راز افشا کرنے کا موسم اور نواز شریف کی سیاسی تقدیر


نواز شریف نے نیب عدالت میں مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے جو بیان ریکارڈ کروایا ہے ، اس میں وزارت عظمی ٰ سے علیحدگی اور اپنے خلاف نیب ریفرنسز کو اپنے بعض سیاسی فیصلوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ اس بارے میں ملک کے ماہرین اور عوام میں اپنی اپنی سیاسی پسندکے مطابق یہ رائے قائم کی جائے گی کہ اس سے ملکی مفاد کو نقصان پہنچا ہے یا نواز شریف بدعنوانی کے الزامات سے جان چھڑانے کے لئے فوج اور عدالتوں کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ یہ بھی سمجھا جائے گا کہ اس سے ملک کی شہرت، فوج کی نیک نامی اور عدالتی نظام کی غیر جانبداری کو نقصان تو پہنچے گا لیکن اس کے ساتھ ہی ’قومی مفاد‘ کو بھی شدید دھچکہ لگے گا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس طرح دراصل نواز شریف خود اپنے لئے سیاسی مشکلات پیدا کررہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی انتخابی کامیابی کی راہ مسدود ہو رہی ہے۔

ممبئی حملوں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کے بارے میں نواز شریف کے بیان پر بعض تبصروں میں تو یہ دور کی کوڑی بھی لانے کی کوشش کی گئی ہے کہ نواز شریف نے انتخابات ہارنے کے لئے جان بوجھ کر اس قسم کے اینٹی اسٹبلشمنٹ بیان دینے شروع کئے ہیں تاکہ مسلم لیگ (ن) کسی طرح انتخابات میں کامیاب نہ ہو اور اس طرح منتخب اسمبلی میں مریم نواز کو اپوزیشن لیڈر کے طور پر سیاستدان بننے کا موقع فراہم ہو سکے۔ اس طرح کی قیاس آرائیوں سے قطع نظر اب آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹینٹ جنرل (ر) اسد درانی اور بھارتی ایجنسی ’را‘ کے سابق سربراہ اے ایس دولت کی ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے جس میں جنرل درانی نے کشمیر میں مداخلت، ایٹمی ہتھیاروں کی حکمت عملی، کارگل جنگ ، بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سمیت متعدد امور پر اظہار خیال کرتے ہوئے بعض ایسی باتیں کی ہیں جنہیں پاکستان میں مقدس قومی راز وں کی حیثیت حاصل رہ۔ی ہے اور جن کے بارے میں کسی سیاسی لیٖڈر کا اظہار خیال بڑی آسانی سے غداری اور ملک دشمنی کے زمرے میں آسکتا ہے۔ اس لئے راز فاش کرنے کے اس موسم میں یہ سمجھنا بھی ضروری ہو چکا ہے کہ کب کوئی قومی راز فاش کرنا قومی مفاد کا سبب بن سکتا ہے۔

ملک میں سیاسی باد نما کا رخ دیکھنے والے اگرچہ تیزی سے مسلم لیگ (ن) کا ساتھ چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف نام کی نئی سیاسی قوت میں شامل ہو کر ملک و قوم کی قسمت جاری رکھنے کا عزم ظاہر کررہے ہیں اور عام خیال ہے کہ اس ماہ کے آخر میں موجودہ حکومتوں کے بعد عبوری حکومتوں کے منظر عام پر آجانے کے بعد ملکی مفاد کے ایسے مزید متوالے مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کے بوجھ سے اپنی جان چھڑا کر یا تو آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے کو ترجیح دیں گے یا پھر تحریک انصاف کا حصہ بن کر وننگ کلب کے رکن بننے کی کوشش کریں گے۔ نواز شریف کی صاف گوئی یا درون خانہ باتیں کھل کر کہنے کی وجہ سے یہ سمجھا جارہا ہے کہ اب اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ان کی لڑائی شدید ہو چکی ہے جس میں مفاہمت کے امکانات نہیں ہیں۔ اسی لئے نواز شریف کے سیاسی امکانات کو بھی محدود یا معدوم سمجھا جا رہا ہے۔ بعض عناصر شہباز شریف کی صورت میں مصالحتی ایجنڈے سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید اس طرح مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں اپنی سیاسی قوت بچانے اور مرکز میں اتنے ارکان حاصل کرنے میں کامیابی ہو جائے کہ وہ پاور بروکر نہ بھی بن سکے تو اسے باعزت اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کا موقع مل جائے۔ پاور بروکر کا رول چونکہ آصف زرداری نے اپنے لئے مخصوص کروا لیا ہے، اور وہ پارٹی کیڈر کی خواہشات اور ماضی کے باوجود اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ایک تابعدار معاون کے طور پر کام کرنے کی یقین دہانی کروا رہے ہیں۔ اس لئے ’باخبر‘ حلقے اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کرتے کہ انتخابات کے بعد مرکز میں سینیٹ چئیرمین صادق سنجرانی جیسا کوئی غیر معروف سیاست دان وزارت عظمی کی کرسی پر براجمان ہو جائے۔ یہ اشارے بھی موجود ہیں کہ عمران خان اپنے سخت مزاج اور دوٹوک اور اٹل رویہ کی وجہ سے ملک کے بادشاہ گروں کے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔ اس لئے تحریک انصاف کے لئے اقتدار میں شراکت کے لئے سنجرانی فارمولا کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ اور انتخاب جیتنے والے تحریک انصاف کی حاضر جناب ٹیم میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو عمران خان کو یہ موقع غنیمت جانتے ہوئے قبول کرنے کا مشورہ دیں گے۔ تاہم اس سارے اندازوں میں بھی اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ایسے کسی فارمولے پر راضی ہو جائیں گے۔

البتہ آصف زرداری نے اگر خدمت گزاری کے عوض ملنے والی انتخابی کامیابی کو کافی نہ سمجھا اور انہیں یہ اندازہ ہؤا کہ ان کے ایثار اور تعاون کے باوجود ان کے ساتھ ’انصاف‘ نہیں ہؤا تو وہ ایک بار پھر شاطر سیاست دان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے آپشن پر بھی غور کرسکتے ہیں۔ اس طرح قیاس آرائیاں کرنے والوں، اسکرپٹ لکھنے والوں اور مستقبل کا منظر نامہ بنانے والوں کو ایک اچانک حیران کن صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ چئیرمین سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر  آصف زرداری نے نواز شریف کی واضح حمایت کے باوجود رضا ربانی کو امید وار نہ بنا کر جو قربانی دی تھی، انتخابات میں وہ اس کا اجر حاصل کرنا چاہیں گے۔ یہ صلہ نہ ملنے پر وہ اسٹبلشمنٹ سے دوستی کو ترک کرکے بہت سوں کو حیران کرسکتے ہیں۔ نہ جانے ملک کی اسٹبلشمنٹ نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے بھی کوئی بی یا سی پلان ترتیب دیا ہے یا نہیں۔

ایک ممکنہ صورت حال یہ بھی موجود ہے کہ یکم جون سے قائم ہونے والی عبوری حکومت اگر اسٹبلشمنٹ کے لئے قابل قبول ہوئی اور عالمی سطح پر اس کی کارکردگی اور موجودگی کو قبول کرلیا گیا تو یہ عبوری حکومت ہی کچھ عرصہ تک فوج کی رہنمائی میں ملکی معاملات چلاتی رہے۔ اس قسم کے انتظام کے لئے عدالتوں سے ’ آئین کی تشریح‘ کروائی جا سکتی ہے تاکہ چیف جسٹس ثاقب نثار یہ دیکھ سکیں کہ ایسے انتظام میں ملک کا آئین پامال نہیں ہوتا اور اس کے تقاضے پورے ہورہے ہیں۔ اس عدالتی روایت کے ہوتے کہ ملکی مفاد کے تحفظ اور طاقت کے بہاؤ کے سامنے عارضی بند باندھنے کی بجائے کوئی ’نظریہ ضرورت‘ ایجاد کر لیا جائے۔ اور ملک کی عدالت عظمی کے اس واضح رویہ کی موجودگی میں کہ مفاد عامہ دراصل آئین کی روح ہے اور اس کے لئے عدالتیں حکومت اور پارلیمنٹ کے فیصلوں کو مسترد کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں ہو نا چاہئے کہ اسٹبلشمنٹ اور عالمی طاقتوں کو قبول کوئی حکومتی انتظام کیوں کر آئین کے مطابق قرار نہیں دیا جا سکے گا۔ یہ معاملہ حکومت سازی میں براہ راست فوج کی مداخلت بھی نہیں ہو گا۔ عدالت کی مدد سے عبوری حکومت کا اندازہ پورا ہونے کی صورت میں ’عدالتی مارشل لا ‘ کی نوید دینے والوں کی پیشین گوئی بھی پوری ہوجائے گی اور اس دوران منہ زور سیاست دانوں کو رام کرنے کے اقدامات کا اہتمام بھی ہو سکے گا۔ اس کے لئے واشنگٹن، بیجنگ اور ریاض سے ایک ہلکے سے اشارے کی ضرورت ہو گی۔ اسی لئے یہ دیکھنا اہم ہو گا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کس خوش قسمت کو عبوری وزیر اعظم بنانے پر متفق ہوتے ہیں۔

تاہم اس سارے گیم پلان میں وہ تصویر واضح ہو رہی ہے  جسے سامنے لانے کے لئے نواز شریف نے نیب عدالت کو دئیے گئے بیان میں اپنی صلاحیتیں صرف کی ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ اس قسم کے رازوں کا ایک حلفی بیان میں ذکر کر کے نواز شریف نے اپنی سیاسی موت کے پروانے پر دستخط کئے ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی طے ہو چکی ہے کہ نواز شریف کو حق حکومت سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ عوام کا نہیں ہے۔ یہی نواز شریف کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اس ملک کی سیاست میں جو کھیل دہائیوں سے کھیلا جارہا ہے اور جس کے بہت سے براہ راست یا بالواسطہ طور سے گواہ بھی موجود رہے ہیں۔ لیکن قومی انتخابات سے قبل اس کھیل کے خفیہ ہاتھوں کو سامنے لانا ملک کی جمہوری ثقافت میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی شکست کے بعد دوست دشمن یکساں طور سے یہ کہنے اور ماننے پر مجبور ہوں گے کہ اس پارٹی کو انتخاب سے پہلے دھاندلی کے بعد ہاتھ پاؤں باندھ کر الیکشن لڑنے پر مجبور کیا گیا جو کسی طرح بھی غیر جانبدار اور آزاد انتخابات نہیں کہے جا سکتے۔ جب کسی ایک سیاسی قوت کو اسٹبلشمنٹ مسترد اور دوسری کی اعانت کرتی ہے تو انتخابی توازن کا پلڑا اسی وقت ڈگمگانا شروع ہو جاتا ہے۔ 80 اور 90 کی دہائی میں یہ تجربات ہو چکے ہیں۔

اس نوع سے منتخب ہونے والے انتخابات کے بعد جو بھی کامیابیاں حاصل کی جائیں لیکن جمہوری عمل میں فوج کی مداخلت مستقل طور سے موضوع بحث بنی رہے گی۔ اسی کے نتیجہ میں ملک میں اینٹی اسٹبلشمنٹ ووٹ مشتتعل بھی ہو گا اور مجتمع بھی ہوگا۔ یہ کہنا تو قبل از وقت ہے کہ نواز شریف اس ووٹ بنک کو اپنے سیاسی عزائم کے لئے استعمال کر سکتے ہیں لیکن کسی کو اس بارے میں شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ ایسا ووٹ موجود بھی ہے اور اس کی قوت میں بڑھتے ہوئے تعلیمی شعور اور سیاسی بازی گری کے اوچھے اظہار کے باعث اضافہ بھی ہوگا۔ اس اینٹی اسٹبلشمنٹ ووٹر نے 2007 میں عدلیہ بحالی تحریک میں اپنی موجودگی کا اعلان کیا تھا۔ دس برس بعد بھی اگر اس مزاج کو سمجھنے سے انکار کیا جاتا ہے تو اس بار جمہوریت نہیں۔ کچھ دوسری طاقتیں داؤ پر لگیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali