اپنی دعاؤں میں اپنا زوال


میں فرسٹ ایئر کر چکا تھا لیکن سیکنڈ ایئر کی فیس کے لیے پیسے نہیں تھے۔ میں کئی مہینوں سے گھر پر پڑا تھا۔ سبھی بہن بھائی ابھی اپنی پڑھائی کے اختتام پر تھے، اخراجات زیادہ تھے اور گھر کا سارا بوجھ صرف ابو جی کے کندھوں پر تھا۔

میں سارا سارا دن جگری یاروں وکی اور عامر کے ساتھ گھومتا رہتا تھا۔ رات کو دیر سے گھر آتا تا کہ ابو جی سے سامنا نہ ہو۔ ابو جی جب بھی دیکھتے، کہتے کوئی کام وام کر لو، کبھی سختی سے کہتے اور کبھی نرمی سے۔ کبھی کسی کے لڑکے کی کامیابی کی مثال دیتے، کبھی کسی کے بیٹے کی اور کبھی کسی انڈے بیچنے والے لڑکے کے ایم اے کرنے کے قصے شروع ہو جاتے۔
یہ باتیں سن سن کر میں دل ہی دل میں کڑتا رہتا تھا۔ حالات کے ہاتھوں ناکام اور مایوسی کے مارے لوگوں کو ویسے ہی کامیاب لوگوں کی کہانیاں سر پر ہتھوڑے بن کر لگتی ہیں۔ ایک دو مرتبہ میں نے دبے دبے لفظوں سے امی جی سے بھی کہا کہ مجھے خدارا کسی کے بچے کی کامیابی کے طعنے نہ دیا کریں۔ ابو جی کے سامنے جواب دینے کی جرات نہیں تھی لیکن میں دل ہی دل میں یہ ضرور کہتا کہ اب انڈے بیچ کر پڑھائی نہیں ہو سکتی وہ آپ کا زمانہ ہوگا، اب نہیں رہا۔

میں ٹائم گزاری کے لیے ساری ساری را‍ت ناول پڑتا رہتا، کھیتوں میں بیٹھ کر یادوں کی بارات، راجہ گدھ، عشق کا عین، شہاب نامہ، علی پور کا ایلی، پطرس بخاری، کرنل محمد خان اور شیفق الرحمان کو پڑھتا رہتا اور باقی سارا دن یاروں کے ساتھ آوارہ گردی۔ مجھے یقین ہو چکا تھا کہ میری قسمت میں نوشہرہ ورکاں کی گلیاں لکھی جا چکی ہیں اور شاید یہی کہیں کوئی کام وام کرنا ہے۔

انہی دنوں جنگ اخبار پر کے آر ایل ( قدیر ریسرچ لیبارٹریز) کی طرف سے اپرینٹس شپ کے لیے اشتہار آیا۔ میں نے اپلائی کر دیا اور انہوں نے انٹری ٹیسٹ کے لیے لاہور کے آراء بازار بلا لیا۔

میں انٹری ٹیسٹ دے کر آیا تو مجھے اپنے مایوس اور تاریک مستقبل میں ایک روشنی کی کرن نظر آئی، مجھے ایسا لگا کہ مجھے زندگی کا راستہ مل گیا ہو اور اب میرے تاریک دن بس ختم ہونے والے ہیں۔ مجھے ایک مرتبہ پھر گاؤں خوبصورت لگنے لگا اور اس کے رہنے والے بھی۔ ابو جی کو بھی میں نے کہا کہ انشااللہ سلیکٹ ہو جاؤں گا۔

انٹری ٹیسٹ کا رزلٹ کوئی دو ماہ بعد آنا تھا لیکن میرے لیے یہ دو ماہ دو سال سے بھی طویل تھے۔ میں نے پانچ وقت مسجد جانا شروع کر دیا اور ہر روز صبح تین بجے مصلے پر اٹھ کر کھڑا ہو جاتا۔ میں اللہ سے روتے ہوئے کہتا کہ یا اللہ یہ میری زندگی اور موت کا سوال ہے اور پلیز میری دعا قبول کر لیجیے، مجھے نوکری مل جائے تو مجھے اور کچھ نہیں چاہیے، فقط ایک نوکری کا سوال ہے، یا اللہ تو میری دعا سن لے۔

دو ماہ گزر گئے لیکن رزلٹ نہیں آیا لیکن میری کوئی تہجد بھی نہیں چھوٹی۔ ابو جی بھی گاہے بگاہے پوچھتے رہتے۔ بے چینی دن بدن بڑھتی جا رہی تھی۔ ایک دن میں نے دوست سے پیسے لے کر خود ہی فون کر ڈالا۔ مجھے نہیں پتہ دوسری طرف کون تھا لیکن اس نے بتایا کہ میرا نام لسٹ میں نہیں ہے۔ میں ہوں، ہاں کرتا رہا لیکن حقیقت میں میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا چکا تھا۔

اس کے بعد میری سوچیں مزید پیچیدہ ہو گئیں۔ میں مزید مایوسی کا شکار ہوا اور تہجد اور دعا سب بیکار کی باتیں لگنے لگیں۔ ان دنوں مایوسی اور اللہ سے شکوے اپنے عروج پر تھے، میں اگر اور کاش ایسے فقروں میں پھنس کر رہ چکا تھا جبکہ ابو کا سامنا کرنے کی بھی اب ہمت نہیں تھی۔ اس سے پہلے پہلے عشق کی ناکامی پر بھی کیفیت ایسی ہی تھی۔ اس وقت بھی میں ایسے ہی شکوے گلے کرتا، ایسی ہی آہ و زاریاں تھیں کہ اے خدا کوئی بڑا مطالبہ تو نہیں کیا، فقط ایک شخص ہی تو مانگا ہے۔

یہ وہ دن تھے، جس وقت مجھے سماج سے بے حد نفرت ہو چکی تھی، مولوی اور ایلیٹ، سماجی انصاف اور حقوق سبھی بیکار کی باتیں لگتی تھیں۔ اب پلٹ کر دیکھوں تو یہ شاید میری زندگی کا مشکل ترین مرحلہ تھا۔ اس کے چند ماہ بعد ہی مجھے آئی سی آئی کے پولیسٹر فائبر پلانٹ پر اپرینٹس شپ مل گئی۔ اسی اپرینٹس شپ کے دوران ہی میں نے سمپل ایف اے کیا اور جرمنی کے ایک کالج میں اپلائی کر دیا۔ اپلائی کرنے کے ایک سال بعد میں جرمنی پہنچ چکا تھا اور اب میں جب بھی میں اس واقعے کے بارے میں سوچتا ہوں تو ایک دم یہ لفظ نکلتے ہیں۔ یا خدا تیرا شکر ہے کہ مجھے وہاں نوکری نہیں ملی تھی، ورنہ میں اب تک 30 ہزار روپے کی نوکری کر رہا ہوتا، یا اللہ تیرا شکر ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی تھی۔

اب میں سوچتا ہوں کہ بعض اوقات ہم خود ہی اپنی دعاؤں میں اپنا زوال مانگ رہے ہوتے ہیں اور ہمیں اس بات کا علم بھی نہیں ہوتا۔ اس واقعے کے بعد میں نے دو چیزیں ضرور سیکھیں۔

ایک یہ کہ کوشش ضرور کرو لیکن رزلٹ جیسا بھی ہو، اس کے ساتھ مطمئن رہو۔ یہی بات ہماری خوشیوں کی ضامن ہے۔

دوسری یہ کہ ’اگر اور کاش‘ جیسے لفظ کبھی بھی سکون نہیں دے سکتے اور لازمی نہیں کہ جسے ہم صحیح سمجھ رہے ہیں وہ چیز واقعی ہمارے لیے صحیح ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).