ایک مدبر اور اجلا لیڈر میاں نواز شریف


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"

پچھلے الیکشن میں ڈیڑھ کروڑ ووٹ لینے کے بعد اب اس بات میں تو ہرگز بھی کوئی شبہ باقی نہیں رہا ہے کہ اس وقت میاں نواز شریف ملک کے مقبول ترین اور محبوب ترین سیاست دان ہیں۔ اور یہ بات بھی ہم جانتے ہیں کہ جہاں سو سجن ہوتے ہیں وہاں دو دشمن بھی ہوتے ہیں جو کہ حسد اور جلن کی وجہ سے کسی بھی کامیاب شخص کے خلاف ہو جاتے ہیں۔

میاں صاحب آبائی رئیس ہیں۔ ان کے اجداد کی دولت کی کہانیاں عام ہیں۔ روایت ہے کہ ادھر امرتسر میں ان کے گھر کے باہر ہاتھی جھولتے تھے۔ ارد گرد کے رئیسوں کے یہ ہاتھِی ان کا گھر سے نکلنا ہی مشکل بنائے ہوئے تھے اور میونسپلٹی میں بارہا شکایت کرنے کے باوجود یہ سلسلہ ہجرت تک جاری رہا۔ ہجرت کے بعد یہ خاندان لاہور میں رہائش پذیر ہوا۔ یہاں میاں شریف صاحب نے محنت مزدور کرنا شروع کی اور بالآخر لوہا کوٹتے کوٹتے یہ مزدور ایک دن اپنی بھٹی کا مالک بن گیا۔

پھر عروج کا یہ سفر شروع ہوا تو جلد ہی یہ لوہے کی دنیا کا اتنا بڑا نام بن گیا کہ بھٹو کی سوشلسٹ حکومت نے اقتدار میں دیگر بائیس امیر خاندانوں کے ساتھ ساتھ میاں \"12961631_810659775731268_5019852994645432028_n\"صاحب کی بھٹی بھی نیشنلائز کر لی۔ خاک سے سفر شروع کر کے عروج پر پہنچنے والا یہ خاندان دوبارہ خاک نشین ہوا مگر مایوس نہیں ہوا اور دوبارہ نئے سرے سے محنت کرنے لگا۔ اسی اثنا میں ان نیک لوگوں کی آہ بھٹو کو لگی۔ ایک نیک شخص جنرل غازی ضیا الحق شہید ایک فرشتے کی مانند نمودار ہوا اور بھٹو کی جابر و ظالم حکومت ختم کر کے اس کو جیل میں ڈال دیا۔

شریف خاندان کی خوش قسمتی تھی کہ جنرل ضیا ایک مردم شناس شخص تھے اور ان کی یہی مردم شناسی تھی جس کے باعث جنرل جیلانی ان کے دائیں ہاتھ بن گئے تھے۔ جنرل جیلانی کی نظر عنایت میاں نواز شریف پر پڑی تو وہ ان سے بہت متاثر ہوئے۔

انہوں نے جنرل ضیا الحق سے ذکر کیا کہ یہ شخص ایسے خاندان سے تعلق رکھتا ہے جو کہ لوہے کو بھی ہاتھ لگائے تو وہ سونا بن جاتا ہے۔ جنرل ضیا نے غور کیا تو \"Lt._General(retd)_Ghulam_Jilani_Khan\"ان کے دل کو بات لگی اور انہوں نے شریف خاندان کو اس کے اثاثے واپس کر دیے، اور پنجاب کے صوبے کو دگرگوں مالی حالات سے نکالنے کے لیے انہوں نے میاں نواز شریف سے درخواست کی کہ اتفاق فونڈری کے علاوہ وہ پنجاب کے مالی معاملات کو بھی سنبھال لیں۔ میاں صاحب نے پنجاب کے مالی معاملات کے علاوہ وزیراعظم محمد خان جونیجو کو بھی سنبھال لیا اور جلد ہی وہ اس واحد سیاست دان کی حیثیت سے ابھرے جو کہ بے نظیر بھٹو کے مقابل کھڑا ہو سکتا تھا۔

ملک میں الیکشن ہوئے اور بے نظیر بھٹو کی حکومت آ گئی۔ میاں صاحب نے انہیں سمجھایا کہ دیکھیں، آئین کی رو سے مرکز کو صرف اسلام آباد کا علاقہ دیا گیا ہے اور پنجاب کا علاقہ میاں صاحب کی جماعت کی حکمرانی میں ہے۔ افہام و تفہیم کا تقاضا یہی ہے کہ مرکز اور صوبے ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت نہ کریں اور بے نظیر بھٹو پنجاب میں نہ آئیں اور میاں نواز شریف اسلام آباد میں نہیں جائیں گے۔ مگر بے نظیر بھٹو تو جارحانہ موڈ میں تھیں اور پنجاب کے چکر لگاتی رہتی تھیں۔ میاں صاحب نے انہیں کچھ نہیں کہا، بلکہ جب بھی محترمہ پنجاب آتی تھیں
تو میاں صاحب کہیں اور چلے جاتے تھے کہ محاذ آرائی نہ ہو۔

یہ ایک مشکل کام تھا مگر اس نیک شخص کی الیکشن اور سیاست میں غیب سے مسلسل مدد ہوتی رہی اور بالآخر بے شمار لوگوں کی دعاؤں کے نتیجے میں صدر غلام اسحاق خان کے دل میں خدا نے نیکی ڈالی اور انہوں نے مرحوم صدر ضیا الحق کی جانب سے آئین میں ڈالی گئی شق اٹھاون دو بی کے ذریعے بے نظیر بھٹو کو برطرف کر دیا۔ دور اندیش جنرل غازی ضیا الحق شہید کی مستقبل پر نگاہ رکھنے کی صلاحیت کے باعث بنائی جانے والی یہ \"hqdefault\"اٹھاون دو بی طاقت کے نشے میں چور بدمست وزیراعظموں پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم کرنے کے لیے ایک نہایت مفید آئینی شق ثابت ہوئی۔ بے نظیر بھٹو کی بجائے میاں
نواز شریف ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔

لیکن اس قابل شخص کی صلاحیتیں بے شمار تھیں۔ ایک طرف تو اس دوران ان کی بھرپور توجہ سیاست کی طرف مرکوز رہی، اور دوسری طرف کاروبار بھی نظرانداز نہیں ہوا۔ ان کی بے مثال کاروباری صلاحیتوں کی وجہ سے جہاں ملک کا کوئی دوسرا قابل سے قابل کاروباری شخص بھی اپنے اثاثوں میں محض پانچ دس فیصد کا اضافہ کر پایا، وہاں شریف خاندان کا کاروبار سو پچاس گنا زیادہ  بڑھ گیا۔

اسی اثنا میں صدر غلام اسحاق خان کو ان کی بے مثال عوامی مقبولیت سے اتنا خطرہ ہوا کہ انہیں ہٹانے کی کوششیں کرنے
لگے اور بالآخر ان کو ایک جمہوریت دشمن جابر آمر جنرل ضیا الحق کی طرف سے آئین میں ڈالی گئی ایک جمہوریت کش شق \"ns-bb\"اٹھاون دو بی کا شکار کر کے گھر بھیج دیا گیا۔ لیکن میاں صاحب نے ہمت نہ ہاری اور عدالت عظمی سے ان کے حق میں فیصلہ ہوا اور وہ دوبارہ اپنی کرسی سنبھالنے لگے تھے کہ جنرل وحید کاکڑ صاحب نے انہیں قائل کر لیا کہ اس وقت ان کے ملک کے مقابلے میں ان کے کاروبار کو ان کی توجہ کی زیادہ ضرورت ہے۔ بات معقول تھی اس لیے میاں صاحب نے ملک میں دوبارہ الیکشن کروانے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ دوسری طرف ان کی آہ صدر اسحاق خان کو لگی اور وہ غیبی طاقتوں کے اشارے پر گھر بھیج دیے
گئے اور ملک میں بے نظیر بھٹو کی حکومت آ گئی۔

انہوں نے ساز باز کر کے پنجاب میں چند سیٹیں رکھنے والے میاں منظور وٹو کو وزیراعلی بنا دیا تاکہ وہ میاں نواز شریف کو ستاتے رہیں۔ میاں صاحب چپ چاپ یہ \"MTA3MTEAMjcA6INNBqIdfbp\"سارے ظلم سہتے رہے اور ایک اف نہ کی۔

 لیکن دکھی دل کی آہ تو سب کو لگتی ہے، سو بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ان کے منہ بولے بھائی فاروق لغاری کے ہاتھوں ہی آئین کی ایک انتہائی مفید شق اٹھاون دو بی کے ذریعے برطرف ہونا پڑا اور میاں صاحب اس بار دو تہائی اکثریت کا بھاری مینڈیٹ لے کر وزیراعظم بن گئے۔

ملک کے حالات بگڑتے گئے اور میاں صاحب کا کاروبار کئی گنا مزید پھیلتا گیا۔ میاں صاحب نے سنجیدگی سے اس امر پر غور کیا کہ ملک اتنی ترقی کیوں نہیں کر رہا ہے جتنی کہ ان کا کاروبار کر رہا ہے۔ ایک دانشمند انسان کسی مسئلے پر توجہ مرکوز کر لے تو حل نکل ہی آتا ہے۔ ان پر بھی یہ راز عیاں ہوا کہ ان کا کاروبار اس لیے ترقی کر رہا ہے کہ وہ اپنی بے مثال قیادت کے ذریعے کسی کو جوابدہ ہوئے بغیر اسے چلاتے ہیں، جبکہ ملک چلانے کے لیے کبھی ان کو پارلیمان کو جواب دینا پڑتا ہے، کبھِی عدلیہ کو تو کبھی فوج کو۔ سو انہوں نے اپنی ذات کو نظرانداز کرتے ہوئے ملک کی بہتری کے لیے ایک مطلق العنان امیر المومنین بننے کا فیصلہ کیا تاکہ \"nawaz-sharif-with-turban-457x600\"ملک کو بھی اسی انداز میں چلا سکیں جیسے کہ وہ اپنے ذاتی کاروبار کو چلاتے ہیں۔

اس پر ملکی ترقی کے دشمنوں نے ان کے خلاف اتنا شدید پروپیگنڈا کیا کہ ان کو اپنا ارادہ ترک کرنا پڑا۔ دوسری طرف مشرف نامی ایک طالع آزما جنرل نے کارگل پر جنگ چھیڑ دی تھی اور میاں صاحب کو خبر بھی نہیں تھی کہ جنگ چل رہی ہے۔ جب ان کو پتہ چلا تو انہوں نے امریکی صدر کلنٹن کو حکم دے کر جنگ بند کروائی اور یہ سوچنا شروع کیا کہ مستقبل میں ایسی جنگیں روکنے کا کیا طریقہ ہے۔

ان کو یہی خیال آیا کہ اگر کسی بٹ صاحب کو فوج کا سربراہ بنا دیا جائے تو لڑائی نہیں ہو گی۔ میاں صاحب کا سسرال بٹ ہے، سو ان کو خوب معلوم تھا کہ بٹ امن پسند لوگ ہوتے ہیں اور کھانے پینے کے علاوہ کسی شے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ خود میاں صاحب کا جو بھی سسرالی عزیز بڑے سے بڑے ملکی عہدے پر لگا تھا، اس نے حب و جاہ کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور بس کھانے پینے پر اپنی مکمل توجہ مرکوز رکھی۔ کم از کم لاہور اور گوجرانوالے وغیرہ کے کشمیری بٹ تو اس معاملے میں مشہور ہیں کہ اگر ایک طرف سری پائے کی دیگ پڑی ہو اور دوسری طرف سونے کی دیگ، تو وہ سری پایوں کی دیگ کی طرف ہی ہاتھ بڑھائیں گے اور روپے پیسے کی پروا نہیں کریں گے۔

یہی سوچ کر میاں صاحب نے ایک بٹ صاحب کو فوج کا سربراہ بنانے کا فیصلہ کیا کہ وہ کھانے پینے پر زور دیں گے تو فوج کے عام جوان کا میس بھی بہتر ہو گا اور ایسے ایسے پہلوان ابھریں گے جن کو دیکھ کر دشمن خوف کھائے گا۔ بعید نہیں ہے کہ انہوں نے فوج میں بٹ بٹالین بنانے کا فیصلہ بھی کر لیا ہو جو ہمارے ازلی دشمن \"nawazسے ہماری مقبوضہ زمینوں کا ویسے ہی قبضہ واپس حاصل کر لیتی جیسا کہ لاہور میں اس کا قبضے کرنے کا ٹریک ریکارڈ رہا ہے۔ بہرحال جس وقت ملک کے لیے انتہائی مفید فیصلہ کیا گیا کہ بٹ صاحب کو فوج کا سربراہ بنا کر جنرل مشرف کو برطرف کر دیا جائے، اس وقت جنرل مشرف کا جہاز ہوا میں تھا۔ اب جہاز میں جنرل مشرف تھے، زمین پر نواز شریف تھے، اور ان کے ساتھ ہی ٹرپل ون بریگیڈ تھا۔ اس لیے وہی ہوا جو ہوتا ہے، اور میاں صاحب پر جہاز اغوا کرنے کا مقدمہ بن گیا۔

 

اس مقدمے میں انہیں پھانسی ہو جاتی مگر برادر اسلامی ملک سعودی عرب نے عین وقت پر مداخلت کر کے جنرل مشرف کو راضی کر لیا کہ وہ میاں صاحب کو اپنے پاس لے جا کر رکھے گا اور میاں صاحب دس سال تک سیاست نہیں کریں گے۔ میاں صاحب کو ان دونوں پارٹیوں کے اس باہمی معاہدے کی خبر بھی نہیں تھی۔ جب بہت سال بعد ایک دن مقرن شہزادے نے ہوا میں ایک کاغذ لہرا کر پاکستانی قوم کو بتایا کہ یہ جلاوطنی کا وہ معاہدہ ہے جس پر میاں صاحب کے دستخط ہیں، تو میاں صاحب کو پہلی بار علم ہوا کہ جس کاغذ پر انہوں نے کھانے کا بل سمجھ کر دستخط کیے تھے، وہ اصل میں جلاوطنی کا معاہدہ تھا۔ یہ جنرل مشرف کی سازش تھی کہ انہوں نے یہ معاہدہ اردو، پنجابی یا انگریزی کی بجائے مقرنی عربی میں لکھوایا تھا اور میاں صاحب عربی سے لاعلمی کی وجہ سے بے خبری میں دھوکہ کھا گئے۔ انہیں دو درجن سوٹ کیسوں کے ساتھ سعودی عرب جلاوطن کر دیا گیا۔

اس سے انہوں نے سبق سیکھا کہ دنیا و عاقبت میں کامیاب ہونے کے لیے عربی سیکھنا کتنا ضروری ہے اور انہوں نے اگلے آٹھ نو سال دل لگا کر عربی سیکھی۔ اسی دوران ان دو درجن سوٹ کیسوں سے کپڑے لتے نکال نکال کر انہوں نے بازار میں بیچے۔ روایت ہے کہ اگلے پانچ برس جدے کے شرفا میں جو بھی شادی ہوتی تھی،
اس کی بری میاں صاحب کے کسی سوٹ کیس سے ہی بنتی تھی۔ عرب ویسے بھی روپے پیسے کے معاملے میں دماغ سے فارغ ہوتے ہیں، جبھی تو ایک ایک بکرا کئی لاکھ کا اور ایک ایک اونٹ کئی کروڑ روپے کا خریدتے ہیں، سو میاں صاحب نے ان سے خوب پیسے کمائے۔ جب چار پیسے اکٹھے ہو گئے تو انہی دو درجن سوٹ کیسوں کے کیل اور بکل وغیرہ کا لوہا نکال کر انہوں نے ایک بار پھر وہیں جدے میں فونڈری لگا دی۔ اس میں پاکستانی فونڈریوں سے بھی زیادہ برکت پڑی۔ میاں صاحب اب دنیا سے بے زار ہو چکے تھے۔ انہوں نے اپنی ساری دولت اپنے بچوں کو دی اور کہا کہ دنیا بھر میں جہاں مرضی جا کر کاروبار وغیرہ شروع کر دو۔ پاکستان میں آمر جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی، سو ناچار بچے لندن چلے گئے۔ وہاں کمپنی رجسٹریشن مشکل تھی کیونکہ وہ وزٹ ویزے پر گئے ہوئے تھے جس پر لندن میں کام نہیں کیا جا سکتا ہے، اس لیے پاناما میں کمپنی کھول کر اس کے نام پر کام شروع کیا گیا جس میں خدا نے بہت برکت ڈالی اور اب وہ ادھر برطانیہ کے بہت بڑے کاروباری شمار ہوتے ہیں۔

\"nawaz_sharif_fly_zpsf11f904a\"

دوسری طرف وطن عزیز میں لوگوں کو احساس ہو چلا تھا کہ کیسا ہیرا انہوں نے کھو دیا ہے۔ چنانچہ جنرل مشرف کے خلاف شدید عوامی تحریک چلی اور ان کو الیکشن کروانا پڑ گئے۔ الیکشن مہم میں میاں صاحب کی بہن بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا اور میاں صاحب نے بے غرضی کا ثبوت دیتے ہوئے آصف علی زرداری سے چند وعدے لے کر ان کو حکومت دے دی اور خود رائے ونڈ میں گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے لگے۔ آصف زرداری صاحب نے میاں صاحب سے کیے گئے وعدوں کا پاس نہ کیا تو میاں صاحب نے تنگ آ کر اور عوام کی محبت سے گھائل ہو کر گوشہ نشینی سے نکلنے کا فیصلہ کیا اور اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے آگے ایک جائز قانونی اور اخلاقی دھرنا دینے نکل کھڑے ہوئے۔ ابھی وہ گوجرانوالے تک ہی پہنچے تھے کہ زرداری صاحب کو احساس ہوا کہ اس لانگ مارچ میں کتنے بٹ موجود ہیں۔ زرداری نے ہتھیار ڈال دیے اور چیف جسٹس افتخار چودھری کو بحال کر دیا۔ میاں صاحب نے گوجرانوالے میں ڈٹ کر ناشتہ کیا اور واپس لاہور آ گئے۔

\"360_nawaz_sharif_1206\"چند دن بعد دوبارہ الیکشن ہوئے تو میاں صاحب پہلے کے مقابلے میں دگنے ووٹ لے کر جیت گئے اور اپنا جائز حق واپس حاصل کر لیا۔ اسی دوران عمران خان نامی ایک ناسمجھ کھلاڑی ان کو بدنام کرنے لگا۔ میاں صاحب صبر شکر سے سب الزامات برداشت کرتے رہے۔ لیکن پھر قضا و قدر کی غیبی طاقتیں حرکت میں آئیں اور اسے بھی میاں صاحب کی آہ لگی اور اس کی شادی ہو گئی۔ اب وہ پچھتاتا پھرتا رہا مگر اسے سبق حاصل نہیں ہوا۔

پاناما نامی کسی غیر معروف سے ملک سے کسی قسم کے ردی کاغذ سامنے آنے پر میاں صاحب کے سب مخالف اکٹھے ہو گئے ہیں کہ ان کمپنیوں میں میاں صاحب کے بچوں کا نام کیوں ہے، اور ان کے پاس پیسے کہاں سے آئے۔ کیا وہ واقعی نہیں جانتے کہ یہ پیسے جدے کے جائز اور قانونی کاروبار سے آئے ہیں جسے اب لپیٹ کر براستہ پاناما، لندن منتقل کیا جا چکا ہے؟ بہرحال، میاں صاحب نے اپنی ذات پر لگنے والے الزامات کو ایک بار پھر نظرانداز کر دیا ہے اور ایک قومی لیڈر کی طرح یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایک ایک مریض کو پکڑ کر اس کا علاج کرنے کی بجائے پورے ملک سے کرپشن کی وبا کو ہی ختم کر دیا جائے۔

\"dharna2\"انہوں نے ملک و قوم کے بہترین مفاد میں سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ وہ روز اول سے ملک کو لوٹنے والے تمام سیاستدانوں، تاجروں، افسروں اور کھلاڑیوں وغیرہ کے اثاثوں کی تحقیق کرے، ان کی غیر ملکی جائیدادوں اور کاروباروں کا سراغ لگائے، اور کرپشن کے پودے کو جڑ سے ہی اکھاڑ دے۔ کمیشن کو اتنا بااختیار بنایا ہے کہ وہ کسی سے کوئی بھی دستاویز مانگ سکتا ہے، کسی بھی عمارت میں داخل ہو سکتا ہے، کسی بھی بینک سے کسی کے بارے میں بھی پوچھ سکتا ہے، اور پاکستان میں رہائش پذیر پاکستانیوں کے علاوہ سمندر پار رہائش پذیر ان پاکستانیوں کے بارے میں بھی مکمل چھان بین کر سکے گا جن کے کسی عزیز کا نام پاناما لیکس سے جڑا ہوا پایا گیا ہے۔ کمیشن کی کوئی مدت نہیں ہے، اور اسے اتنا بااختیار بنایا گیا ہے کہ وہ اپنی مدت کا خود ہی تعین کرے گا۔ میاں صاحب نے خود کو اپنے خاندان اور باقی تمام پاکستانیوں سمیت اس کمیشن کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ یہ جرات وہی کر سکتا ہے جس کا دامن صاف ہو۔

اب سب کرپٹ لوگ منہ چھپاتے پھرتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ میاں صاحب اس کمیشن سے اپنی باری آنے پر بے داغ نکلیں گے، اور کرپٹ مخالف پکڑے جائیں گے۔ بس چند سال کی بات ہے، پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ خدا کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments