جمہوریت کا تماشا


سیاست، نظریہ، سوچ اور عمل کا تقاضا کرتی ہے، چونکہ اس کا براہ راست تعلق لوگوں سے ہوتا ہے اس لیے سیاست میں اجتماعی حوالے دیکھے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ کوئی بھی فیصلہ چاہے ذاتی ہو اس کی بنیاد کسی فرد واحد کے مقصد کا حصول تصور نہیں ہوتی۔

پاکستان میں معاملہ مختلف رہا ہے یہاں جمہوریت ابھی اپنے معنی تلاش کر رہی ہے۔ زیادہ تر باتوں اور صرف باتوں تک محدود رہتے ہوئے فیصلے چند افراد یا فرد واحد ہی کرتے ہیں۔ اکثریت کو مطلع کردیا جاتا ہے۔ جمہوریت صرف الیکشن کرانے اور ووٹ ڈالنے تک ہوتی ہے اس میں بھی نتائج کا سو فیصد درست ہونا ایک سوالیہ نشان ہے۔ الیکشن کے فیصلے بھی تاریخ بتاتی ہے کئی بار جمہوریت کی نفی کرتے رہے ہیں۔

جیتنے والا نہ صرف مطمئن ہوتا ہے بلکہ جمہوریت کے راگ الاپتا ہے، شکست خوردہ کو دھاندلی کا پختہ یقین ہوتا ہے اور وہ مختلف کونے ڈھونڈتا یا ان کی طرف اشارے کرتا ہے جہاں سے اس کی ہار کے شواہد نکلتے ہیں۔

اگرچہ یہ سب مجموعی طور پر نہیں ہوتا لیکن اس جمہوری عمل کی ساکھ پر سوال ضرور اٹھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست کے کئی قابل اعتبار ادارے انتخابی عمل میں براہ راست شریک ہوتے ہیں۔ اور وہ اس کے ضامن بھی ہوتےہیں۔ اس سب کے باوجود جماعتیں صدائے احتجاج بلند کرتی ہیں۔ سیاسی تاریخ دھاندلیوں کی گونج سے بھری پڑی ہے۔

ایک برسراقتدار پارٹی اپنی مدت حکومت میں بڑے کام کرتی ہے اور اسے پختہ یقین ہوتا ہےکہ اپنی کارکردگی کو بنیاد بناکر اگلے الیکشن میں جیتے گی مگر ایسا کئی بار نہیں ہوا۔ اس کو انتخابات سے پہلے ہی مختلف نوعیت کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نتیجے میں نہ صرف مخالفین اس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں بلکہ اس جماعت کے کامیاب سمجھے جانے والے امیدوار بڑی خاموشی سے اپنی وابستگی بدل لیتے ہیں اور بظاہر مضبوط خیال کی جانے والی اپوزیشن جماعت کا حصہ بن جاتے ہیں جس کے بارے میں قیاس بندھ چکی ہوتی ہے کہ اس کا اتحاد اقتدار کی باگ ڈور سنبھالے گا۔

ماضی یہ کہانیاں بڑے دکھ کے ساتھ سناتا ہے کہ ایسے سیاستدان کا کوئی نظریہ یا خاص سوچ نہیں ہوتی۔ وہ “عوام کی خدمت کے جذبے” سے سرشار (جیسا کہ دعویٰ کرتے ہیں) پارٹی وابستگی تبدیل کرتے رہتے ہیں اور اپنے ووٹرز بھی کسی نہ کسی طرح کا لالی پاپ تھما دیتے ہیں۔ ان سیاستدانوں کی سوچ محض “اپنی جگہ بنانا” ہوتی ہے اور بس۔ اقتدار اور اختیار کسی طرح پاس رہے پھر یہ سب کچھ کرنے کو تیار رہتے ہیں۔

جمہوریت کی تعریف نہ جاننے کی خواہش ہوتی ہے اور نہ ہی جن پارٹیوں میں شامل ہوتے ہیں ان کا کوئی بڑا ایجنڈا جمہوریت ہوتا ہے۔ نظریہ ضرورت ہی سب اداروں کا نظریہ ہے، اور شاید یہی جمہوریت کی اساس بھی ہے۔ اسی کے تحت حکومتیں بنتی رہیں اور ٹوٹتی رہی ہیں۔

جولائی میں تیرہویں اور براہ راست گیارہویں انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ تیسری حکومت اپنی مدت پوری کرنے میں تو کامیاب رہی مگر تینوں بار وزیراعظم کو اس حق سے محروم رکھا گیا۔ جانے والی حکومت نے دکھائی دینے والے ریکارڈ کام کرائے، ان کے معاملات کیا رہے وہ عدالتوں میں زیرسماعت ہیں لیکن اس کارکردگی کی بنیاد پر جس کامیابی کو سال پہلے تک دیکھا جا رہا تھا وہ منظر نامے پر اب کم دکھائی دینے لگی ہے۔

وجہ وہی نظریہ اور سوچ بدل گئے، سیاسی پنچھیوں نے گھونسلے بدلنا شروع کردیے، جس کشتی پر پانچ سال پراعتماد سفر کیا، اس کے ڈگمگانے کے آثار دکھائی دینے لگے۔ مگر اس بحث میں سوال وہیں کا وہیں موجود ہے، جمہوریت کہاں کھڑی ہے؟

اس کے معنی کون بتائے گا؟ عملی مظاہرہ کیسے ہوگا؟ اس کو مضبوط کرنے کی ذمہ داری کس نے ادا کرنی ہے؟ جمہوری ادارے کیسے ریاستی امور انجام دیں گے؟ کیا عوام ایسے ہی سیاسی پارٹیوں کے فیصلے قبول کرتے رہیں گے؟ کیاان کی آواز ایک دوسرے پر الزامات کے نعروں میں دبائی جاتی رہے گی؟ ایسی جمہوریت کا تماشا آخر کب ختم ہو گا؟

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar