بچوں میں ڈس لیکسیا (Dyslexia) کا مرض کیا ہے اور اس کا علاج کیسے کریں؟


جب میں نے کہانی کی آخری سطر پڑھ کر کتاب بند کی اور 11 سالہ حمید کی آنکھوں میں جھانکا تو اس کی شفاف، سیاہ اور روشن آنکھوں میں خوشیوں کے کئی رنگ جھلک رہے تھے۔ دو سال قبل امریکہ عراق جنگ کی ہولناکیوں کو جھیل کر امریکہ آنے والے حمید کی آنکھوں میں علمی ترقی کے خواب دیکھنے کا ہنر پوری آب و تاب سے زندہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اسکول کے تدریسی اوقات میں دو بار میریے پاس بھیجا جاتا ہے۔ میں امریکہ کے مڈل اسکول میں بطور ”بائی لنگول‘ ‘ (Bi-lingual) استاد کام کرتی ہوں۔ حمید کی مادری زبان عربی ہے اور انگریزی واجبی ہے۔ میں اس کو اپنی تمام تر دیانت سے علم آشنا کرانا چاہتی ہوں لیکن حمید اور اسکی کتابوں کے بیچ ایک بہت بڑی رکاوٹ حائل ہے جس سے وہ روز لڑتا ہے۔ کبھی ہار کبھی جیت لیکن وہ مایوس نہیں ہوا۔ اس رکاوٹ کا نام ہے Dyslexia، ہوسکتا ہے کہ شعبہ تدریس سے متعلق کچھ لوگوں کیلئے یہ اصطلاح نئی نہ ہو لیکن بالعموم اس سے عوام واقف نہیں ہیں اور میں ضروری سمجھتی ہوں کہ اس کیفیت کی تھوڑی بہت تفصیلات کا احاطہ کروں کہ جس سے ہمارے درمیان بہت سے بچے اور بڑے ہمہ وقت نبردآزما ہیں۔ ان افراد کو ہماری مدد کی ضرورت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آگہی کی کوششیں ان افراد خصوصاً بچوں کو علمی محاذ پر کامیابی میسر کرنے والی ثابت ہوں اور یقین کیجئے کہ یہ عین ممکن ہے۔

ڈس لیکسیا (Dyslexia) کیا ہے؟ انٹرنیشنل ڈس لیکسیا ایسوسی ایشن کی ایک جامع تعریف کے مطابق یہ اعصاب سے متعلق ایک ایسی ذہنی موروثی بے قاعدگی ہے کہ جو زبان سیکھنے کی استعداد کو متاثر کرتی ہے۔ اسکی شدت کے درجے ہوتے ہیں اور یہ زبان پڑھنے اور اظہار میں دشواری کی صورت ظاہر ہوتی ہے جس میں حروف کی صوتی ادائیگی کا عمل، ان کا پڑھنا لکھنا، ہجے کرنا، خط اور کبھی کبھار حساب کی استعداد بھی متاثر ہوتی ہے۔ ڈس لیکسیا آگے بڑھنے کے جذبے کی کمی، عقل کی خرابی اور ماحولیاتی مواقع کی کمی کا مظہر نہیں بلکہ ان تمام حالات کے ساتھ بھی پائی جاسکتی ہے۔ ڈس لیکسیا ایک دائمی کیفیت ہے لیکن ایسے افراد عموماً ہر وقت ملنے والے مناسب اقدامات پر مثبت ردعمل کی صورت مظاہرہ کرتے ہیں۔

انٹرنیشنل ڈس لیکسیا ایسوسی ایشن Wikipedia انسائیکلوپیڈیا 1994ء کے مطابق ”یہ ذہنی عمل کی وہ خرابی ہے کہ جس کا سبب حیاتی کیمیائی جینیاتی مارکرز (نشانات) ہوتے ہیں۔ اسکی وجہ سے پڑھنے لکھنے کی صلاحیت اور ذہانت کے درمیان ایک واضح خلا پیدا ہوجاتا ہے“۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے والدین اور اساتذہ یہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ بظاہر ذہین بچہ پڑھنے سے اتنا جی کیوں چراتا ہے اور عموماً یہ کہتے ہوئے ڈانٹتے ہیں ”آخر ہر بات میں تو تمہاری عقل کام کرتی ہے تو پڑھتے اور لکھتے وقت یہ کہاں چلی جاتی ہے؟“

ڈس لیکسیا یونانی زبان کے دو الفاظ کا ملاپ ہے۔ ڈس (Dys) یعنی دقت یا دشواری اور لیکسیا (Lexia) یعنی لکھے لفظ، گویا یہ پڑھنے میں دشواری کی کیفیت کا نام ہے۔ اس لفظ کو متعارف کرانے کا سہرا 1884ء میں ایک جرمن امراض چشم کے معالج آر برلن کو جاتا ہے۔ ہوا یوں کہ 1877ءمیں جرمن نیورولوجسٹ ایڈولف کیسمنول کے پاس ایک ایسا بچہ آیا جو بظاہر بالکل نارمل تھا، اس کو دیکھنے میں کوئی دشواری نہ تھی، کوئی دماغی چوٹ بھی نہیں تھی مگر پھر بھی وہ حروف کو پڑھنے میں دشواری سے گزر رہا تھا۔ اس نے اس بچے کی اس کیفیت کو ورڈ بلائنڈنس (Word Blindnes) (لفظوں کا اندھا پن) کا نام دیا۔ بعدازاں اس خرابی کو ڈس لیکسیا کے نام سے موسوم کیا گیا۔

ایک اندازے کے مطابق تقریباً پانچ سے دس فیصد افراد اس کیفیت سے گزرتے ہیں جو دائمی ہے۔ گو ایسے افراد عموماً ذہین ہوتے ہیں اور ان کا آئی کیو اسکور (I Q Score) (ذہانت کے مروج ٹیسٹ کا نتیجہ) عموماً سو سے زیادہ ہوتا ہے لیکن انکی عقل کا علمی سود مند استعمال صحیح طور پر نہ پڑھنے کی وجہ سے نہیں ہو پاتا کیونکہ علم حاصل کرنے کیلئے پڑھنا پہلی شرط ہے۔ اپریل 2004ء کی امریکی رپورٹ کے مطابق لڑکوں میں لڑکیوں کے مقابلے میں اسکا تناسب دوگنا ہوتا ہے۔ اگر ماں باپ کو ڈس لیکسیا ہے تو اولادوں میں اس کے ہونے کے امکانات 4 سے 13 فیصد بڑھ جاتے ہیں۔ گویا یہ بنیادی طور پر موروثی ہے۔ مارچ 2005ءمیں چھپنے والی ایک خبر کے مطابق اس جین کا پتہ لگا لیا گیا ہے کہ جو ڈس لیکسیا کا باعث بنتی ہے۔ اس کی دریافت کا سہرا ویلیز کالج آف میڈیسن کی ٹیم کے سر ہے، جین کا نام KIAA0319 ہے۔ 1979ء میں ہارورڈ میڈیکل اسکول کے البرٹ گیلابرڈا نے ڈس لیکسیا دماغ کا مشاہدہ کیا تو پتہ چلا کہ دماغ کے زبان سیکھنے کے مرکز میں خرابی پائی جاتی ہے جس کو ایکٹوپیاز (Ectopias) اور مائیکروگاریا کا نام دیا گیا ہے۔ یہ دماغ کے حصے کورٹیکس کو متاثر کرتے ہیں جس کے باعث دیکھنے اور آواز کے عمل سے گزرنے میں خرابی پیدا ہوتی ہے اور جو دراصل پڑھنے کے عمل میں حائل ہوتی ہے۔ جدید ترین تکنیک FMRI کی تصویر کے مطابق بھی ڈس لیکسیا ذہن میں پروسیسنگ کا عمل نارمل لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3