ہمارے سماج کے ڈی این اے میں بنیادی خرابی ہے


سیالکوٹ میں احمدیوں کی سو سالہ پرانی عبادت گاہ کو مسمار کرنے کا واقعہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہمارا سماج نفرت اور شدت پسندی کے خمیر سے پور پور گندھا ہوا ہے۔ احمدی برادری کے لوگ جس قدر ظلم اور ناانصافی کی فضا میں سانس لیتے ہیں اس کو دیکھ کر ہندوستان میں دلتوں اور شودروں کے ساتھ ہوتی ناانصافی اور جبر بھی کم دکھائیی دیتا ہے۔ ایک سو سالہ پرانی عبادت گاہ کو محض اس بات ہر مسمار کرنا کہ شہری انتظامیہ سے اس عمارت کی رینوویشن کا این او سی نہیں لیا گیا تھا انتہائی بھونڈا اور ناقابل قبول عذر دکھائی دیتا ہے۔ اس عذر کے جواب میں جماعت احمدیہ نے شہری انتظامیہ کی جانب سے این او سی بھی پیش کیا ہے جس میں عمارت کی رینویشن کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے اسے جدید بنیادوں پر تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اگر ایک لمحے کے لئے شہری اور ضلعی انتظامیہ کی یہ بات تسلیم کر لی جائیے کہ عمارت کی جدید بنیادوں پر رینیویشن کا این او سی حاصل نہیں کیا گیا تھا تو پھر بھی شدت پسند ہجوم اور بلوائییوں کے ہاتھوں اس عبادت گاہ کے مسمار کئے جانے کے عمل کو نہ تو درست قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی تاویل گھڑی جا سکتی ہے۔

ہمارے ہاں اکثر مساجد غیر پلاٹوں ہرغیر قانونی قبضے کر کے تعمیر کی جاتی ہیں جبکہ بیشتر مساجد پاس کروائے گئے تعمیراتی نقشے کے برعکس نہ صرف بلند و بالا مینار کھڑے کر دیتی ہیں بلکہ ایک منزلہ عمارت کے پاس کردہ نقشے پر تین تین منزلہ عمارتیں تعمیر کر دی جاتی ہیں۔ کیا کبھی ان مساجد کو مسمار کرنے کے لئے کوئی بھی شہری یا ضلعی انتظامیہ قدم اٹھا سکتی ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ صرف اور صرف احمدی برادری سے نفرت اور تعصب کی بنا پر اس قسم کے اقدامات کئے جاتے ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ معاشرے میں ایسے اقدامات کو قبولیت کی سند بھی مل جاتی ہے۔ بڑے بڑے پڑھے لکھے افراد ایسے عمل کی حوصلہ افزای کرتے پائے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں سیاسی جماعتیں یا منتخب حکومتیں عوامی ردعمل کے خوف سے احمدیوں کے ساتھ روا زیادتیوں پر لب کشائی کرنے یا اقدامات سے گریز کرتی ہیں۔ دین کے نام کو استعمال کرنے والے عقائد کے سوداگروں کے ہاتھوں کروڑوں اندھی اطاعت اور تقلید کے شکار نمائشی عقیدت مند کچھ ایسے یرغمال ہوئے ہیں کہ بڑی سے بڑی دلیل اور سچ بھی ان کی آنکھوں سے تعصب کی پٹی نہیں اتار سکتے۔ شاید اس سماج کے ڈی این اے میں کوئی مسئلہ ہے اسی لئے یہ سماج پرتشدد رویوں جلاؤ گھیراؤ اور شدت پسندی کی ہر قسم کو مذہبی غلاف چڑھا کر اپنے اندر کی گھٹن مایوسی اور دنیا سے پیچھے رہ جانے کے دکھ کو فراموش کرنے کی خاطر کمزور اقلیتوں اور برادریوں پر ظلم ڈھا کر اپنا کتھارسس کرتا ہے۔

مذہب وہ کارڈ ہے جو ہمیشہ سے ہمارے وطن میں دفاعی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کو فائدہ دیتا چلا آیا ہے۔ اس کارڈ کو بنیاد بنا کر عوام کو ایک ایسی فرسودہ تہذیب اور جمود میں قید رکھا گیا ہے جہاں مذہبی اور قومی نرگسیت اپنے اوج پر ہے۔ سوچ سمجھ سے نابلد اس مرض کی شکار زیادہ تر آبادی بھیڑ بکریوں کی مانند عقائد کے سوداگروں کی مذہبی لاٹھی کے ذریعے نفرت اور شدت پسندی کے راستوں پر باآسانی ہانکی جاتی ہے۔ انسان اپنی مرضی سے نہ تو کسی احمدی ، مسیحی یا ہندو گھرانے میں پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کا عقیدہ کسی دوسرے عقیدے کے لئے خطرے کا باعث ہوتا ہے۔ بالخصوص ہمارے ملک میں جہاں 96 فیصد آبادی مسلمان ہے وہاں ایک فیصد احمدی بھلا مذہب کے لئے کیا خطرہ بن سکتے ہیں؟ جس بے رحمانہ انداز میں احمدی برادری کا استحصال کیا جاتا ہے انہیں دبایا جاتا ہے اس کا نقصان محض احمدی برادری کو نہیں ہوتا بلکہ اس کے باعث شدت پسندی کی ایک فضا پیدا ہوتی ہے اور اس فضا کا شکار خود ہمارے اپنے بچے ہوتے ہیں۔ اپنے بچوں کو مذہب اور عقیدے کے نام پر دوسرے انسانوں سے نفرت سکھا کر ہم انہیں خود شدت پسندی اور جہالت کی راہ پر گامزن کر دیتے ہیں اور پھر مولوی خادم حسین رضوی جیسے افراد بآسانی انہیں عقائد کے دھندے میں اپنے فوائد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ چند دہائیوں قبل ہندوستان میں شدت پسند ہندوؤں نے بابری مسجد کو مسمار کیا تھا تو ہمارے وطن میں مظاہروں اور آہ و بکا کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا اس واقعہ کو بنیاد بنا کر ہم آج تک ہندوستان کو ایک شدت پسند معاشرہ اور ملک قرار دیتے ہیں۔ جبکہ سیالکوٹ میں احمدیوں کی عبادت گاہ کو مسمار کرنا ہم عین عبادت سمجھتے ہیں۔ یہ منافقانہ سماجی رویے ہمارے فکری اور علمی قحط الرجال کا سبب ہیں اور ہم بدقسمتی سے ان رویوں سے جان چھڑوانے کے بجائیے آنکھیں موند کر ہالوسینیشن کی کیفیت میں اپنی خود ساختہ تخیلاتی دنیا میں جینے کو حقیقت سمجھتے ہیں۔

دانشور اور صحافی جو رائے عامہ بنانے اور سماجی تبدیلیاں برپا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، بدقسمتی سے اپنے عقیدے کے تعصب یا محض سستی شہرت کی غرض سے کبھی عوام کو مذہبی اور عقائد کے سوداگروں کے تسلط سے نجات دلانے کی کوشش نہیں کرتے۔ الٹا اپنی تحریروں میں احمدی برادری کے خلاف نفرت اور تعصب کا اظہار کر کے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ پالیسی سازوں کو ایک یا دو فیصد احمدی آبادی سے ویسے ہی کوئی سروکار نہیں اس لئے احمدی برادری ان کے نزدیک وہ بھیڑ بکریاں ہیں جنہیں سیاسی فواِید یا پھر سٹریٹیجک اثاثوں کے ہاتھوں کولیٹرج ڈیمیج تصور کر کے اپنے اپنے فوائد اور مقاصد کے حصول کی جانب پیش قدمی کی جاتی ہے۔ ایسے حالات میں احمدی برادری کا اس سماج میں محض جان بچا کر زندگی کی سانسیں پوری کرنا بھی کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ سیالکوٹ میں احمدی عبادت گاہ کے بجائے اگر کسی دوسرے مسلک کی عبادت گاہ کو مسمار کیا جاتا تو ابھی تک وطن عزیز کے طول و عرض میں جلاو گھیراو کا سلسلہ شروع ہو چکا ہوتا اور شاید انتظامیہ کے دو تین سرکاری اہلکار بلوائیوں کے ہاتھوں جاں بحق بھی ہو گئے ہوتے۔ چونکہ احمدی برادری اقلیت میں ہے اور سماجی استحصال کا شکار ہے اس لئے خادم حسین رضوی کی مانند بلوائیوں کے بل پر وہ ریاست کو یرغمال نہیں بنا سکتی ہے۔ اسی کارن اس برادری کو چپ رہ کر ظلم و ستم برداشت کرنا ہے اور سماجی استحصال کو اپنی قسمت سمجھ کر سانسوں کے سلسلے کو ہی زندگی جان کر وقت پورا کرنا ہے۔

 یہ دراصل ایک اقلیتی برادری کا اجتماعی قتل ہے اور ہمارا سماج اس اجتماعی قتل کا ذمہ دار ہے۔ روہنگیا، فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کے حق میں گلے پھاڑ کر نعرے لگانے والا یہ سماج خود احمدی برادری کو ان سے بھی بڑھ کر ظلم و ستم کا نشانہ بناتا ہے اور کمال ڈھٹائی سے اسے اپنا حق اور فرض تصور کرتا ہے۔ لگتا ہے کہ اس سماج کے ڈی این اے میں کوئی بنیادی خرابی ہے اور اسے ایک سرجری کی ازحد ضرورت ہے تا کہ نفرت اور شدت پسندی کے عناصر اس سماج کے ڈی این اے سے نکالے جا سکیں اور اسے امن محبت اور رواداری کا مفہوم سمجھایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).