کیا اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کا نگراں سیٹ اپ لانا چاہتی ہے؟


پاکستان میں نون لیگ اور کئی حلقے یہ دعوی کر رہے ہیں کہ انتخابات میں نون لیگ کی شکست کے لئے اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کا نگران سیٹ اپ لانا چاہتی ہے۔ نگراں وزیرِ اعظم کے لئے اب تک جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی، جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک، ذکا اشرف، جلیل عباس جیلانی، ملیحہ لودھی، عبدالرزاق داود اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک عشرت حسین کے نام میڈیا میں گردش کر رہے ہیں۔

خورشید شاہ کل پھر وزیرِ اعظم سے ملاقات کریں گے اور نگراں وزیرِ اعظم کے نام پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر وزیرِ اعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کے درمیان اس حوالے سے اتفاق رائے نہ ہوا تو پھر معاملہ ایک پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائے گا اور اگر وہاں بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا تو پھر معاملہ الیکشن کمیشن میں چلا جائے گا، جہاں ای سی پی چھ میں سے کسی ایک نام کو منتخب کر لے گا۔

نون لیگ کے حلقوں میں یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کا نگراں سیٹ اپ لانا چاہتی ہے تاکہ الیکشن میں پارٹی کے خلاف کام کیا جا سکے۔ پارٹی کے رہنما راجہ ظفر الحق نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہم نے پہلے نیب چیئرمین کے نام پر پی پی پی سے اتفاق کیا تھا اور اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نیب چیئرمین صرف ہمارے ہی لئے لگایا گیا ہے۔ تو ہم اب احتیاط سے کام لے رہے ہیں اور تمام پہلووں کا بغور جائزہ لے رہے ہیں تاکہ پارٹی کو اب نقصان نہ ہو۔‘‘

نون لیگ کے حلقوں میں یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کا نگراں سیٹ اپ لانا چاہتی ہے تاکہ الیکشن میں پارٹی کے خلاف کام کیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر صرف نون لیگ کا ہی نہیں ہے کہ کچھ قوتیں اپنی مرضی کا سیٹ اپ لانا چاہتی ہیں بلکہ دوسری جماعتیں بھی اس مسئلے کو ایسے ہی دیکھ رہی ہیں۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے خیال میں بھی ’نادیدہ قوتیں‘ اپنی مرضی کا نگراں سیٹ اپ لانا چاہتی ہیں۔ جب ڈی ڈبلیو نے اس مسئلے پر پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا، ’’کیا اس بات میں اب کوئی شک رہ جاتا ہے کہ ’خلائی مخلوق‘ اپنی مرضی کا سیٹ اپ لانا چاہتی ہے۔ میرے خیال میں تو اس حوالے سے کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

یہ رائے صرف سیاست دانوں میں ہی نہیں ہے بلکہ کئی تجزیہ نگار بھی صورتِ حال کو اس ہی جانب جاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ معروف تجزیہ نگار ضیاء الدین نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اب تک جو نام سامنے آئے ہیں وہ سب کے سب ایسے افراد کے ہیں، جو اسٹیبلشمنٹ کے قریب رہے ہیں۔ ایک مناسب نام میڈیا میں گردش کر رہا تھا اور وہ تھا جسٹس ناصر اسلم زاہد کا جنہوں نے پی سی او پر حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا لیکن انہوں نے پہلے ہی معذرت کر لی ہے۔ لیکن میرے خیال میں سیاسی جماعتیں بھی صورتِ حال کو اچھی طرح بھانپ رہی ہیں اور ممکن ہے کہ پی پی پی اور نون لیگ کسی نام پر اتفاق کر لیں تاہم وہ اس نام کو آخر تک افشا نہیں کریں گے۔‘‘

ضیاء الدین کے خیال میں نگراں حکومت الیکشن والے دن دھاندلی نہیں کر ا سکتی تاہم انتخابات سے پہلے دھاندلی ہو سکتی ہے، ’’مشرف نے بھی انتخابات میں اپنی کنگ پارٹی کو جتوانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا لیکن پھر بھی اس پارٹی کو اکثریت نہیں مل سکی تھی۔ صرف ایک ووٹ سے وہ حکومت بنا سکے اور وہ بھی مولانا اعظم طارق کا تھا۔ تو الیکشن والے دن دھاندلی کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ تاہم یہ دھاندلی الیکشن سے پہلے کروائی جا سکتی ہے۔ میرے خیال میں نون لیگ کے لوگوں کو کہا جا رہا ہے کہ وہ پارٹی چھوڑیں۔ تو پارٹی چھوڑنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے۔ وہ انتخابات سے پہلے دھاندلی کا ہی حصہ ہے۔‘‘

نون لیگ کچھ بھی کہے الیکشن کمیشن بضد ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ممکن نہیں۔ ای سی پی کے ایک اہم عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اکتوبر دو ہزار سترہ میں ایسے قوانین بنا لیے گئے ہیں، جن کی بدولت اب انتخابات میں دھاندلی نہ ممکن ہے۔ پہلے پریزائڈنگ آفیسر اور ریٹرنگ آفیسر کے نتائج بعض اوقات مختلف ہو جاتے تھے۔ لیکن اب ای سی پی نے واٹس اپ طرز کی ایک ایپ بنا لی ہے۔ اب پریزائڈنگ آفیسر نہ صرف نتائج کی ایک کاپی پولنگ اسٹیشن سے آر او کو بھیجے گا بلکہ ایک کاپی وہ ای سی پی کو بھی بھیجے گا۔ اس میں وقت اور جگہ سب کچھ ظاہر ہوگا۔ تو میرے خیال میں اس سیٹ اپ کے بعد دھاندلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).