فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کی قومی اسمبلی سے منظوری


فاٹا کے انضمام کے لیے ہونے والی آئینی ترمیم کے حق میں 229 ووٹ آئے جبکہ ایک رکن نے اس کی مخالف کی۔

پاکستان کی قومی اسمبلی نے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی آئینی ترمیم منظور کر لی ہے۔

جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کی جانب سے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے لیے 31ویں آئینی ترمیم کا بل وزیر قانون و انصاف محمود بشیر ورک نے پیش کیا۔

اس موقع پر ایوان میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کی بڑی تعداد موجود تھی۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان بھی ایک طویل عرصے کے بعد جمعرات کو ایوان میں آئے۔

اس آئینی ترمیم کے حق میں 229 ووٹ آئے جبکہ ایک رکن نے اس کی مخالف کی۔ ترمیم کی مخالفت کرنے والوں میں جمیعت علمائے اسلام ف اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ارکان شامل تھے۔

بل کے مسودے میں کیا ہے؟

قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے فاٹا اصلاحات بل کے مطابق آئین کی شق 246 میں ترمیم کرتے ہوئے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کو خیبر پختونخوا جبکہ صوبوں کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (پاٹا) کو متعلقہ صوبوں یعنی خیبر پختونخوا اور بلوچستان کا حصہ بنانے کی منظوری دی گئی ہے۔

خیبر پختونخوا کا حصہ بننے والے فاٹا کے علاقوں میں مہمند ایجنسی، باجوڑ ایجنسی، کرم ، شمالی اور جنوبی وزیرستان، خیبر اور اورکزئی ایجنسیوں کے علاوہ ایف آر پشاور، ایف آر بنوں، ایف آر کوہاٹ، ایف آر لکی مروت، ایف آر ڈیرہ اسماعیل خان اور ایف آر ٹانک کے علاقے شامل ہیں۔

خیبر پختونخوا کا حصہ بننے والا ’پاٹا‘ علاقوں میں چترال، دیر، سوات، کوہستان، مالاکنڈ اور مانسہرہ سے منسلک قبائلی علاقہ شامل ہیں۔

بلوچستان کا حصہ بننے والے پاٹا علاقوں میں ضلع ژوب، دکی تحصیل کے علاوہ باقی ضلع لورالائی، ضلع چاغی کی تحصیل دالبندین، ضلع سبی کے مری اور بگتی قبائلی علاقے شامل ہیں۔

ایف سی آر کا خاتمہ

آئینی ترمیم کے ذریعے 100 برس سے زیادہ عرصے تک قبائلی علاقہ جات میں نافذ رہنے والے قانون فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن یا ایف سی آر کو بالاخر ختم کر دیا گیا ہے۔

اس قانون میں سزا یافتہ شخص کو ایپل کا حق نہ ہونے وجہ سے اسے انسانی حقوق سے متصادم بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ سنہ 1901 میں سابق برطانوی راج میں نافذ ہونے والے ایف سی آر قانون کے بعض شقوں کے مطابق کسی ایک شخص کی جرم کی خاطر پورے قبیلے کو پابند سلاسل کیا جا سکتا ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ایف سی آر کے خاتمے کی مسلسل حمایت کرتی رہی ہیں۔

قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں تبدیلی

فاٹا اصلاحات بل کے مطابق قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 342 سے کم کر کے 336 کر دی جائیں گی۔

اب قومی اسمبلی کی نئی نشستوں میں سے بلوچستان کی 16، خیبر پختونخوا کی 45، پنجاب کی 141 ، سندھ کی 61، وفاقی داراحکومت کی تین نشستیں رہ جائیں گی۔

فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد قومی اسمبلی میں قبائلی علاقوں کی 12 نشستیں ختم کر دی جائیں گی جبکہ اس کی جگہ خیبر پختونخوا سے قومی اسمبلی کی چھ نشستیں بڑھ جائیں گی۔

فاٹا

BBC

اس تبدیلی کے بعد قومی اسمبلی میں خیبر پختونخواہ کی جنرل نشستوں کی مجموعی تعداد 45 ہو جائے گی۔

ترمیم کے مطابق 2018 کے عام انتحابات کے مطابق فاٹا سے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی اپنی مدت پوری کریں گے۔

فاٹا سے سینیٹ کی آٹھ نشستیں بھی ختم کر دی گئی ہیں جس کے بعد اب سینیٹ کے ارکان کی تعداد 96 رہ جائے گی تاہم موجودہ سینیٹ میں فاٹا کے منتخب ارکان اپنی مدت پوری کریں گے۔

خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں قبائلی علاقہ جات کے لیے 16 عام، خواتین کی چار اور غیر مسلموں کی ایک نشست رکھی گئی ہے جن کے لیے انتخاب 2018 کے عام انتخابات کے ایک سال کے اندر اندر ہوگا۔

اس اضافہ کے بعد خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کی عام نشستوں کی کل تعداد 115، خواتین کی نشستوں کی تعداد 26، اور غیر مسلموں کی نشستوں کی تعداد چار ہو جائے گی اور یوں یہ اسمبلی کل 145 ارکان پر مشتمل ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp