مجھے کیوں نکالا کے جوابات اور انتخابی منظرنامہ
وطن عزیز میں ابھی نواز شریف کے ممبئی حملوں کے بارے میں بیان پر شور تھما بھی نہیں تھا کہ احتساب عدالت میں نواز شریف نے اپنا دفاعی بیان ریکارڈ کرواتے وقت ایک اور پنڈورا بکس کھول دیا۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کو مخاطب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے 2014 کے دھرنوں اپنی نااہلی اور پانامہ پیپر کیس میں کرپشن کے بجائے اقامہ اور خیالی تنخواہ نہ لینے جانے کی وجوہات پر اپنی نااہلی کا ذمہ دار دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کو قرار دے دیا۔ نواز شریف نے عدالت کو دئیے گئے بیان میں ایک انٹیلیجنس ادارے کے سابق سربراہ کا ذکر بھی کیا اور عدالت کو بتایا کہ انہیں اس ادارے کے سربراہ کی جانب سے وزارت عظمی کا عہدہ چھوڑنے یا پھر طویل رخصت پر چلے جانے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ جسے انہوں نے ماننے سے انکارکر دیا تھا۔ نواز شریف نے دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ اپنی چپقلش کی وجوہات ہرویز مشرف پر غداری کا کیس بنانا اور خارجہ پالیسی میں تبدیلی جیسے اقدامات کو قرار دیا۔ اس بیان کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا کر غالباً نواز شریف ملکی تاریخ کے وہ پہلے مرکزی رہنما بن گئے ہیں جنہوں نے سیدھا سیدھا دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کے اختیارات اور ان کے سیاست میں کردار پر سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔
بہت سے تجزیہ نگار اس بیان کی قانونی وسیاسی اہمیت سمجھنے کے بجائے طنزیہ طور پر اسے لڑائی کے بعد یاد آنے والا مکہ قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ درحقیقت نہ تو لڑائی ابھی ختم ہوئی ہے اور نہ ہی فریقین نے ایک دوسرے پر وار کرنے کا سلسلہ ابھی تک بند کیا ہے۔ یہ سوال درست ہے کہ نواز شریف 2014 کے دھرنوں کے فورا بعد بھی ان حقائق کو منظر عام پر لا سکتے تھے اور اب سب کچھ کھو دینے کے بعد انہیں اب سچ بولنے کا خیال کیوں آیا ہے؟۔لیکن دیر آید درست آید کے مصداق کم سے کم نواز شریف نے اس سکوت کو ضرور توڑا ہے جو گزشتہ ستر برس سے وطن عزیز کے اقتدار کے ایوانوں پر طاری تھا۔ نواز شریف یقینا اہنی سیاسی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے ایک کے بعد ایک سازش اور اس کے کرداروں کو آشکار کر رہے ہیں۔ لیکن نواز شریف کی اور دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کی اس لڑائی میں کم سے کم اب یہ حقیقت کھل کر عیاں ہو چکی ہے کہ پاکستان میں اختیارات کا اصل مرکز پارلیمان نہیں ہے۔ عمران خان کے دھرنوں کے بارے میں پس پشت قوتوں کی مدد اور منتخب حکومتوں کو گھٹنے ٹکوانے پر مجبور کرنے والی محلاتی سازشوں کی خبر اور حقائق سے آشنائی ہر باخبر شخص کی تھی۔ لیکن ایک تین بار منتخب کردہ وزیراعظم کے منہ سے عدالت میں حلفا دئیے گئے بیان سے اب محلاتی سازشیں چہ مگوئیوں سے نکل کر بحث مباحث کا سبب بننے جا رہی ہیں۔
مین اسٹریم میڈیا پر عائد کردہ سینسر شپ کے باعث فی الحال تو ان سازشات اور دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کے سیاست میں کردار کے حوالے سے صحت مند مکالمے کا آغاز ناممکن ہے۔ لیکن گلی محلوں، سوشل میڈیا اور نجی محفلوں میں اب باقاعدگی سے ریاست میں طاقت کے توازن کے پلڑے کے پس پشت قوتوں دوارے جھکاو کی بحث عام ہوتی جا رہی ہے۔ اسے نواز شریف کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ ریاست میں منتخب حکومتوں اور نمائندوں کے خلاف سازشوں اور اختیارات کے پلڑے کے پس پشت قوتوں کے حق میں جھکاو کی بحث کو گلی محلوں اور تھڑوں تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ وہ سوالات یا مباحث جنہیں کبھی “حب الوطنی” کی آڑ اور کبھی خوف کے باعث کبھی بھی شروع نہیں کیا جا سکا تھا اب اس کا آغاز ہو گیا ہے۔ اب یہ دانشوروں اور صحافیوں کا فرض ہے کہ بنا کسی تعصب یا جھکاو کے ملک میں اختیارات کے توازن کا پلڑا صیح سمت میں جھکانے اور دفاعی ریاست کے بجائے جناح کی فلاحی ریاست کے تصور کو فروغ دینے کیلئے مثبت اور تعمیری بحث و مباحث اور مکالمات کا آغاز کریں۔ نواز شریف کے حالیہ عدالتی بیان کے بعد یہ سوال بھی کھڑا ہو گیا ہے کہ کیا نواز شریف کی یہ محاذ آرائی یا اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ سیاست انتخابی میدان میں مسلم لیگ نواز کو شدید تر نقصان پہنچانے کا باعث تو نہیں بنے گی؟ بہت سے تجزیہ نگار اور صحافی اس نکتہ پر متفق نظر آتے ہیں کہ نواز شریف کے موجودہ بیانئیے کے تناظر میں مسلم لیگ نواز کو انتخابی میدان میں کامیابی ملنا نا ممکن ہے۔ اس کی بنیادی وجہ انتخابات میں پری پول رگنگ اور ایسٹیبلیشمنٹ کی جانب سے سیاسی جماعتوں کی جوڑ توڑ کو قرار دیا جاتا ہے۔ گو حالات و واقعات یہ گواہی دیتے ہیں کہ ایسٹیبلیشمنٹ سے لڑائی مول لے کر عام انتخابات کا میدان مارنا تقریبا ناممکن ہے۔ لیکن ملکی تاریخ میں ایک بار یہ ناممکن کام پہلے بھی ہو چکا ہے۔
سن اٹھاسی کے انتخابات میں جب نواز شریف خود ایسٹیبلیشمنٹ کے چہیتے ہوا کرتے تھے ، تمام تر کوششوں جوڑ توڑ اور دھاندلی کر کے بھی اس وقت کی ایسٹیبلیشمنٹ بینظیر بھٹو کو انتخابات کے نتیجے میں سادہ اکثریت حاصل کرنے سے روک نہیں پائی تھی۔ چونکہ نواز شریف اس دور میں خود ایسٹیبلیشمنٹ کے ویسے ہی چہیتے تھے جیسے آج کل عمران خان ہیں اس لئیے نواز شریف سے زیادہ اس بات کو کوئی نہیں جان سکتا کہ کس ٹائمنگ پر کونسا کارڈ کھیل کر ایسٹیبلیشمنٹ کو انتخابی میدان میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔
آئندہ منعقد ہونے والے انتخابات کے نتائج فی الحال ایک معما ہیں جن کو پراپیگنڈے کی روشنی میں محترم عمران خان کے حق میں دکھایا تو جا رہا ہے لیکن خود پراپیگنڈا کرنے والے اینکرز اور تجزیہ نگار بھی اس امر سے واقف ہیں کہ اس بار کا انتخابی منظر نامہ ماضی کے برعکس بے حد مختلف ہے ۔معروف جریدے دی اکنامسٹ کے جنوری 2018 کے سروے اور گیلپ پاکستان کے حالیہ سروے کے مطابق مسلم لیگ نواز ابھی بھی انتخابات جیت کر پنجاب اور مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔ایک لمحے کیلئے ان سرویز کو حقائق کے منافی یا غلط مان بھی لیا جائے تو اعداد و شمار اور زمینی حقائق کی روشنی میں باآسانی کم سے کم آئندہ انتخابی منظرنامے کے بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے پچھلی مرتبہ عام انتخابت میں پنجاب سے پانچ اور خیبر پختونخواہ سے 17 قومی اسمبلی کی نشستیں جیتی تھیں۔ آئندہ عام انتخابات میں الیکٹیبلز کو تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال کر اور انتخابات کو مینیج کر کے تحریک انصاف کی پنجاب میں نشتوں کی تعداد کو پانچ سے چالیس بھی کر دیا جائے تو یہ تعداد کسی طور بھی تحریک انصاف کو اقتدار کے حصول میں معاون نہیں ثابت ہو سکتی۔ خیبر پختونخواہ میں پچھلی بار تحریک انصاف کی سترہ قومی اسمبلی کی نشستیں جیتنے کی وجہ طالبان کی جانب سے اے این پی اور پیپلز پارٹی کو انتخابی مہم نہ چلانے دینا تھی۔ اس دفعہ چونکہ عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی اپنی انتخابی مہم آزادی سے چلا رہی ہیں اس لئیے تحریک انصاف آئندہ انتخابات میں خیبر پختونخواہ سے زیادہ تعداد میں نشستیں حاصل کرتی نہیں دکھائی دیتی۔ عام انتخابات میں پس پشت قوتوں کی بھرپور مدد کے باوحود قومی اسمبلی میں تحریک انصاف پچاس یا پچپن سے زائد نشستوں پر کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کی نشستوں میں اضافہ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے سیاست سے آوٹ ہونے کا فائدہ بھی پیپلز پارٹی کو ملتا دکھائی دیتا ہے ۔یعنی پیپلز پارٹی بھی پچپن سے ساٹھ قومی اسمبلی کی نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں آ سکتی ہے۔ اگر آزاد امیدواروں اور چھوٹی موٹی جماعتوں کوساتھ ملایا جائے تو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی ایک مخلوط حکومت بنا کر صادق سنجرانی جیسے کسی گمنام سیاستدان کو وزارت عظمی کا عہدہ سونپا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ نواز کو انتخابی معرکے میں فتح کیلئے پنجاب سے کم سے کم 80 سے 90 کے لگ بھگ قومی اسمبلی کی نشستیں درکار ہوں گی۔ موجودہ حالات میں پس پشت قوتوں کے زیر عتاب مسلم لیگ نواز اگر پچاس سے ساٹھ نشستیں بھی نکال پائے تو یہ معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ البتہ اگر پنجاب اور ہزارہ بیلٹ سے مسلم لیگ نون کا ووٹر اتنی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے آ جائے کہ جس کے ڈالے گئے ووٹ کی تعداد دھاندلی کے ذریعے بھی تبدیل کرنا ناممکن ہو تو پھر شاید ہم 1988 کے انتخابات کی رہپیٹ قسط دیکھیں گے اور مسلم لیگ نواز سادہ اکثریت لیکر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔ نواز شریف کی حالیہ سیاست کا انداز یہی بتاتا ہے کہ مسلم لیگ نواز ان انتخابات میں عوام کی بھاری اکثریت سے ہمدردی اور پس پشت قوتوں کے خلاف غم و غصے کا ووٹ اپنے حق میں پڑتا دیکھ رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے جارحانہ سیاسی حکمت عملی اپناتے ہوئے روایتی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی توقعات کے برعکس اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ بیانئیے ” ووٹ کو عزت دو ” کے دم پر انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خیر یہ تو صرف ایک تجزیہ ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے لیکن اگر صورتحال یہی رہی تو ان حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے عام انتخابات کا انعقاد کھٹائی میں پڑتا دکھائی دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے بین الاقوامی ایسٹیبلیشمنٹ کو متوجہ کرنے کیلئے ہوئے ممبئی حملوں والا بیان دیا تھا۔ وطن عزیز کی دفاعی اور سیاسی ایسٹیبلیشمنٹ دونوں ہی بین الاقوامی ایسٹیبلیشمنٹ سے تعلقات بہتر رکھنے کی خواہاں ہوا کرتی ہیں۔
نواز شریف اس وقت بین الاقوامی ایسٹیبلیشمنٹ سے کسی ڈیل یا این آر او کے بجائے آزاد اور منصفانہ انتخابات کے بروقت انعقاد کی گارنٹی چاہتے ہیں۔ سیاست اور طاقت کے حصول کے اس کھیل میں کون کامیاب ہوتا ہے اور کون ناکام یہ فیصلہ تو انتخابات کے منصفانہ اور بروقت انعقاد کے ہونے یا نہ ہونے سے مشروط ہے لیکن وطن عزیز میں پس پشت قوتوں کے اختیارات اور گزشتہ ستر برسوں کے واقعات کے عوامل کے متعلق بحث کا آغاز ایک مثبت اور خوش آئند قدم ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).