امریکی دانشور کیا سوچتے ہیں؟


نیویارک یونیورسٹی میں مباحثہ ہو رہا تھا۔ مباحثے کے دو مقرر تھے۔ ہر مقرر کو صرف سترہ منٹ کا وقت ملا تھا۔ اس قلیل وقت میں ایک مقرر نے ثابت کرنا تھا کہ سوشلزم ہمارے دور کا سب سے بہترین معاشی نظام ہے‘ دوسرے مقرر نے دلائل دینے تھے کہ سرمایہ داری ہی موجودہ دور میں سب سے اعلی ترین معاشی نظام ہے۔ دونوں کوئی عام مقرر نہیں تھے۔ یہ دونوں امریکہ کے جانے پہچانے سکالرز اور پروفیسرز تھے۔ دونوں عمر کے اعتبار سے اسی کے پیٹے میں تھے۔ دونوں نے اپنی ساری عمر امریکہ کے ہارورڈ، ییل اور جان ہاپکنز جیسے نامی گرامی سکولوں میں پڑھتے پڑھاتے گزاری تھی‘ اور دونوں آج اپنے طویل تجربے اور گہرے علم کے ساتھ اس مباحثے میں شامل ہونے آئے تھے۔ نیویارک یونیورسٹی کا آڈیٹوریم کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ حاضرین سانس روکے بیٹھے تھے۔ آڈیٹوریم میں اتنی خاموشی تھی کہ لگتا تھا‘ سوئی گرنے کی آواز بھی سنائی دے گی۔ جدید ٹیکنالوجی کی برکات سے آڈیٹوریم سے باہر بھی یہ مباحثہ لاکھوں لوگوں نے دیکھا۔ یوٹیوب اور دوسرے سوشل میڈیا پر بھی کروڑوں لوگ اس مباحثے کو دیکھ چکے ہیں۔ یہ مباحثہ چند برس قبل ہوا تھا مگر آج بھی یہ سوشل میڈیا پر مقبول عام ہے، اور پسندیدگی سے دیکھا جا رہا ہے۔ دیکھنے والوں کی تعداد کئی ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔

مباحثے کے دو شرکا میں سے پہلے نمبر پر رچرڈ وولف سٹیج پر تشریف لائے۔ انہوں نے ثابت کرنا تھاکہ معاشی ترقی اور خوشحالی کے لیے سوشلزم کیوں ضروری ہے۔ رچرڈ نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا ”میرا خیال ہے کہ آپ کے یہاں آنے کی وجہ سوشلزم ہے‘ خواہ آپ اس کے حامی ہیں یا مخالف ہیں‘ اور مجھے امید ہے کہ جو بات میں کرنے جا رہا ہوں وہ آپ سمجھ سکیں گے۔ ریزن میگزین جو یہ مباحثہ کرا رہا ہے، ایک آزاد جریدہ ہے۔ مارکسزم کے بارے میں جاننے کے لیے جو کتابیں ملتی ہیں وہ بہت مہنگی ہیں‘ لیکن میں آپ سے کہوں گا کہ ان کتابوں کی قیمت کی وجہ سے ان کی قدر کو نہ بھولیں۔ قیمت کو قدر سے کنفیوزڈ کرنا غلطی ہو گی‘ اور آپ میں سے جو لوگ سوشلزم کے بارے میں تھوڑا بہت جاننا چاہتے ہیں ان کو اس غلطی سے بچنا چاہیے۔ سوشلزم سرمایہ داری نظام سے بہتر ہے اور یہ کہتے ہوئے میں کوئی بہت بڑا دعویٰ نہیں کر رہا ہوں‘ لیکن سوشلزم کے حق میں بات کرنے میں مجھے شروع سے ہی ایک مسئلہ ہے۔ مجھے یہ مسئلہ اس وقت درپیش ہوتا ہے جب میں سوشلزم پر بات کرنے کے لیے امریکہ کے ملک گیر دورے پر ہوتا ہوں‘ اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں ہم ایک ریچھ کی طرح ہیں، جو ”ہائبرنیشن‘‘ سے باہر آ رہا ہوتا ہے، اور اسے یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہائبریشن کے دوران وقت بہت بدل چکا ہے۔ انیس سو پینتالیس سے لے کر آج تک اس سماج میں ہر چیز بدل چکی ہے۔ وہ وقت چلا گیا جب سوشلسٹ، مارکسسٹ، اور کمیونسٹ اس سماج کے اہم عہدوں پر فائز تھے۔ ان میں استاد تھے، یونین کے عہدے دار تھے، بیوروکریٹ تھے۔

Richard Wolff

ان دنوں دوسری جنگ عظیم میں سوویت یونین سے ہمارا اتحاد بنا۔ ان دنوں امریکہ میں کچھ دیواروں پر ایک بڑی تصویر دکھائی دیتی تھی، جس میں انکل سام‘ انکل جو کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے دکھائی تھے۔ انکل جو سے مراد جوزف سٹالن تھا۔ اس کے بعد ایک خوفناک رد عمل ہوا، جس میں کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔ تجارتی حلقے اور دائیں بازو کا امریکہ حیرت زدہ تھا کہ انیس سو تیس کی دہائی میں ہمارے پاس ایسا پروگرام تھا، جس کے تحت ہم کارپوریٹ ٹیکس بڑھا سکتے تھے، امیر پر ٹیکس لگا کر امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار سوشل سکیورٹی کا پروگرام شروع کر سکتے تھے، مزدور کی کم از کم اجرت مقرر کر سکتے تھے، بیروزگاری الاؤنس کا آغاز کر سکتے تھے، ہم پندرہ کروڑ لوگوں کے لیے روزگار پیدا کر سکتے تھے۔ اس پروگرام کے تحت امیر دیتا تھا اور غریب اس سے استفادہ کرتا تھا۔ یہ سب کچھ سوشلسٹوں، کمیونسٹوں اور ٹریڈ یونینز کی جدوجہد نے ممکن بنایا تھا۔ یہی وہ لوگ تھے، جنہوں نے صدر روزویلٹ کو یہ کام کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اب بدلتے ہوئے حالات میں ان کو شکست دینا ضروری ٹھہرا تھا‘ اور ان کو شکست دے دی گئی۔ انیس سو پینتالیس میں ایک ایسا وقت آیا ان سب چیزوں کو ختم کرنا ضروری قرار دیا گیا۔ نئی ڈیل اور سوویت یونین سے جنگی اتحاد ختم ہو گیا۔ کمیونزم کے ساتھ اتحاد توڑنا لازم ہو گیا۔ اس کے لیے اس کی کمزور ترین کڑی پر حملہ کیا گیا۔

سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کو سماجی و معاشی تبدیلی کے ہراول دستے کے بجائے غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا گیا۔ ان کو یونینز سے نکالا گیا۔ ان کو سکولوں سے نکالا گیا، اور ان کو امریکی عوام کے ضمیر اور شعور سے نکالا گیا۔ اس مقصد کے لیے عوام کو ڈرایا اور خوفزدہ کیا گیا، جیسا کہ ان کے ساتھ پہلے ہوتا رہا۔ میں آپ کو ذاتی تجربہ بتاتا ہوں‘ میں جب اوائل جوانی میں کالج میں گیا تو مارکسزم کے بارے میں پڑھنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ میں نے اپنے اساتذہ سے پوچھا کہ مجھے مارکسزم کے بارے میں جاننے کے لیے کون سا مضمون لینا چاہیے۔ میرے آدھے اساتذہ نے مجھے بتایا کہ ایسا کوئی مضمون نہیں ہے، اور اگر ہے بھی تو کوئی اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ آدھے اساتذہ نے مجھے بتایا کہ وہ اس بارے میں جانتے ضرور ہیں، مگر مجھے مارکسزم پڑھا نہیں سکتے۔ وہ خوف زدہ ہیں۔ میں معاشیات کا طالب علم رہا ہوں، اور اب اس کا پروفیسر ہوں۔ میری انڈر گریجویٹ اور گریجویٹ پڑھائی کے دوران کسی نے مجھے مارکسزم کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں پڑھایا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مارکس کے پاس ہمیں پڑھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ بات یہ تھی کہ اساتذہ خوفزدہ تھے۔ ستر سال کا خوف تھا۔ میں نے تین سکولوں میں تعلیم پائی۔ یہ ہاورڈ، سٹینفورڈ اور ییل تھے۔ اور اگر ان سکولوں میں یہ ہمت نہیں تھی تو ایک عام سکول یہ ہمت کیسے کر سکتا ہے۔ مجھے سوشلزم کے بارے میں بات کرتے ہوئے دقت ہوتی ہے۔ اگر آپ غیر معمولی امریکی ہیں یا غیر ملکی ہیں تو دوسری بات ہے، ورنہ عام امریکی سوشلزم کے بارے میں کچھ نہیں جانتا‘ اور وہ ستر سالہ خوف کا شکار ہے‘‘۔

پروفیسر رچرڈ امریکہ میں سوشلزم اور سرمایہ داری کے مابین لڑائی کی کہانی اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں سناتا ہے‘ مگر یہ صرف رچرڈ کا ذاتی تجربہ نہیں ہے۔ ایسا تجربہ امریکہ کے علاوہ تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کو بھی ہوا۔ اس میں پاکستان سر فہرست تھا، جہاں پچاس کی دہائی میں یہاں کی بائیں بازو کی ترقی پسند قوتوں پر ریاستی سرپرستی میں ہلا بولا گیا۔ بائیں بازو کے دانش وروں‘ سیاست کاروں اور مزدور یونین کے رہنماؤں کو گرفتار کر کے پابند سلاسل کیا گیا۔ ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی انجمنوں پر پابندیاں لگائی گئی۔ یہ ساری کارروائیاں اس عالمی ایجنڈے کا حصہ تھیں، جو امریکہ کی سرپرستی میں ان تمام ممالک میں شروع کیا گیا تھا جو امریکہ کی قیادت میں سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے مغربی بلاک میں شامل ہوئے تھے۔ رچرڈ اپنے ذاتی تجربات بتانے کے بعد ان دلائل کی طرف آتا ہے، جن کی روشنی میں وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ سوشلسٹ معیشت ہمارے دورے کے بیشتر سماجی و معاشی مسائل کا حل ہے۔ رچرڈ کے دلائل اور جوابی دلائل کا کسی اگلے کالم میں احاطہ کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments