نوجوانوں کو جنسی تعلیم دینا کیوں ضروری ہے؟


میں جب کینیڈا میں نفسیات کا فیلوشپ کا امتحان دے رہا تھا تو ممتحن ڈاکٹر میری سمز نے پہلا سوال یہ پوچھا ’ڈاکٹر سہیل ! اگر آپ کے کلینک میں ایک جوڑا آپ سے یہ کہے کہ ہماری شادی کو پانچ سال بیت گئے ہیں لیکن ہم نے مباشرت نہیں کی ہماری شادی اب تک UNCONSUMATED ہے تو آپ کے ذہن میں سب سے پہلے کیا خیال آئے گا؟‘ میں نے کہا ’ اس جوڑے کو جنسی معلومات نہیں ہیں انہیں نوجوانی میں کسی نے جنسی تعلیم نہیں دی‘۔ میرا جواب سن کر ڈاکٹر سمز مسکرائیں اور کہنے لگیں ’میں یہ سوال دس طالب علموں سے پوچھ چکی ہوں۔ آپ پہلے طالب علم ہیں جنہوں نے صحیح جواب دیا ہے۔ باقی طلبا اور طالبات نے جنسی بیماریوں کے نام گنوانے شروع کر دیے تھے۔‘۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انسانوں کو جنسی تعلیم کی ضرورت نہیں وہ سب کچھ خود ہی سیکھ جاتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ بعض نوجوان مرد اور عورتیں جنس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور جو گلی‘ محلے اور بازار میں سیکھتے بھی ہیں وہ غلط سیکھتے ہیں۔

میں پاکستان میں کئی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سے ملا ہوں جنہیں شہوانی خواب اور حیض کے بارے میں کچھ پتہ نہ تھا۔ ان کا جسم ان کے لیے ایک اجنبی تھا۔ انہیں مذہبی تعلیم تو دی گئی تھی لیکن جنسی تعلیم نہیں دی گئی تھی۔ انہیں شادی کے بعد بھی یہ معلوم نہ تھا کہ عورت مہینے کے خاص چند دنوں میں ہی حاملہ ہو سکتی ہے۔

جب میں پشاور کے زنانہ ہسپتال میں کام کیا کرتا تھا ان دنوں میری کئی ایسی عورتوں سے ملاقات ہوئی جنہیں یہ خبر ہی نہ تھی کہ وہ حاملہ تھیں۔ انہیں حیرت اس بات کی تھی کہ ان کا وزن کیوں بڑھ رہا ہے۔ وہ سمجھتی تھیں کہ وہ بلاوجہ موٹی ہو رہی ہیں۔

جنسی تعلیم کی کمی صرف مشرق میں ہی نہیں مغرب کے روایتی اور مذہبی خاندانوں میں بھی پائی جاتی ہے۔

میرے ایک مریض نے مجھ سے درخواست کی کہ میں اس کی بیوی سے بات کروں کہ وہ اس کے ساتھ جنسی تعلقات کیوں قائم نہیں کرتی۔ اگلے انٹرویو میں میں نے پوچھا

’کیا آپ اپنے شوہر سے رومانوی تعلقات نہیں رکھنا چاہتیں‘

’میں تو رکھنا چاہتی ہوں وہ ہی نہیں رکھنا چاہتے؟‘

’وہ کیسے؟‘ میں تجسس تھا

’میں جب بھی ان سے پوچھتی ہوں WOULD YOU LIKE TO MAKE BED WITH ME?’ کیا ہم مل کر بستر بنائیں؟‘ تو وہ کہتے ہیں ’‘نہیں‘

میں نے جب شوہر کو بتایا کہ بستر بنانے کا مطلب رومانس کی دعوت ہے تو اس نے سر پیٹ لیا اور مسکرا کر کہنے لگا ’اگر ایسا ہے تو میں دن میں دو مرتبہ بستر بنانے کے لیے تیار ہوں‘ جنس کے بارے میں میاں بیوی کا گفتگو کرنا بھی جنسی تعلیم کا حصہ ہے۔

ایک ماہرِ نفسیات ہونے کے ناطے میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جنسی ضروریات اور خواہشات ہماری زندگی کا اہم جزو ہیں۔ ہم جتنی جنسی تعلیم حاصل کریں گے ‘اپنے جسموں کو جانیں گے اور رومانوی تعلقات کی نفسیات سے واقف ہوں گے ہم اتنی ہی صحتمند رومانوی اور ازدواجی زندگی گزار سکیں گے۔ ایک شوہر نے مجھے بتایا میں جب بھی اپنی بیوی سے محبت رومانس اور جنس کی باتیں کرنا چاہتا ہوں وہ مجھے ٹوک کرکہتی ہیں’ آپ گندی گندی باتیں کیوں کرتے ہیں؟‘

میں ایسی بیویوں سے بھی ملا ہوں جنہوں نے کئی بچے پیدا کرنے کے باوجود کبھی اپنے شوہر کو اور ایسے شوہروں سے ملا ہوں جنہوں نے برسوں کی شادی کے بعد بھی کبھی اپنی بیوی کو ننگا نہیں دیکھا۔ سب تعلقات اندھیرے میں ہی اپنی معراج تک پہنچے۔ بدقستی سے ہمارے پاس ابھی تک جنسی اعضا اور رومانوی جذبات کے بارے میں مناسب الفاظ بھی نہیں ہیں۔ یا ہم گالیوں کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور یا ہم ’آلہِ تناسل‘ اور ’اندامِ نہانی‘ پر اکتفا کرتے ہیں جن پر آثارَ قدیمہ کا گماں ہوتا ہے۔

میرے خیال میں یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم جنس کا تعلق محبت‘ پیار‘ خلوص اور دوستی کی بجائے گناہ سے جوڑتے ہیں۔ میں نجانے کتنے نوجوانوں سے مل چکا ہوں جو اپنے فطری جنسی جذبات کے بارے میں بھی احساسِ گناہ اور احساسِ ندامت کی وجہ سے نفسیاتی اور ازدواجی مسائل کا شکار تھے۔ ان کی تھیریپی نے انہیں صحتمند بنایا۔

میرا خیال ہے کہ یہ والدین کی‘ اساتذہ کی اور قوم کے ادیبوں‘ شاعروں‘ دانشوروں اور ماہرینِ نفسیات کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم جنس کے بارے میں تعلیم کو عام کریں اور جنس کے بارے میں صحتمند رویے سکھائیں تا کہ ہمارے جوان ایک محبت بھری خوشحال زندگی گزار سکیں۔

ماہرینِ نفسیات و جنسیات جانتے ہیں کہ جب انسان کے جنسی جذبات کو فطری اور صحتمند اظہار کا موقع نہیں ملتا تو پھر شخصیت میں کجی اور سماج میں جنسی استحصال اور جنسی تشدد کی راہ ہموار ہوتی ہے جو کسی بھی معاشرے کے لیے خطرے کی گھنٹی کی طرح ہے۔

’ہم سب‘ میگزین پر ایک صحتمند اور ذمہ دار مکالمہ جنسی تعلیم اور صحتمند معاشرہ قائم کرنے کی منزل کی طرف ایک خوش آئند قدم ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail