امریکا سندھ میں اسکول کیوں بنا رہا ہے ؟


.

 سندھ بھر میں شہری خواہ دیہی سطح پر  ایسے شاندار، خوبصورت ہائی اسکول بنے ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ دوبارہ اسکول کی تعلیم شروع کی جائے۔ ہم جن سرکاری اسکولوں میں پڑھ کر آئے ہیں وہ شہر کے بڑے سرکاری اسکول ہوتے تھے مگر کسی عمارت کے ٹوائلٹ ٹوٹے ہوتے تھے، کہیں پینے کا پانی ضرورت کے مطابق نہیں ہوتا تھا، کہیں کلاس روم  بس گزارا ہوتے تھے اور کہیں تو کلاس روم ہوتے ہی نہیں تھے اور بچے درخت کے نیچے کلاس لیتے تھے۔ آج بھی سندھ کے کئی شہروں کے سرکاری اسکولوں کا یہ ہی حال ہے۔ ایسے میں ہم حسرت سے پرائیویٹ اسکولوں کی شاندارعمارتوں کو دیکھتے تھے۔ ان میں رکھے بہترین فرنیچردیکھ کر دل چاہتا تھا کہ ہم بھی ایسے اسکولوں میں پڑھیں مگر ان پرائیویٹ اسکولوں کی فیس بھرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

ایسے میں سندھ بھر میں غریب کے بچے کا ایک شاندار عمارت،   کشادہ کلاس رومز اور بہترین فرنیچر والے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کا خواب پورا ہوا ہے اور یہ  خواب امریکی عوام کے ٹیکس کے پیسے سے تعبیر ہوا ہے۔   امریکی حکومت نے سولہ ارب روپے کی لاگت سے سندھ بھر میں، 106انتہائی شاندار اسکول بنا کر دینے کا بیڑا اٹھایا اور اس میں سے پچاس سے زیادہ اسکول تیار ہو کر سندھ حکومت کے حوالے کیے گئے ہیں۔ بنیادی طور پر سندھ میں2010 میں آنے والے سیلاب سے تباہ شدہ علائقوں میں اسکولوں کی بحالی کا یہ منصوبہ تھا جس کو بڑھا کر پورے سندھ میں اسکولوں کی عمارتیں بنا کر دینے کی مہربانی کی گئی۔

یہ ہی وہ اسکول ہیں جس پر سندھ کے وزیر اعلٰی مراد علی شاہ دعوٰی کرتے ہیں کہ ہم نے سندھ میں بہترین کیمبرج اسکول دیے ہیں۔ سندھی مں ایک کہاوت مشہور ہے، کُکُڑ کوری جو، نالو وڈیرے جو۔   یعنٰی کسی وڈیرے کے پاس کوئی مہمان آنا ہوتا ہے تو وہ اپنے کمی، کاسبی  ہاری سے کہتا ہے کہ مہمان آر ہے ہیں اپنے گھروں سے مرغے لے آؤ۔ وہ مرغے پکتے ہیں، مہمان کھانے کی تعریف کرتا ہے، وڈیرہ خوش ہوتا ہے اور کھانے کی ٹیبل کے پاس کھڑا وہ غریب جس کا مرغا تھا ہاتھ میں لوٹا لئے سب کے ہاتھ دھلانے کے لئے تیار سن رہا اورسوچ رہا ہوتا ہے کہ مرغا میرا، تعریف اور واہ واہ وڈیرے کی؟

یہ ہی صورتحال سندھ حکومت کی ہے۔ اسکول امریکہ نے بنائے ہیں، پیسہ ان کا، کام بھی انہوں نے ہیں خود کروایا ہے کہ تعمیر کی کوالٹی اچھی ہو، نقشا بہ ان کا، نگرانی بھی ان کی، اور دعوٰی سندھ حکومت کر رہی ہے، حالانکہ حقیقت تو یہ ہے جن علائقوں میں یہ اسکول بنے ہیں وہاں کے لوگ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ جتنے اچھے یہ اسکول بنے ہیں اتنی اچھی تعلیم ان اسکولوں میں تب ہی ممکن ہے کہ امریکن ہی ان اسکولوں کا نظام خود چلائیں کیوںکہ سندھ بھر میں سرکاری اسکولوں کا نظام کرپشن کی نظر ہو کر تباہ ہو گیا ہے اور عوام سمجھ رہے ہیں کہ کرپشن کرنے والے افسر اور دیگر عملہ ان امریکی اسکولوں کا فرنچر تک بیچ دے گا۔

بحرحال آرائیں گوٹھ سکھر، کلاب جیئل خیرپور،   بیدل بیکس روہڑی، کورو گوٹھ خیرپور کے علاوہ سندھ بھر میں دیہی خواہ شہری علائقوں میں پچاس سے زیادہ ہائی اسکول لیول کی ایسی عمارتیں بن کر سندھ حکومت کے حوالے ہو چکی ہیں جن کو دیکھ کر اس علاقے کے ہر غریب باسی کی خواہش ہو رہی ہے کی اس کا بچہ اس اسکول میں داخل ہو۔ ابھی تک سندھ حکومت ان اسکولوں کے بارے میں کنفیوز دکھائی دے رہی ہے کہ ان کا نظام کیسے چلایا جائے؟ کس کے حوالے کیئے جائیں یہ اسکول، کیا اسی کرپٹ سسٹم میں دے دیے جائیں؟ سندھ حکومت کو ان شاندار اسکولوں کے بارے میں اس وقت سے ہی پلاننگ کر دینی چاہیے تھی جب سے ان اسکولوں کی عمارتیں بننا شروع ہوئی تھی۔ بحرحال  حکومت بھلے ان اسکولوں کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرے مگر سب کو پتہ ہے کہ یہ اسکول امریکی عوام کا سندھ کے بچوں کے لئے تحفہ ہے۔ شکریہ امریکہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).