حسابی چہرہ: گل نوخیز اختر


زندگی میں انسان کا بہت سے چہروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ کاروبار زندگی انجام دیتے ہوئے ہم دنیا کی بھیڑ میں انجان لوگوں کی شخصیت کو دیکھ کر کیا کیا نام دیتے ہیں، اگر کوئی بندہ ہمارے مزاج کے خلاف ہو تو ہم اسے کوئی نفرت بھرا خطاب یا نام دینے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتے اوراگر ہمارا مزاج عشقیہ ہے پھر تو ہر خوبرو چہرہ کتابی، گلابی، نوابی، جنابی، شرابی، نارنگی، اور پتہ نہیں ہمیں کیا کیا دکھائی دیتا ہے جب تک اگلا ہمیں حسب استطاعت بے عزت نہ کر دے، ہم بے وقت غیر ضروری اورخوشامدانہ تعریف کرنے سے باز نہیں آتے لیکن جس چہرے کی آج میں بات کرنے جا رہا ہوں وہ بہت ساری حسیناﺅں کے لیے کتابی، گلابی، نوابی، جنابی، شرابی، نارنگی، اور اس طرح کی دیگر دلبرانہ خصوصیات کا حامل ہے یا حامل رہا ہوگا، کیوں کہ مجھے مردوں میں کوئی دلچسپی نہیں اس لیے جو صلاحیت اس چہرے میں مجھے ملی وہ ہے حسابی، اور اس حسابی چہرے کی ملکیت ہے جناب محترم گل نوخیز اختر صاحب کے پاس۔

آپ میں سے بھی اکثر قاریئن ان کی شخصیت کے بارے بخوبی جانتے ہوں گے۔ مزاح ان کے انگ انگ میں ایسے بھرا ہے جیسے سگریٹ میں چرس۔ کوئی چرس والا سگریٹ پیے یا نہ پیے، دھواں اپنا اثر دکھائے بنا نہیں رہ سکتا۔ بالکل اسی طرح ان کی تحریر کا محض آپ کی نظر سے گزر جانا ہی آپ کا سڑیس دور کرنے کے لیے کافی ہے۔ آپ ایک کالم، چلتے ہو تو میڈیکل کالج چلیے، میں لکھتے ہیں”میں ڈاکٹر بننا چاہتا تھا، کیوں کہ ہمارا ایک ہمسایہ میڈیکل ریپ تھا، پورا محلہ اسے ڈاکٹر صاحب کہتا تھا اور مجھے اعتراف ہے کہ میں میٹرک تک میڈیکل ریپ کو زیر زبر کا فرق سمجھے بغیر انتہائی غلط پڑھتا رہا“۔

ایک دوسری جگہ اپنی تحریر میں فرماتے ہیں ”نئی نسل تو شلوار قمیض پہنتی ہی نہیں، اور اگر پہن لے تو وہا ں بھی کھینچ مارنے سے باز نہیں آتی، بھلا ہاف بازو والی قمیض کے ساتھ کھلے گھیرے اور پھولوں والی شلوار کیسی لگتی ہے“ اسی طرح جنسی ہراسمنٹ پہ لب کشائی فرماتے ہیں کہ” جس طرح خواتین ہمت کر کے جنسی ہراسمنٹ کرنے والے مرد کا نام لے لیتی ہیں ہم اس طرح خواتین کا نام نہیں لے سکتے کیونکہ معاشرتی روایات کے مطابق قصور بے شک بی بی کا ہی ہو ٹنڈ ہماری ہی ہو گی“

یہ تھیں ان کے مزاح نگاری کے حوالے سے چند حکایات۔ اب آتے ہیں ان کی دوبدو شخصیت کی طرف۔ ابھی چند دن پہلے کی بات ہے ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا بلکہ پورا دن ان کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا ان سے بہت کچھ سیکھا جیسے کہ سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے باتیں بھی کرنا دھواں اندر تک کھینچنا اور بالکل بھی کھانسی کو نیڑے نہ آنے دینا، شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی پیاری پیاری آنکھیں کئی بار اپنے اصلی حجم سے کم لگنے لگتی ہیں، ایک مخصوص انداز میں سنجیدہ ہوجا نا یااچانک سنجیدگی کی واٹ لگا دینا، انتہائی سنجیدہ گفتگو کرتے کرتے اچانک سب کو ہنسا دینا، باتوں باتوں میں مستحقین بے عزتی کی ایسی خوش اسلوبی سے ادائیگی حق کرنا کہ سامنے والے کے پاس سوائے ڈھیٹ مسکراہٹ کوئی دوسرا آپشن نہ رہے۔

 ان کی ایک فلم کے سیٹ پہ جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک سنجیدہ سین میں دو لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف حیران ہو کر دیکھنا تھا۔ ایک بار سین مکمل ہونے کے بعد نوخیز صاحب نے فرمایا کٹ اور ان دونوں لوگوں کو کہا پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھو۔ آس پاس کھڑے لوگوں نے سوچا شائد دوبارہ سین کروانا چاہ رہے ہیں، جب دونوں کرداروں نے قریب ہوتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف دوبارہ اسی فنکارانہ ڈھب سے دیکھا تو نوخیز صاحب نے بڑے زبر دست انداز میں فرمایا۔ ۔ ۔ چلو ہُن اک دوجے ول نوں تُھکو۔۔۔ سب لوگ جو انتہائی سنجیدہ کھڑے منظر میں ڈھلنے کی کوشش کررہے تھے قہقہے لگانے لگے، اسی طرح ایک سین میں ایک لوفر لڑکے کو ایک لڑکی بے عزت کرتی ہے تو لڑکا بے عزت ہونے کے بعد جو چہرے کے تاثر دے رہاتھا وہ نوخیز صاحب کی خواہش کے مطابق نہ تھے تو نوخیز صاحب نے لڑکے کو کہا بیٹا یا تو تم بے عزتی کے عادی مجرم ہو کہ اگر کوئی لڑکی تمھیں بے عزت کرے تو تمھیں فرق ہی نہیں پڑتا، یا پھر تم ابھی فیڈر پیتے ہو کہ تمھارا کبھی اس طرح کی خوبصورت بے عزتی سے واسطہ ہی نہیں پڑا۔۔۔ اس بے عزتی کو محسوس کرو میرے بھائی۔۔۔

آپ کی ایک خوبی بہت مزے کی ہے کہ آپ ہنستے ہنستے بہت کچھ سکھا جاتے ہیں، جیسے مجھے کبھی کبھی شاعری کا بھوت آن گھیرتا ہے اور میں لفظوں کے اوٹ پٹانگ توڑ جوڑ شروع کر دیتا ہوں میں نے اپنی شاعری کی چند لائنیں۔

                                                                ہر ظلم کا اب تو حساب ہوگا،

                                                                ہر ظالم اب زیرعتاب ہوگا

                                                                زندان بنے گا مقدر سبھی کا

                                                                جس جس کا احتساب ہوگا

 جب انھیں میسج کیں تو مجھے بڑے پیار سے پاس بلا کر کہتے ہیں بابا جی آپ پولیس والے ہیں، کبھی آپ نے کسی کو کوڑے مارے ہیں؟ یا کسی کی بلا وجہ چھترول کی ہو۔ اس اچانک اور موقع کی مناسبت کے عین خلاف سوال پہ میں بڑا حیران ہو ا۔ میں نے نفی میں سر ہلایا تو آپ نے فرمایا بابا جی پھر مجھے کیوں کوڑے مارے کا فیصلہ کر چکے ہیں آپ۔۔۔ بے وزن بے معنی اور غیر ضروری جو شعر ہوتے ہیں وہ کسی خاندانی جلاد کے دور سے بھاگتے ہوئے آکر ٹکٹکی پہ بندھے قیدی کو مارے گئے کوڑوں سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ مجھے کہنے لگے۔ کبھی آپ نے اونچے پہاڑ سے کوئی پتھر لڑھکتا ہوا زمین کی طرف آتے دیکھا ہے ؟میں نے کہا نہیں، پھر انھوں نے کہا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ بہت تھکے ہوئے ہوں اور جی بھر کے پوری رات سونا چاہتے ہوں مگر آپ کے ساتھ والی چارپائی پہ کوئی ایسا بندہ سویا ہو جسے زور زور کے ہچکیوں والے پانی کے پائپ کے سوٹوں جیسے خراٹے لینے اور مارنے کی بیماری ہو۔ خراٹے مارنے کی میں نے اس لیے کہا کہ کچھ لوگ صرف خراٹے لیتے ہی نہیں بلکہ مارتے بھی ہیں اور اردگرد کے ماحول کو تعفن زدہ کر نا ان کا من پسند مشغلہ ہوتا ہے اگر اب بھی خراٹے مارنے کی منطق آپ کی سمجھ میں نہ آئی ہو تو پھر آپ خراٹے لینے والے تک ہی محدود رہیں، میں نے کہا جی سر ایسا تو سرکاری ہاسٹلز میں رہائش پذیر لوگوں کے ساتھ اکثر ہو جاتا ہے، تو کہنے لگے شکر ہے۔ پھر تم میری کیفیت کو سمجھ جاﺅ گے خدا کے لیے آپ شاعری کے اور سامعین کے حال پہ ترس کھائیں، کیوں کہ میں ایک سلجھا ہوا پڑھا لکھا شاعر نہیں ہوں اس لیے مجھے ان کی بات ایک استاد کی نصیحت کے علاوہ اور کچھ نہیں لگی میں سمجھتاہوں کہ یہ بھی ان کا ایک طریقہ ہے۔

سمجھانے کا اور اندر سے فیلنگز باہر نکالنے کا میرے خیال میں ان کا مقصد یہ ہے کہ شعر صر ف لکھ دینا کافی نہیں ہوتا شعر کو محسوس کیا جانا اشد ضروری ہے۔ میرا اپنا بھی یہی خیال ہے کہ بے معنی غیر موزوں گفتگو سے خاموش رہنا بہت بھلا ہے۔ لیکن ساتھ ہی میری ایک بچگانہ سوچ بھی ہے کہ شاعر حقیقت میں درد روتا ہے اور کسی بھی قسم کے رونے دھونے اور ماتم کے لیے استاد کی ضرورت نہیں ہوتی بس خلوص لازمی جزو ہے خیر، ایک دفعہ میں نے گل نوخیز صاحب سے کہا سر میرے پاس ایک آئیڈیا ہے کہ کیوں نہ انکل سرگم کے پروگرام جیسا کوئی پروگرام چلایا جائے جس کا نام ہم، “ماسی پھتے کی ہٹی” رکھ سکتے ہیں، میرے پاس کافی مواد لکھا ہوا ہے تو آپ نے کہا، بیٹا ایسے پروگرام آج کل چینل خود کرتے ہیں، جیسے آفتاب کا خبرناک، جنید کا حسب حال، دنیا نیوز کا مذاق رات وغیرہ وغیرہ ان کی بات سن کر میں نے کہا سر تو پھر میرے پاس ایک کہانی ہے “مکروہ چہرے” میری بات سن کر ان کے چہرے پہ معنی خیز ہنسی امنڈ آئی، میری بات کا جواب دینے کی بجائے فرمانے لگے، ایک دن میرے بیٹے نے جب وہ بہت چھوٹا تھا مجھے کہا پاپا میکڈونلڈ جانا ہے، میں نے کہا اچھا چلو میکڈونلڈ کے سپیلنگ سنا دو۔ میں تمھیں میکڈونلڈ لے چلتا ہوں، توان کے بیٹے نے کہا نہیں پھر ہم کے ایف سی چلے جاتے ہیں، مجھے لگا وہ اپنے بیٹے کی حاضر دماغی کا بیان فرما رہے ہیں۔ لیکن جب رات کو میں سونے کے لیے چاں چاں کرتے، جیسے بوڑھے کو جوڑوں کا دردہو رہا ہو، سرکاری بیڈ پہ لیٹا اور ان کی ساری گفتگو کو آنکھیں بند کر کے ذہن میں تازہ کیا، آنکھیں بند کر کے نوخیز صاحب کو سامنے بٹھا کر ان سے ہونے والی ملاقات کو دہرایا، تو پھر مجھے اپنے بھولپن پہ بہت ہنسی آئی اور ان کے سمجھانے کے انداز پہ رشک۔

جب میں چھوٹا تھا اور بستی کے پرائمری سکول میں پڑھنے جایا کرتا تھا، صبح جب گھر سے سکول کے لیے نکلتا تو تختی قاعدہ اور ایک تھیلا یہ میرا سکول بیگ ہوا کرتا تھا۔ آج کے دور کی طرح ہمارے امی ابو کو عادت نہیں تھی کہ میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہمیں سکول چھوڑکے آتے، بلکہ اس دور کے اکثر بچوں کے والدین کو سکول کا بھی پتہ نہیں ہوا کرتا تھا یا یوں کہہ لیں کہ انھیں یہ بھی معلوم نہ ہوتا تھا کہ ان کے بچوں کے سکول میں کتنے استاد ہیں، ان کا بچہ کیا پڑھتا ہے، بات کسی اور طرف چل نکلی خیر۔۔۔۔ جی تو سکول کے سارے راستے میری  دعا ہوتی، یا اللہ آج حساب والے استاد صاحب کو کوئی کام پڑجائے اور وہ سکول نہ آئیں، یا ان کو بخار ہوجائے، اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا تو اللہ میاں آج ان کی سائیکل ہی پنچر ہوجائے، اس طرح کی خواہشات دل میں لیے سکول پہنچتا اور پھرسکول پہنچ کرمیری نظر سکول کے گیٹ نما لکڑی کے پھاٹک پہ جمی رہتی، کوشش ہوتی کہ اگر ریاضی والے ماسٹر صاحب سچ مچ آگئے میری دعا قبول نہ ہوئی تو میں بھاگ کر ان کی سائیکل پکڑوں گا اور چھپر کے نیچے بنی پارکنگ میں سٹینڈ پر لگاﺅں گا بھاگ کر سب سے پہلے ان کی سائیکل پکڑنے کی عادت نے مستقبل میں مجھے اچھا ایتھلیٹ بننے میں کافی مدد دی، میں ہمیشہ ان کی سائیکل پکڑتا چھپر کے نیچے کھڑی کرتا اور پھر سائیکل کے فریم ٹائیر پیڈلوں کو صاف بھی کرتا اور میری سوچ یہ ہوتی کہ ہو سکتا ہے میری اس فرمانبرداری کی وجہ سے ہی میں ان کے غضب سے بچ سکوں، لیکن میری تمام تر فرمانبرداریاں تمام دعائیں تمام کاوشیں رائگاں جاتیں جب وہ فرماتے، سب بچے ریاضی کی کاپیاں لے آﺅ، میرے ہونٹوں پہ پیپڑیاں جم جاتیں کیونکہ واحد حساب والے استاد صاحب تھے جن کے ہاتھوں میری چھترول ہونا لازم تھا، یہ میری حساب لگانے کی قابلیت کا بیان تھا اگر نوخیز صاحب کے چہرے کا حساب لگانے میں کہیں کوئی ضرب تقسیم جمع تفریق میں کمی کوتاہی ہوگئی ہو تو نوخیز صاحب نالائق شاگرد معافی نامہ ہمیشہ ہاتھ میں ہی رکھتے ہیں، میں بھی ایک نالائق شاگرد ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).