چھوٹے پرائیویٹ سکولوں کا فراڈ اور سرکاری کا فرسودہ طریقہ تعلیم


ہمارے گھر میں ہمارا ڈرائیور اور اس کی فیملی بھی رہتی ہے جس میں 5 اور 6 سال کے دو بچے بھی شامل ہیں۔ کوئی دو سال پہلے بڑے والے بچے کوگھرسے نزدیک ترین پرائیویٹ سکول میں داخل کروایا جس کی فیس علاقے کے تمام پرائیویٹ سکولوں میں سب سے کم تھی یعنی 1500 روپے ماہوار۔ سب ٹھیک جا رہا تھا بچے کا کلاس ورک تو بہت اچھا ہوتا لیکن ہوم۔ ورک کی یہ لوگ اتنی پروا نہیں کرتے اس لیے وہ اکثر نہیں ہوتا تھا۔ البتہ امتحانات میں رزلٹ بہت اچھا آتا جو پیپرز وغیرہ گھر آتے وہ بھی اچھے سے کیے ہوئے ہوتے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ سکول والے فیس بڑھانے پر زور دے رہے تھے جبکہ یہ لوگ دوسرے بچے کو بھی داخل کروانا چاہ رہے تھے۔

میں نے مشورہ دیا کہ دی ٹرسٹ سکول میں ٹیسٹ دلوا کے بچوں کو سکالر شپ پہ داخلہ مل جائے تو دونوں بچے فری میں اچھے سکول میں پڑھ لیں گے۔ پھر میں ان لوگوں کو دی ٹرسٹ سکول لے گئی۔ بہت اچھا صاف ستھرا سجا سجایا سکول دیکھ کر طبیعت خوش ہو گئی۔ جب سکول آفس پہنچ کر فارم طلب کیا تو پتا چلا کہ فارم ملنے کی آخری تاریخ تو ایک دن پہلے گزر گئی ہے۔ بہرحال وہ صاحب اچھے تھے ہماری منت سماجت سے وہ ان بچوں کو ایک موقع دینے کے لئے راضی ہو گئے اور ہمیں فارم کے ساتھ ٹیسٹ کا کا سلیبس تھماتے ہوئے بتایا کہ مفت تعلیم کے لئے ٹیسٹ دینے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہے اس لیے فیصلہ میرٹ پر ہو گا کسی کی حق تلفی نہیں ہو گی اس لیے ٹیسٹ کی تیاری اچھی طرح کروائیے گا۔ سلیبس وغیرہ لے کر ہم گھر آ گئے۔

بڑے والے بچے کی تو مجھے کوئی فکر نہیں تھی۔ مجھے امید تھی کہ میں اسے تیاری کروا لوں گی کیونکہ وہ پہلے سے ہی سکول جاتا رہا تھا۔ فکر چھوٹے والے کی تھی کیونکہ اس نے ابھی تک سکول کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ میں نے ان کو تیاری کروانے کی ٹھانی اور جب پڑھانے بیٹھی تو پہلے پندرہ منٹ میں ہی صدمہ سے دوچار ہونا پڑا کیونکہ بڑا والا جو دو سال سے سکول جا رہا تھا اور اس کے ماں باپ اپنا پیٹ کاٹ کر اس کی فیس بھر رہے تھے اس کو ایک سے دس تک گنتی کی بھی پہچان نہیں تھی۔ اردو کے حروف تہجی تو کسی کھاتے میں ہی نہیں تھے البتہ انگریزی کے حروف تہجی میں سے چند ایک لکھنے آتے تھے لیکن پہچان ان کی بھی نہیں تھی۔ بہرحال اپنی پوری کوشش کی لیکن بچوں پہ پریشر ایک حد تک ہی ڈالا جا سکتا ہے۔

نتیجہ یہ کہ بچوں کا داخلہ نہیں ہوا۔ پھر میں نے سوچا کہ کسی قریبی سرکاری سکول میں بچے داخل کروا دیتے ہیں جب سرکاری سکول ڈھونڈنے نکلے تو جو سب سے قریب ترین سرکاری سکول ملا وہ کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا جہاں نہ تو غریب والدین اپنے بچوں کو پیدل لا سکتے ہیں اور نا ہی ٹرانسپورٹ افورڈ کر سکتے ہیں۔ بڑی گ و دو کر کے ایک رکشہ والے کو تین ہزار روپے میں بچوں کو سکول لانے لے جانے کے لیے منایا اور اس طرح ٹرانسپورٹ کو خود سپانسر کر کے بچوں کی سرکاری سکول تک رسائی کو ممکن بنایا۔

اب بات کرتے ہیں سرکاری سکولوں کے بارے میں۔ پچھلے دینوں انہی بچوں کے داخلے کے سلسلے میں ایک گورنمنٹ کے پرائمری سکول میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک بہت ہی سادہ سی اور سلجھی ہوئی خاتون بیٹھی تھیں جو وہاں کی ہیڈمسٹرس تھیں اور غالباً کوئی کلاس لے کے آ رہی تھیں۔ بہت اچھے طریقے سے ملیں، فوراً ہی داخلے کا مرحلہ طے پا گیا 20 روپے فی بچہ فیس دے کر۔ چونکہ میرا تعلق تعلیم کے شعبے سے رہ چکا ہے اور بچوں کی ابتدائی تعلیم یعنی early childhood education میرا پسندیدہ موضوع ہے تو میں نے ان سے حصول معلومات کے لیے گپ شپ شروع کر دی۔ اسی اثنا میں ایک اور خاتون ٹیچر بھی آ گئیں اور گفتگو میں شامل ہو گئیں۔ میں حیران رہ گئی جب میرے علم میں آیا کہ وہاں کے اساتذہ ایم اے یا ایم فل سے کم کوئی بھی نہیں یعنی انتہائی پڑھے لکھے لوگوں سے ان کی قابلیت کے مطابق کام نہیں لیا جا رہا۔ ایک ڈبل ایم اے ٹیچر نرسری کو پڑھا رہی ہے اور یہ صرف ایک مثال ہے۔

وہی گھسا پٹا نظام الف انار، ب بکری۔ وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں بدلتی ہیں۔ پرانی کی جگہ نئی چیزیں لے لیتی ہیں۔ یہ جدید دور ہے تیزی سے ماڈلز بدلتے ہیں۔ اسی طرح تعلیم کے شعبے کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔ اب سب کچھ بدل چکا ہے۔ کافی ریسرچ ہو چکی ہے اور جدت آ چکی ہے لیکن وہ جدت سرکاری سکولوں سے کوسوں دور رکھی گئی ہے تا کہ پرائیویٹ سکول اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ بڑے برانڈ کے سکول اٹھا رہے ہیں۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ جس پہ بے تحاشا پیسہ خرچ ہوتا ہے جو صرف پرائیویٹ ہی سکول کر سکتے ہیں سرکاری نہیں۔ یہ بہت آسان ہے صرف چند مخلص لوگ چاہییں تو سرکاری سکولوں کو بھی جدید طریقہ تعلیم میں لا کر سیکھنے کے یکساں مواقع فراہم کیے جا سکتے ہیں۔

جس طرح کسی بھی عمارت کی مضبوطی کا انحصار اس کی بنیاد پر ہوتا ہے اسی طرح ابتدائی تعلیم بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس پر ایک فرد کے مستقبل کا انحصار ہے۔ جس پر بہت زیادہ محنت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بد قسمتی سے سرکاری سطح پر سب سے زیادہ اسی چیز کو نظراندازکیا جاتا ہے۔ سرکاری سکولوں میں صرف تین کتابیں ہیں جو روائیتی طریقہ سے پڑھائی جاتی ہیں۔ درمیانے درجے کے پراؤیٹ سکولوں میں نرسری اور پریپ میں ہی اتنی ڈھیروں کتابیں لگائی جاتی ہیں کہ سوائے بچوں پہ بوجھ کے اور کچھ نہیں۔ اب ان دونوں یعنی سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ ٹیچرز کی ٹریننگ کا کوئی انتظام نہیں ہے یہاں تک کہ اس چیز کا کانسپٹ بھی نہیں ہے کہ ٹیچرز ٹریننگ کتنی ضروری ہے۔

اس کے بعد تھوڑے بہتر والے اور بڑے برانڈ کے سکول ہیں جو اسی چیز کو کیش کرواتے ہیں اور بچوں کی بنیاد اچھی بنانے کے لیے جدید طریقہءتدریس اپناتے ہوئے اپنے ٹیچرز کو ٹریننگ دلواتے ہیں لیکن یہ سب عام آدمی کی پہنچ سے کوسوں دور ہے۔ جدید طریقہءتدریس ایکٹی ویٹویز کے ذریعے بچوں کے کانسپٹ کلئیر کرنا ہے، طریقہ تعلیم پڑھانا نہیں سکھانا ہے، جدید طریقہءتدریس میں بچے کو صوتیات یعنی حروف کی آوازوں کے ذریعے سکھانا جبکہ پرانے طریقے کے مطابق بچوں کو حروف کے ناموں سے پڑھایا جاتا ہے۔ پرانے طریقے سے سیکھا تو جاتا ہے لیکن آج کل کے مقابلے کے دور میں اس سے سیکھنے کی رفتار انتہائی سست ہے۔ جدید طریقۂتدریس کے مطابق بچوں کو اس قابل بنانا کہ وہ اپنے دماغ سے سوچیں، مضمون یاد نا کریں بلکہ کسی بھی موضوع پر خود لکھنے کے قابل ہوں۔ ان کو شعور دیا جائے ان کی ذہن سازی کی جائے تاکہ چھوٹی کلاسز سے ہی ان کی تحلیقی قابلیت کو اجاگر کیا جائے جو پختہ عمر تک پہنچتے پہنچتے اہک کارآمد شہری بننے میں ان کی مدد کر سکے۔

جدید طریقہءتدریس کے ذریعے پریپ کلاس کے آخر تک بچے اس قابل ہو جاتے ہیں کہ وہ 5 سے 10 لائنوں کا مضمون خود بنا سکیں خواہ کوئی بھی موضوع ان کو دیا جائے۔ ہم یہ سب سرکاری سکولوں میں کیوں نہیں کروا سکتے۔ اس میں کوئی بھی مشکل چیز نہیں بس اساتذہ کو تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہمیں ڈبل ایم اے یا ایم فل اساتذہ کی ضرورت نہیں۔ ان سے ان کی قابلیت کے مطابق بڑی کلاسوں کے لئے خدمات لی جانی چاہیے۔ چھوٹی کلاسوں کے لیے ایف اے اور بی اے پاس طلبا سے خدمات لی جا سکتی ہیں۔

اگر ہر علاقے میں سرکاری سکول پیدل کی مسافت پر بن جائیں اور جدید طریقہءتدریس متعارف کروا دیا جائےتو بہت سے پرائیویٹ سکول اپنی اصلاح کر لیں گے کیونکہ اگر سرکاری سکولوں کا معیار بہتر ہو گیا تو یہ تعلیمی مافیا کے لیے بہت بڑی چوٹ ہو گی۔ اگر بچے سرکاری سکولوں کا رخ کریں گے تو ان نام نہاد تعلیم مافیا کی دکانداری خطرے میں پڑ جائے گی۔ پھر بھی اگر حکومت کہ لگتا ہے کے ایسا ممکن نہیں تو تجرباتی طور پر کوئی ایک سرکاری سکول تربیت یافتہ رضاکار افراد یا الف اعلان اور iSAPS جیسے تعلیم کے میدان میں خدمات انجام دینے والے اداروں کے حوالے کریں اور ابتدائی تعلیمی طریقہ تدریس میں تبدیلیاں کرنے کی اجازت دیں پھر ہم دکھائیں کہ یہ نا ممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).