رابن آئی لینڈ میں نیلسن مینڈیلا کی آمد


جنوبی افریقا کے راہنما نیلسن منڈیلا نے1990ء میں رہائی حاصل کرنے سے قبل عمرِعزیز کے 27برس قید خانے میں صرف کیے۔ جزیرہ رابن میں اُنھوں نے تنازعات کے حل کی انتہائی اعلیٰ صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ جیل کے دربانوں کی درندوں جیسی بدسلوکی کا اِنسانی وقار کی بلندی کے ساتھ مقابلہ کرنے کی وجہ سے اُنھوں نے قیدخانے میں انتہائی احترام کا رشتہ استوار کر لیا۔ وہی دربان اُن کے دوستوں میں تبدیل ہو گئے اور 1994ء میں جب عام انتخابات کے نتیجے میں وہ جنوبی افریقا کی صدارت کے عہدے پر فائز ہوئے تو جیل کے اِنھی اہل کاروں کو جناب منڈیلا کے ذاتی مہمانوں کی حیثیت سے صدارتی تقریب میں مدعو کیا گیا۔ نیلسن منڈیلا کو ایف ۔ڈبلیو ڈی کلارک کے ہمراہ 1993ءکا نوبل امن انعام دیا گیا۔ دسمبر 2013 میں ان کا انتقال ہوا تو نیلسن مینڈیلا کا ایک اہم ترین عالمی مدبر کے طور پر مقام متعین ہو چکا تھا۔

***   ***

مئی کے اختتام کی ایک رات جیل کا دربان میری کوٹھری میں آیا اور مجھے اپنا سامان سمیٹنے کی ہدایت کی۔ میں نے اِس کی وجہ پوچھی مگر اُس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ 10 منٹ سے بھی کم وقت میں مجھے جیل اہلکاروں کی ہمراہی میں استقبالیہ کے دفتر میں لے جایا گیا جہاں تین دیگر سیاسی قیدی طیفو، جان گیٹسیواورآرون مولیٹی پہلے سے موجود تھے۔ کرنل اوکیمپ نے بہت درشتی سے آگاہ کیا کہ ہمیں یہاں سے منتقل کیا جا رہا ہے۔

”کہاں“؟ طیفو نے دریافت کیا

”ایک نہایت خوبصورت مقام پر!“ او کیمپ نے جواب دیا۔

”کہاں“؟ طیفو نے پھر پوچھا۔

” ایک جزیرے پر“ او کیمپ نے جواب دیا۔

 جب جزیرہ کہا جائے تو ایک ہی نام ذہن میں آتا ہے یعنی ”رابن آئی لینڈ“

ہم چاروں کو ایک ساتھ ہتھکڑیاں باندھ کر ایسی ویگن میں بٹھا دیا گیا جس کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے اور جس میں رفع حاجت کے لیے رکھی ایک بالٹی کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ رات بھر ہم کیپ ٹاﺅن کی جانب محو سفر رہے اور بعد از سہ پہر شہر کی بندرگاہ پر پہنچے۔ چلتی گاڑی میں بیڑیوں میں ایک ساتھ بندھے چار افراد کا رفع حاجت کے لیے بالٹی کو استعمال کرنا کوئی آسان یا خوشگوار تجربہ نہیں تھا۔

کیپ ٹاﺅن کی بندرگاہ پر مسلح پولیس اور پریشان حال سادہ کپڑوں والے اہل کاروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ ہمیں پھر اُسی طرح ہتھکڑیوں میں بندھے لکڑی کے پرانے سے بجرے کے نچلے عرشے میں کھڑا کر دیا گیا ۔ جہاز کے ساحلی علاقے میں ہچکولے کھاتے ہوئے جانے کی وجہ سے یوں کھڑے رہنا مشکل تھا۔ ہمارے سر پر روشن دان کی طرز پر بنا ایک کھلا سوراخ ہوا اور روشنی کا واحد ذریعہ تھا۔ اِس سوراخ کا ایک اور اِستعمال بھی تھا کہ ہماری رکھوالی پر مامور عملہ اِس کے ذریعے ہم پر پیشاب کر کے لطف اندوز ہوتا تھا۔ جب ہمیں بندرگاہ کی طرف لے جایا گیا اور پہلی مرتبہ رابن آئی لینڈ دیکھا تو ابھی دِن کی روشنی باقی تھی ۔ سرسبز اور خوبصورت ہونے کی وجہ سے پہلی نظر میں یہ علاقہ جیل سے کہیں زیادہ کوئی تفریحی مقام دکھائی دیتا تھا۔

ہاؤسا لوگ اپنی زبان میں کیپ ٹاؤن کے ساحل سے اٹھارہ کلو میٹر دور اِس تنگ،آندھیوں سے بھرپور اور پتھریلے علاقے کا حوالہ دیتے ہوئے” ایسکویتھنی“ یعنی جزیرے کے ا لفاظ اِستعمال کرتے ہیں اورہر کوئی یہ سمجھ جاتا ہے آپ کس جزیرے کا حوالہ دے رہے ہیں۔ میں نے پہلی مرتبہ اِس جزیر ے کانام بچپن میں سنا تھا۔ رابن آئی لینڈ مکانا (جنہیں نکسلے بھی کہا جاتا ہے) کے نام کی وجہ سے ہاؤسا لوگوں کے لیے جانا پہچانا تھا۔ مکانا چوتھی ہاؤسا جنگ میں ہاؤسا قبیلے کے چھ فٹ چھ انچ طویل القامت کمانڈر تھے جنھیں 1819ءمیں گراہمز ٹاؤن کے خلاف بغاوت میں 10,000 جنگجوؤں کی قیادت کرنے پر برطانوی حکومت نے ملک بدر کر کے سزا کے طور پر یہیں قید کیا تھا۔ اُنھوں نے رابن آئی لینڈ سے کشتی کے ذریعے فرار ہونے کی کوشش کی مگر ساحل پر پہنچنے سے قبل ڈوب گئے۔ اِس سانحے کی یاد آج بھی ہمارے لوگوں کے ذہنوں میں اور مختلف محاوروں کی شکل میں موجود ہے مثلاً وہ مکمل نااُمیدی کی حالت کوبیان کرنے کے لیے”UKUZA KUKA NXELE”کے الفاظ اِستعمال کرتے ہیں۔

مکانا جزیرہ رابن میں قید کیے جانے والے پہلے افریقی لیڈر نہیں تھے، 1638ء میں اوٹ شماؤ کو بھی جنھیں مغربی تاریخ دان ”ہیری دی سٹرینڈ لوپر“ کے نام سے جانتے ہیں، ولندیزیوں اور کھوئی کھوئی کے درمیان جنگ میں جان فان رائی بیک نے ملک بدر کر کے یہیں قید کیا تھا۔ اوٹ شماؤ کی شخصیت میرے لیے ڈھارس بندھاتی رہی کیونکہ وہی ایسے واحد فرد تھے جو چپوﺅں سے چلنے والی ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے رابن آئرلینڈ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔

اس جزیرے کا نام” سِیل“ یاسگ ماہی کے لیے اِستعمال کیے جانے والے ولندیزی لفظ سے لیا گیا ہے۔کبھی یہ سگِ ماہی ساحل سے ٹکرانے والی بینگیلا کی برفانی لہروں میں ہزاروں کی تعداد میں اٹھکیلیاں کیا کرتے تھے، بعدازاں جزیرے کو کوڑھ زدہ افراد کی نو آبادی، پاگل خانے اور بحری فوج کے اڈے میں تبدیل کردیا گیا۔ ابھی حال ہی میں حکومت نے اسے ایک بار پھر قیدخانے میں تبدیل کر دیا ہے۔

وہاں ہمارا سامنا تنومند سفید فام داروغوں کے ایک گروہ سے ہوا جو زور زور سے چلّا رہا تھا ”یہ ایسا جزیرہ ہے جہاں سے تم زندہ واپس نہیں جا سکتے“۔ ہمارے سامنے ایک وسیع صحن تھا جس کے اطراف میں جیل کے دربانوں کا رہائشی سلسلہ تھا۔ مسلح گارڈ قطار میں راستے کی دونوں جانب کھڑے تھے۔ ماحول میں سخت تناﺅ تھا۔ سرخ و سپید چہرے والے لمبے تڑنگے وارڈن نے غصے میں چیختے ہوئے کہا ”یہاں کا باس میں ہوں۔“ وہ قیدیوں پر ظلم و ستم کرنے میں بدنام ِزمانہ کلین ہانس برادرز میں سے ایک تھا۔ وارڈن ہمیشہ افریقی زبان میں گفتگو کرتے۔ اگر اُن سے انگریزی زبان میں بات کی جاتی تو وہ جواب دیتے ”ہم کالوں کی اِس زبان کو نہیں سمجھتے“۔

جیسے ہی ہم جیل کی جانب بڑھنے لگے گارڈز نے چلاتے ہوئے کہا ”دو، دو!“

اُس کا مطلب تھا دو آگے اور دو پیچھے یعنی جوڑوں میں چلو۔

میں طیفو کے ساتھ مل کر چلنے لگا۔ گارڈ پھر چلانے لگے”ہاک ہاک!“ افریقن زبان میں اِس کا لفظی مطلب ہے ”چلو!“ مگر یہ اصطلاح صرف مویشیوں کے لیے مخصوص ہے۔

 گارڈ ہم سے مطالبہ کر رہے تھے کہ ہم ہلکی رفتار سے دوڑتے ہوئے چلیں۔ میں طیفو کی جانب مڑا اور دبی آواز میں کہا کہ ہمیں ابھی سے مثال قائم کرنا چاہیے، اگر اس وقت ہم اِن کے دباﺅ میں آ گئے تو پھر ہمیشہ کے لیے ان کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ اِس پر طیفو نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ہمیں جیل اہلکاروں کو یہ باور کرانا تھا کہ ہم معمول کے جرائم میں ملوث عام قیدی نہیں بلکہ ایسے سیاسی قیدی ہیں جنھیں محض اُن کے نظریات کی بنا پر جیل میں رکھا گیا ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2