سمندر پار کے صحرائی جزیرے


شازیہ کے واپس آنے کے دوسرے دن ہی حالات میں زبردست اور یکایک تبدیلی ہوگئی، میں نے سوچا نہیں تھا کہ اس طرح سے صورتِ حال بدل جائے گی۔

شازیہ اس کے گھر کے قریب واقع میریٹ ہوٹل میں ٹھہری تھی، ناہید اس سے وہیں آکر ملی۔ چار پانچ گھنٹے میں ناہید نے اپنی زندگی اس کے سامنے کھول کر رکھ دی مگر وہ اُس زندگی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے لئے تیار نہیں تھی۔ اس نے اسے اپنی قسمت سمجھ کر قبول کرلیا تھا اور اس کا خیال تھا کہ کسی بھی قسم کی تبدیلی لانے کی کوشش بہت تباہی لائے گی، میں نے حالات سے سمجھوتہ نہیں کیا ہے بلکہ اسی حالات میں زندگی گذارنے کی عادت ڈالی ہے۔ ناہید نے شازیہ سے کہا تھا۔

”مگر ناہید یہ مار پیٹ، گالی گفتار تمہارے بچے کیسے بڑے ہوں گے کیا کریں گے بڑے ہوکر، شازیہ نے اس سے پوچھا تھا۔ یہ کوئی صحتمند حالات تو نہیں ہیں ایسے کیسے رہوگی تم۔ ‘‘

رہ لوں گی، سب رہتے ہیں پاکستان میں بھی تو رہتے ہیں نہ مجھے ہی صبر کرنا ہوگا، ہر بات ماننی ہوگی۔ کوئی سوال نہیں کرنا ہوگا پھر اب تو مار کی عادی ہوگئی ہوں ناہید نے کہا تھا لاکھوں لوگوں کے خواب پورے نہیں ہوتے ہیں ایک میں بھی سہی۔

شازیہ نے یہی بتایا تھا مجھے فون پر اس کے جانے کے بعد، شام کے جہاز سے شازیہ واپس آگئی تھی۔ پیچھے جو ہوا۔ اس کا پتہ ہم لوگوں کو دو دن کے بعد لگا جب میں اور شازیہ ہنگامی طور پر کنساس پہنچے۔ ہوا یہ تھا کہ اس دن ناہید اپنے تینوں بچوں کو اسلامک سینٹر کے مسجد کے امام کے گھر ان کی بیوی کے پاس چھوڑ کر آئی جس کے شوہر کو نادر اس کی جاسوسی کے لئے کہہ کر گیا تھا۔ امام صاحب نے اپنے بیٹے کے ساتھ ناہید کا پیچھا کیا اور دیکھا کہ وہ تن تنہا میریٹ ہوٹل گئی جہاں سے چھ گھنٹے بعد واپس آئی تھی۔ ہوٹل میں چار گھنٹے گزرنے کے ساتھ ہی انہوں نے نادر کو فون پر یہ خبر دی کہ بچے ان کے گھر پہ ہیں اور ناہید کئی گھنٹوں سے ہوٹل کے اندر ہے۔

نادر کے لیے یہ بڑی ہولناک خبر تھی۔ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فوری طور پر جہاز پکڑ کر واپس آیا اور رات دس بجے غیر متوقع طور پر گھر پہنچ گیا تھا۔ ناہید کے حیرت کے اظہار پر اس نے اس وقت ناہید کی پٹائی شروع کردی تھی، طرح طرح کے الزامات لگائے، خرافات بکے، گالیاں دیں، ”عیاشی کرتی ہے حرامزادی۔ یہ صلہ دیا ہے میرے احسانوں کا کہہ کر نہ جانے کیا مارا تھا کہ ناہید کا چہرہ خونم خون ہو گیا تھا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ناہید کے 9 سالہ بیٹے نے باورچی خانے سے 911 پہ فون کردیا اور پولیس پہنچ گئی تھی۔ ناہید کو سر اور منہ پر ٹانکے لگانے کے لئے ہسپتال لے جانا پڑا تھا۔ نادر کو پولیس اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ مگر اچھا یہ ہوا کہ واپس آنے کے بعد ناہید نے جہنم سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اس نے شازیہ کو فون کرکے بتایا تھا۔ میں اور شازیہ دوسرے دن ہی پہنچ گئے تھے۔

میرے سوال کا جواب مجھے اس دن نہیں دیا تھا اس نے کیونکہ اس دن وہ جہنم سے نکلنے کا فیصلہ کرچکی تھی۔ میں نے شہر کے مشہور یہودی وکیل سے بات کی جس نے عدالت سے ابتدائی فیصلہ کرایا تھا کہ اس کا شوہر اُس گھر میں نہیں رہ سکتا ہے۔ پولیس کی زیرنگرانی وہ اپنا کچھ سامان لے کر گیا تھا۔ عدالت کے حکم کے ہی مطابق اسے ناہید کو گھر اور بچوں کے لئے پیسے دینے تھے اور اسے ہفتے میں دو دن سوشل ورکر کے سامنے آکر بچوں سے ملنے کی اجازت ملی تھی۔ میں نے 20 ہزار ڈالر ناہید کے اکاؤنٹ میں جمع کرائے تھے تاکہ وہ یہ نہ محسوس کرے کہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ناہید کے دونوں بھائی جو دوسرے شہروں میں تھے وہ بھی آئے مگر انہوں نے ناہید پر زور دیا تھا کہ وہ نادر سے صلح کرلے، کراچی میں اس کے گھروالوں کا بھی یہی خیال تھا مگر میڈیکل کالج والی ناہید واپس زندگی ہوگئی تھی اس نے وہی کیا جس کا فیصلہ وہ کرچکی تھی۔

چھ مہینے کے اندر طلاق کی تمام شرائط طے ہوگئیں اور ناہید بچوں کولے کر کنساس سے فلوریڈا شازیہ کے گھر کے پاس آگئی جو میرے شہر سے بھی صرف دو گھنٹے کے فاصلے پر تھا۔ وہیں ایک مکان میں رہ کر ناہید نے ڈیڑھ سال کے اندر امریکن امتحان پاس کرلیے اور ہم سب کی مدد سے اسے سائیکٹری میں ریزیڈنسی بھی مل گئی جو وہ ہمیشہ کرنا چاہتی تھی۔ اس کا سارا اعتماد، وقار، خوبصورتی واپس آگئی تھی، وہ وہی ناہید تھی جو کراچی میں ہمارے ساتھ ہوتی تھی۔

ایک دن میں نے دوبارہ اس سے اپنا سوال کرلیا تھا کہ کیوں آخر کیوں پڑھی لکھی ہوکر وہ گھونسے لاتیں، تھپڑ کھاتی رہی آخر ڈاکٹر کیوں بنی تھی وہ اگر اس نے یہی سب کچھ کرنا تھا۔

بات یہ ہے کہ شادی کے شروع کے دنوں میں ہی اور پھر اس کے بعد یکے دیگرے میں حمل سے ہوتی چلی گئی کیونکہ نادر کی یہی خواہش تھی۔ اسے بچوں کا شوق تھا۔ پھر اس نے پہلے سال ہی پتہ نہیں کیا کیا یکے بعد دیگرے میرے دونوں چھوٹے بھائیوں کو امریکہ بلوالیا اور ان کی پڑھائی کی ذمہ داری لے لی تھی۔ انہیں دنوں میرے ابو بیمار پڑے تو ایک خطیر رقم ان کے علاج کے لئے اس نے پاکستان بھیج دی۔ یہ سارے احسان تھے ایک کے بعد ایک ایک طریقہ تھا مجھے اس بات پہ راضی کرنے کا کہ مجھے پڑھنے کی اور خودمختار ہونے کی کیا ضرورت ہے اور اس جال میں میں پھنستی چلی گئی تھی۔ میں نے سب کچھ برداشت کیا زبردستی برقعہ، پردہ، مارپیٹ، پہلی شادی کا دھوکہ، جاسوسی، سب کچھ محض اس لئے کہ اس کے احسانات تھے میرے بھائیوں پہ، میرے باپ پہ، میرے خاندان پہ اور شاید میں یہ قیمت دیتی ہی رہتی اگر اس دن میرے بیٹے نے 911 کو فون نہیں کیا ہوتا۔ اس دن میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ شازیہ صحیح کہتی ہے مجھے جہنم سے نکلنا ہوگا۔ تم اب سمجھ گئے ہوگئے‘‘ میری بات اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔

میرے کچھ کہنے سے قبل بڑی اداسی سی اس کے چہرے پر آگئی اور وہ بولی کہ اس کے دونوں بھائی ابھی تک اس کے خلاف ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ میں نے خاندان کی عزت امریکہ میں بیچ دی ہے۔ شکر ہے میں امریکہ میں ہوں پاکستان میں نہیں وہاں تو شاید یہ مجھے زندہ ہی جلا دیتے۔ اس کے چہرے پہ اداسی گہری ہوتی چلی گئی تھی۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4