کی چوسنے والی نپل منہ سے گِرکر ماں کے پاوٴں میں جا پڑی۔ کمرہ عدالت میں موجود ہر شخص کے منہ سے بے ساختہ نکلا “سفاک قاتل”۔

اِن سب گواہوں کی موجودگی میں اپنے جرم کا اعتراف کرنے پر عدالت مجرم کو عمر قید کی سزا دیتی ہے۔ جج صاحب نے کہا اور عدالت برخاست کرکے تخلیے میں چلے گیے۔ پولیس والوں نے روتی ماں کے ہاتھوں سے اسے لے لیا، اس کی آنکھوں کی لالی پہلے سے بھی زیادہ ہوگیی تھی۔ پچیس تیس مسلح پولیس والے اُسے گھیرا ڈالے آہستہ آہستہ باہر کھڑی قیدیوں کی بس کر طرف بڑھنے لگے۔ مگر جو ہزاروں لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کیلیے دور دراز کے علاقوں سے جمع ہوےٴ تھے پولیس کے لیے ان کے بیچ سے راستہ بنانا مشکل ہورہا تھا۔ ہرکوئی اپنی اپنی جگہ سے کم سن قاتل کے ساتھ سلفیاں بنانے میں مصروف تھا۔

وہ گردن اونچی کیے پورے دبدبے سے مجمے کا جایزہ لیتے ہوے جا رہا تھا باہر درجنوں کی تعداد میں صحافی بےتابی سے انتظار کر رہے تھے پولیس کو آتا دیکھ کر انہوں نے فوراً اپنے کیمرے پولیس کے مرکز میں ایک انسپکٹر کے کندھے پر بیٹھے ننھے قاتل کی طرف موڑ دیے۔ اور لگے سوال پہ سوال داغنے۔

کیوں قتل کیا تم نے اتنے سارے بے گناہوں کو، ایک صحافی نے کہا تو اس نے پھر کہا. “ہوں ہوں”

دیھکو تو کتنا بے حس ہے۔ دوسرا بولا۔

تجھے کوئی ندامت ہے اپنے کیے پر۔ ایک ادھیڑ عمر کے صحافی نے کہا۔ تو وہ بولا “ہونہہ” جیسے کہ رہا ہو کہ مجھے کوئی پروا نہیں۔

کتنی بے دردی سے مارا بیچاروں کو، ایک خاتون صحافی نفرت سے بولی۔

 دیکھنے میں کتنا معصوم لگتا ہے۔

عمر بھر جیل میں رہے گا تو سمجھ آجاے گی۔

 کیمرے اس وقت تک اس کا پیچھا کرتے رہے جب تک پولیس اسے قیدیوں والی بس میں بٹھا کر مجمے سے کوئی آدھا کلومیٹر دور نہیں چلی گئی۔

صحافیوں کے تبصرے سن سن کر پورے پاکستان کی عوام نے سُکھ کا سانس لیا کہ آخر کار ملک کی تاریخ کا سب سے سفاک قاتل پکڑا ہی گیا۔ شکر ہے خدایا ہماری پولیس کچھ کرتی ہے بڑی بوڑھیوں نے ہاتھ آسمانوں کی طرف اُٹھا کر کہا۔ کیا شہر کیا دیہات ہر جگہ مسجدوں میں مولویوں نے شکرانے کی نمازیں ادا کیں۔ ہزاروں کمزور دل لوگوں نے کالے بکروں کی قربانیاں دیں اور رسم ورواج کے برعکس پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہر کسی نے سارے کا سارا گوشت حقدار غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیا اور خود دال سبزی کھا کر بیٹھ رہے۔

شہر لاہور لوگوں کا ایک سمندر بن چکا تھا جس نے قیدی بس کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ پولیس کی بَس آہستہ آہستہ ہچکولے کھاتی اس سمندر سے گزرتے ہوےٴ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی جیسے بغیر موٹر کی کشتی پانی کی لہروں پہ چلتی ہے۔ راستے میں جگہ جگہ لوگ پھول نچھاور کر رہے تھے۔ نوجوانوں کے گروپ ڈھول کی تھاپ پر ناچ رہے تھے، بوڑھی عورتیں گِدا ڈال رہی تھیں۔ سڑک کنارے کے ریستوران ہجوم کو مفت کھانا تقسیم کر رہے تھے۔ ایک چوک میں کھڑے تقریباً دو درجن علما حضرات اس غالب امکان کا اظہار کر رہے تھے کہ اتنے خوفناک قاتل کو پکڑنے والی پولیس پارٹی کا دنیاے فانی سے کوچ کرنے کے بعد جنت میں جانے کا غالب امکان تھا اور یہ عین ممکن تھا کہ اس کیس کی وجہ سے پنجاب پولیس کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے جاییں۔ وزیر اعظم پاکستان جو ساری کارروائی براہ راست ٹی وی پر دیکھ رہے تھے نے کیس کے ذمہ دار ہر پولیس والے کیلیے ستارہَ شجاعت کا اعلان کردیا، جبکہ ملک کے سب سے زیادہ صاحبِ ثروت مَلک سخاوت ہر سپاہی کیلیے اسلام آباد کے سب سے مہنگے سیکٹر میں ایک ایک کنال پلاٹ کا اعلان کررہے تھے۔ سینکڑوں دلہنیں جن کی اسی دن شادی ہوئی تھی اپنے زیور پولیس پارٹی کو پیش کرنے کے کے لیے ریگل چوک میں کھڑی قیدی بس کا انتظار کررہی تھیں۔ ایک ٹی وی چینل کے مطابق پنجاب کی تقریباً آدھی ماوں نے اپنے آیندہ پیدا ہونے والے بیٹوں کو پولیس میں بھرتی کرانے کا اعلان کر دیا تھا اور شہر بھر کی کنواری لڑکیوں نے اپنی طے شدہ منگنیاں توڑ کے اعلان کردیا کہ شادی کریں گی تو قیدی بس میں بیٹھے کسی سپاہی سے۔

باقی افسانہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3