جو درد سسکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلا ہے!


ننھا مبارک خوشی خوشی اپنے گھر کی گلی میں تیز تیز قدموں سے بازار کی جانب دوڑا جا رہا تھا۔ اس کی امی نے اسے بازار سے بیسن لانے کا کہا تھا۔ بیسن سے پکوڑے بننے تھے جو مبارک کو بہت پسند تھے۔ اور اسی پسند کی وجہ سے وہ ہر سال رمضان کا انتظار کیا کرتا تھا کیونکہ رمضان کے مہینے میں گھر میں ہر روز پکوڑے بنتے تھے۔

ماہ رمضان اگلے دن سے شروع ہو رہا تھا اور مبارک پرجوش تھا کیونکہ اس مرتبہ اس کی امی نے اسے ماہ رمضان کا پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔ مبارک کی عمر ابھی صرف چھ برس تھی۔

گلی کے کسی گھر میں کسی نے اونچی آواز میں ملی نغمہ لگایا ہوا تھا۔ بھاگتے ہوئے مبارک کے کانوں میں ملی نغمے کے بول گونج رہے تھے۔ تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے اس پہ دل قربان اس پہ جان بھی قربان ہے۔ مبارک کو ملی نغمے بہت پسند تھے۔

ہر سال جب چودہ اگست آتی تھی تو ہر طرف ملی نغموں کی بہار آ جاتی تھی۔ مبارک ملی نغمے سن کر ان میں اپنی آواز ملایا کرتا اور جھوما پھرتا تھا۔ چودہ اگست والے دن ان کے گھر خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔ گھر کو سبز ہلالی جھنڈیوں سے بھر دیا جاتا تھا اور چھت پر پانی کی ٹینکی سے اونچے سے بانس پر اس کے ابو پاکستان کا قومی پرچم لگایا کرتے تھے۔ مبارک کے کپڑوں پر جھنڈے کا بیج لازمی ہوتا تھا اور اس دن سب گھر والے آزادی کا جشن منایا کرتے تھے۔

دوپہر کا وقت تھا اور گلی سنسان تھی۔ مبارک جیسے ہی گلی سے نکل کر بازار جانے والے راستے کی طرف مڑا اس کو ایک ٹھوکر لگی اور وہ منہ کہ بل زمین پر آ رہا۔ یوں اچانک گرنے سے اسے گھٹنوں اور ٹھوڑی پر چوٹ آئی۔ اس اچانک صدمے سے گھبرا کر اس نے رونا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی اس کے کانوں میں ہنسنے کی آواز آئی۔ اس نے اپنی آنکھوں میں آ جانے والے آنسو صاف کرتے ہوئے دیکھا تو محلے کے پندرہ سولہ سال کی عمر کے تین لڑکے اس کے سامنے کھڑے ہنس رہے تھے۔ انہی میں سے ایک نے بھاگتے ہوئے مبارک کے پیروں میں پیر اڑا کر اسے گرایا تھا۔ مبارک انہیں دیکھ کر خوف زدہ ہو گیا۔ یہ لڑکے اکثر اسے اکیلا پا کر گھیر لیتے تھے۔ اورکبھی کبھار اسے ایک آدھا چانٹا بھی لگا دیتے تھے۔ وہ ہمیشہ اس سے ایک بات کہا کرتے تھے۔ آج بھی ان میں سے ایک نے حقارت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے وہی جملہ انتہائی نفرت زدہ لہجے میں کہا:

”اوئے کتے۔ بولو کہ تم کتے ہو۔ “
مبارک کے گلے میں جیسے نمکین گولا سا پھنس گیا۔ وہ اپنی ہمت جمع کر کے زمین سے اٹھ کھڑا ہوا اور بولا:
”نہیں میں کتا نہیں ہوں۔ “

مبارک کو یاد تھا کہ جب پہلی مرتبہ ان لوگوں نے اسے کتا کہا تو اس نے گھر واپس جا کر اپنے ابو سے پوچھا تھا کہ کیا وہ کتا ہے؟ اس کے ابو اس کی بات سن کر چونک گئے تھے۔ انہوں نے اس سے نہایت پیار سے دریافت کیا کہ یہ لفظ اس نے کہاں سے سنا۔ مبارک نے بتا دیا کہ اسے ساتھ کی گلی والے امجد نے کتا کہا تھا۔ اس کے ابو نے اسے پیار کیا اور اسے بتایا کہ وہ بالکل بھی کتا نہیں ہے بلکہ وہ تو انسان ہے۔

اس رات اس نے اپنے امی اور ابو کو رات دیر تک صحن میں بیٹھ کر پریشانی کے عالم میں باتیں کرتے دیکھا تھا۔ اس کا ننھا سا ذہن ان باتوں کو سمجھنے سے قاصر تھا چناچہ وہ اپنے ٹیڈی بیئر کو بتانے لگا کہ اسے امجد نے کتا کہا تھا۔ مبارک کے تخیل نے ٹیڈی بیئر کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ وہ کتا نہیں ہے۔

اس کی یادوں کا سلسلہ اس وقت ٹوٹ گیا جب ان میں سے ایک لڑکے نے اسے بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔
”تم کتے ہو۔ تمہیں بولنا پڑے گا کہ تم کتے ہو۔ “
”میں کتا نہیں ہوں۔ “ مبارک نے پھر وہی بات دوہرائی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ لڑکے کیوں اس کو کتا کہتے ہیں۔

”تم کتے ہو۔ تمہارا باپ بھی کتا ہے۔ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ وہ کافر ہے۔ وہ ہماری مسجد میں بھی نہیں آتا۔ ہم تم سب کو مار دیں گے۔ تم سب کتے ہو۔ تم کہو کہ تم کتے ہو۔ “
مبارک نے نفی میں سر ہلایا۔ ”نہیں میں کتا نہیں ہوں۔ “

جس لڑکے نے اسے بازو سے پکڑا ہوا تھا اس نے اسے زور سے دھکا دیا۔ ننھا مبارک بے چارہ زور سے دیوار سے جا ٹکرایا۔ اس کا سر پورے زور میں دیوار سے لگا اور پھٹ گیا۔ خون ابل ابل کر اس کے سر سے نکلنے لگا۔

خون دیکھ کر لڑکوں کے رنگ زرد پڑ گئے۔ انہوں نے فوری طور پر ادھر ادھر دیکھا۔ راستہ سنسان تھا اور دور دور تک کوئی انہیں دیکھنے والا نہیں تھا۔ وہ وہاں سے بھاگ نکلے۔

مبارک بے چارہ پہلے ہی دھان پان سا تھا۔ اس چوٹ کو سہار نہ سکا اور چکرا کر زمین پر گر گیا۔ اس کے سر سے خون بہ بہ کر گلی میں پھیل رہا تھا۔ اور وہ خون تھا بھی کتنا۔ چھ سال کے بچے کے جسم میں تھوڑا سا ہی تو خون ہوتا ہے۔

جب آدھ گھنٹے تک مبارک کی گھر واپسی نہ ہوئی تو اس کی امی کو فکر ہوئی۔ وہ فوری طور پر گھر سے نکلیں تاکہ مبارک کا پتہ کر سکیں۔ جوں ہی وہ گلی کے نکڑ پر پہنچیں ان کی نظر زمین پر گرے ہوئے مبارک پر پڑی۔ ان کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ وہ پھولے ہوئے ہاتھ پیروں کے ساتھ مبارک تک پہنچیں۔ وہ بے ہوش تھا اور اس کا رنگ زرد پڑ چکا تھا۔ خون اس کے آس پاس پھیلا ہوا تھا۔ انہوں نے مبارک کو زور سے جھنجھوڑ ڈالا۔ اس کو آوازیں دی۔

مبارک ایک ذرا سا کسمسایا اور اس کی آنکھیں کھلیں۔ اس کی نظر اپنی امی پر پڑی۔ اس کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے خوشی چمکی۔ اس نے اپنے جسم کی بچی کھچی طاقت لگا کر کچھ کہنا چاہا مگر اس کے منہ سے آواز نہ نکل سکی۔ اس نے پھر زور لگایا۔ اس کی امی اس پر جھکیں اور ان کے کانوں سے مبارک کی ٹوٹتی ہوئی آواز ٹکرائی۔

”امی میں کتا نہیں ہوں۔ “ یہ اس کے آخری الفاظ تھے اور پھر اس کی آنکھیں پتھرا گئیں۔
گلی میں اب بھی وہی ملی نغمہ گونج رہا تھا ”تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہےاس پہ دل قربان اس پہ جان بھی قربان ہے۔ “

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad