سمندر پار کے صحرائی جزیرے


میں نے ہاؤس جاب چھوڑدی اور لائبریری میں بیٹھ گیا۔ اب مجھے کچھ نہیں کرنا تھا۔ نہ ہاؤس جاب نہ پاکستان میں رہنا تھا اور نہ شادی کرنی تھی۔ امریکہ کا امتحان میرے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ وہ میں نے پاس کیا اور امریکہ چلا گیا۔ میرے گھروالوں کا خیال تھا کہ میں سال دو سال کے بعد واپس آکر ان کی مرضی سے شادی کرلوں گا مگر میں نے ایسا نہیں سوچا تھا میری زندگی سے ناہید نکل ضرور گئی تھی مگر کوئی دوسرا میری زندگی میں نہیں تھا۔

کئی سال گزر گئے، مجھے پتہ ہی نہیں چل سکا کہ وہ کہاں ہے، میں اس کے بارے میں اچھا ہی سوچتا تھا۔ سوچتا تھا کہ اس نے سارے امریکن امتحان پاس کرلیے ہوں گے۔ اسے فزیشن بننے کا شوق تھا وہ فزیشن بن گئی ہوگی۔ خوبصورت سے بچے ہوں گے اس کے۔ نادر کے ساتھ خوش ہوگی وہ۔ اور کیا سوچ سکتا تھا میں اس کے بارے میں۔

سات سال گزر گئے۔ میں نے اپنے آپ کو اپنے کام میں مصروف کرلیا تھا، صبح و شام زندگی گزر رہی تھی۔ یونیورسٹی کے ساتھ کام کرنے میں یہ ہوتا ہے کہ آپ جتنا بھی چاہیں، اپنے آپ کو اتنا ہی مصروف رکھ سکتے ہیں۔

شکاگو کی کانفرنس میں میری ملاقات شازیہ سے ہوگئی تھی سالوں کے بعد۔ وہ ہمارے ہی گروپ میں تھی، وہ بھی فزیشن تھی اور اس کا شوہر سرجن تھا۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ کانفرنس میں آئی تھی اور میرے لیکچر کے بعد سیدھی مجھ سے ملنے چلی آئی تھی۔ ہم دونوں ریسٹورنٹ میں جا کر بیٹھ گئے۔ سالوں کے بعد جب ملاقات ہوتی ہے تو دنیا بھر کی بات ہوتی ہے۔ بہت سی باتیں ہوئیں اس نے بتایا کہ ناہید کنساس میں رہتی ہے اپنے شوہر کے ساتھ۔ چار بچے ہیں اس کے اور اس نے کوئی امتحان نہیں دیا ہے صرف گھر اور شوہر کی رہ کر ہوگئی ہے۔ اس کی آواز میں ہلکا سا درد محسوس کرلیا تھا میں نے، کچھ تھا جو وہ مجھے نہیں بتا رہی تھی۔

”وہ تو بہت ذہین تھی شازیہ ایسا کیسے ہوگیا۔ وہ تو سب کچھ کرسکتی تھی۔ کیوں نہیں کیا اس نے۔ ‘‘ میں نے پوچھا۔

”کیوں نہیں کرسکتی تھی۔ ضرور کرتی۔ اگر شوہر نے چاہا ہوتا۔ مگر نادر کا تو کھیل ہی کچھ اور تھا۔ یہ سب بات بتانا مت کسی کو۔ اس کا صرف مجھ سے رابطہ ہے اور یہ سب کچھ مجھے پتہ ہے صرف مجھے پتہ ہے تمیں صرف اس لئے بتارہی ہوں کہ ہم تم وہ سب دوست تھے بہت معصوم سا رشتہ تھا ہمارا اور وہ رشتہ ابھی تک ہے۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی تھی۔

”بتاؤ مجھے اس کے بارے میں۔ میرے دل میں ابھی بھی صرف اس کے لئے ہی درد اٹھتا ہے۔ کئی لڑکیوں سے ملاقات ہوئی ہے امریکن اور پاکستانی لیکن وہ آئیں آکر چلی گئیں میں ناہید کو تلاش کرتا رہا ان میں۔ کہاں ملتی مجھے، ناہید تو ایک ہی ایک ہی بنائی گئی تھی۔ ‘‘

اصل بات تو مجھے پتہ نہیں ہے وہ کچھ بتاتی بھی نہیں ہے یہ مجھے ضرور پتہ ہے کہ اس نے پڑھا نہیں۔ امریکن امتحان میں بیٹھی تک نہں۔ ہاں تین بچوں کی ماں ضرور بن گئی ہے اور شاید اس نے اپنی زندگی انہی کے لئے وقف کردی ہے۔ فون پر دنیا جہاں کی باتیں کرتی ہے مگر اپنے بارے میں اپنے شوہر کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتی۔ شازیہ نے بات کرتے ہوئے ناہید کو فون کیا۔

ناہید نے ہی فون اٹھایا۔ میں نے بھی بات کی تھی۔

کیسی ہو ناہید، میں نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ تم سے اس طرح سے بات ہوجائے گی میں بول رہا ہوں خرم، پہچان لیا۔ میں نے بڑے جوش و خروش سے کہا۔

کیوں نہیں پہچانوں گی۔ ٹھیک تو ہو۔ اس نے آہستہ آہستہ رک رک کر کہا تھا اس کی آواز کی قدرتی شوخ کہیں کھو گئی تھی۔ اس نے کوئی زیادہ بات نہیں کی۔ ہوں ہاں میں جواب دیتی رہی۔ میرا دل جیسے ٹوٹ کر بکھر گیا تھا۔ یہ اس کی آواز تھی، اسی کی آواز تھی مگر یہ وہ نہیں تھی۔ وہی تھی مگر وہ نہیں تھی۔

میں نے شازیہ سے فون نمبر لے لیا۔ شازیہ نے کہا تھا کہ اگر بہت ضروری ہوتو فون کرنا اور صبح کو کرنا۔ اس کے شوہر کو اس کا فون پر بات کرنا پسند نہیں ہے اور وہ بھی کسی مرد سے۔ اسے تو میرے بھی فون پر اعتراض ہے۔

تم اس سے کبھی ملی ہو، میں نے سوال کیا۔

ہاں ملی ہوں پچھلے سال ”اینا‘‘ کے جلسے میں۔ اس کا شوہر مذہبی آدمی ہے۔ چھوٹی سی داڑھی کے ساتھ۔ میں نے اسے نماز کے وقت نماز کے لئے دوڑ کر جاتے ہوئے دیکھا، بات بھی ہوئی ناہید کے سامنے مگر مجھے لگا جیسے اس کے اندر کوئی اور بھی چھپا ہوا ہے۔ کچھ عجیب قسم کی بے سکونی سی ہوئی اس سے بات کرنے میں۔ مجھے مصنوعی سا لگا تھا وہ۔ شازیہ نے جواب دیا۔

ناہید سے بات ہوئی تھی۔ وہ کیسی ہے، میں نے سوال کیا۔

کافی وقت گزرا اس کے ساتھ۔ وہ بالکل بدل گئی ہے، اسکارف پہنتی ہے اس میں جو غضب کا اعتماد تھا۔ وہ ریزہ ریزہ ہوگیا ہے وہ کالج میں پروفیسروں سے بھڑ جاتی تھی اچھے خاصے لمبے چوڑے لڑکے اس سے گھبراتے تھے اور اب تو مجھے لگا جیسے اسے اپنے اوپر کوئی اعتماد نہیں ہے۔ ایسا کیسے ہوگیا میری سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے لڑکیاں دیکھی ہیں جو شادی کے بعد شوہر کے دباؤ میں سب کچھ کرتی ہیں مگر وہ لڑکیاں ناہید نہیں ہوتی ہیں۔ انہوں نے تو صرف شوہر کے ہی خواب دیکھے ہوتے ہیں انہوں نے اپنے بارے میں نہیں سوچا ہوتا ہے وہ بیوی، دوست، ساتھی نہیں ہوتی ہیں خادمائیں ہوتی ہیں شوہر کو مجازی خدا سمجھنے والی۔ ناہید تو ایسی نہیں تھی اس نے تفصیل سے بتایا۔

مجھے یاد تھا کالج میں اس سے گرما گرم بحث ہوئی تھی۔ عورتوں کے حقوق کے بارے میں، سماج میں ان کی حیثیت سے متعلق، عورتوں کو باندی سمجھنے والوں کے خلاف اس کے خیالات سے میں آگاہ تھا۔ کاروکاری اور عورتوں کی مالکانہ حیثیت سے وہ نفرت کرتی تھی وہی ناہید ڈاکٹر بننے کے بعد امریکہ جیسے ملک میں باندی بن گئی۔ مجھے دکھ ہوا اور میں سوچتا رہا کاش میرے گھر والے راضی ہوجاتے کاش میں اسے بغاوت پر آمادہ کرلیتا۔ کاش!

باقی افسانہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4