وہ دیکھو کتیا کی بچی پیشاب کر رہی ہے


ہمارے یہاں سوشل میڈیا پر یہ چلن ہے، کہ کوئی مخصوص موقع ہو‘ تہوار ہو، خوشی ہو کہ غمی ہو؛ انتہائی مخالف سمت جا کر اس پر بحث کرنا ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے۔ بعض اوقات بات کی ’اصل‘ تک پہنچنے کے لیے یونھی ایک شوشا چھوڑ دینا بھی مناسب ہوتا ہے۔ ایسے وہ وہ زاویے بھی دکھائی دینے لگتے ہیں‘ جو گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ کم سے کم میں اس طریقے پر عمل کرتا ہوں؛ چھیڑ چھاڑ میں بہت سی ایسی باتیں بھی کہ جاتا ہوں‘ جن پر میرا ایمان نہیں ہوتا۔

ماہ رمضان کے آنے سے پہلے ہی آپ کو‘ ہمیں‘ سب کو معلوم تھا‘ کہ ”روزے کے فوائد“؛ ”روزہ رکھنے والوں کی حماقت“، نیز ”رمضان میں اشیائے صرف کی مصنوعی گرانی“ ”مغرب کی مثالیں“ ”مذہب“ ”مسلک“ کی بحث‘ ”لبرل“ ہونے کے طعنے‘ ”ملا“ کی تکرار ہونا ہے۔ یہ بھی معلوم تھا‘ کہ فریقین کے بیچ میں غصے سے لال پیلے ہوتے‘ پدر سری معاشرے کے ظالم مردوں کو لتاڑتے‘ عورتوں کے مخصوص ایام، سینیٹری نیپکن کا ذکر بھی آوے ہی آوے۔

اگر آپ سمجھے ہیں‘ کہ میں ان مباحث کا ناقد ہوں‘ تو آپ غلط سمجھے ہیں۔ میں ایسے مکالموں کا زبردست حامی ہوں۔ ہاں! میں اس کے خلاف ہوں‘ کہ عورت کو اپنا موقف دینے کی آزادی ہو‘ اور مرد اپنا موقف دے‘ تو اسے ’میل شاونسٹ‘ کَہ کر کھدرے میں پھینک دیا جائے۔ یہ کہا جائے‘ کہ وہ کون ہوتا ہے‘ مردوں کی نمایندگی کرنے والا۔

الحمدللہ! اس رمضان میں ہر موقع کی طرح یہی محسوس ہوا، کہ عورتیں آزادی مانگ رہی ہیں‘ جو کہ اچھی بات ہے۔ میرا مطالبہ ہے‘ عورت کو قید کر کے رکھنے والے مرد کو ڈھونڈ نکالنا چاہیے‘ اور سرِ عام کوڑے برسانے چاہیے۔ خصوصا ایسا مرد جو عورت کو اس بات کی آزادی نہیں دے رہا‘ کہ وہ اپنا سینٹری نیپکن دیوار پر سجا سکیں۔

گئے دنوں کی بات ہے، میری ایک کولیگ نے اسی حیض کے مسئلے پر یہ نکتہ اٹھایا‘ ”تم مرد حیض کا نام سن کر ناک بھوں کیوں چڑھاتے ہو‘ اس میں ہمارا کیا دوش، یہ فطری عمل ہے؟!“
میں نے اسے کہا، ”میں ٹٹی کر کے آتا ہوں، پھر تم سے بات کرتا ہوں۔“
اس نے ناک بھوں چڑھاتے کہا، ”کتنے گندے ہو، تم!“
”کیوں؟ حیض اگر فطری شئے ہے، تو ٹٹی بھی فطری عمل ہے۔ اگر تمھاری ناک بھوں اس پہ چڑھ سکتی ہے، تو ہم مردوں کو حیض پہ ناک بھوں چڑھانے کی آزادی تو دو۔“

”محترمہ، مجھے عورت سے نفرت نہیں ہے۔ بل کہ عورت کے جذبات کی قدر کرتا ہوں؛ میں مساوات کا زبردست حامی ہوں، لیکن مساوات یہ نہیں جو آپ بیان کر رہی ہیں۔ مساوات یہ ہے کہ مجھے منافق مردوں کی طرح، منافق عورتوں سے بھی چڑ ہے۔ خاص طور پہ اُن عورتوں سے‘ جو ایک طرف مردوں کی برابری کرنا چاہتی ہیں، اور دوسری طرف عورت کے لیے مخصوص پروٹوکول چاہتی ہیں (برابری اور مساوات کے فرق کو ملحوظ رکھا جائے)۔ خاص طور پہ ایسے مردوں سے‘ جو طویل قطار دیکھ کر‘ ساتھی عورت کو اس کھڑکی پہ کھڑا کردیتے ہیں جہاں ”خواتین کے لیے“ لکھا ہو‘ اور خود دیوار سے ٹیک لگائے، کسی دوسرے سے کَہ رہے ہوتے ہیں، ”یار دیکھو یہ کیسے لوگ ہیں، خواتین کا بھی لحاظ نہیں، اتنی دیر لگا رہے ہیں، ٹکٹ دینے میں۔ پاکستان میں تو کچھ بھی ٹھیک نہیں۔“

عورت کیا چاہتی ہے؟ صرف مساوات؟ اور مساوات کیا ہے؟ بس یہ کہ مرد اپنی چڈی تار پہ ٹانگ سکتا ہے‘ تو عورت اپنی انگیا کی نمایش کیوں نہیں کرسکتی؟! جی ہاں! میں تو یہی سمجھا ہوں‘ کہا جا رہا ہے، کہ ایسی روک لگانا‘ یہ عورت کی آزادی سلب کرنا ہے۔ کہا جا رہا ہے‘ کہ عورت کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے‘ اس کا سینیٹری نیپکن ہر کوئی دیکھے۔ اس سے میں یہ کیوں نہ سمجھوں‘ کہ ایسی مانگ کرنے والوں کی نگہ میں‘ یہی ’مساوات‘ ہے! مرد چلتی بھِیڑ سے بے نیاز دیوار کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنے بیٹھ سکتا ہے، تو عورت کو کیوں روکا جائے؟ یہ تو مساوات نہ ہوئی! حیض آنا کوئی بیماری نہیں‘ جرم نہیں‘ گناہ نہیں۔ جب ٹٹی کا نام لیتے ہم نہیں شرماتے، جگہ جگہ تھوک سکتے ہیں؛ ہر جا بیٹھ کر دھرتی پر فطرت کی نشانیاں چھوڑ سکتے ہیں، تو ایک حیض ہی کیوں کہ جس کا نام لیتے شرمایا جائے؟

پتا نہیں مجھ جیسے مرد ’مساوات‘ کا مطلب کیوں نہیں سمجھتے۔ مساوات ہوجائے تو دیواروں پہ ”وہ دیکھو کتے کا بچہ پیشاب کر رہا ہے“، کے ساتھ ساتھ ”وہ دیکھو کتیا کی بچی پیشاب کر رہی ہے“ جیسے دِل خوش کن چاکنگ بھی دکھائی دے گی۔ آج کی عورت مساوات کے نام پر جو مانگ رہی ہے، لگتا تو یہی ہے کہ وہ ’مساوات‘ یہی ہے۔  پھر یہ بھی ذہن نشیں رہے، کہ ”حیض“ کی طرح ”کتیا“ ”کتا“ ”کتے کا بچہ‘ کتیا کی بچی“ یہ سب قدرت کے مظاہر ہیں۔ ہم انھیں عنوان کریں‘ تو برا مت مانیے؛ اس پر اعتراض کاہے کا؟!

آخر میں یہ نوٹ لکھ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے‘ کہ یہ خیالات محض مصنف کے ہیں، لہذا اسے ”ہم سب“ کی ادارتی پالیسی نہ سمجھا جائے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran