ایشیا کے ٹائیگرز اور پاکستان


خلوصِ نیت سے سمجھتا ہوں کہ ہر پاکستانی کا دل، ملکی ترقی کے لئے دھڑکتا ہے۔ ہم چاہے کسی شعبے یا ادارے سے تعلق رکھتے ہوں، وطن کی محبت سے سرشار ہیں۔ چاہتے ہیں کہ پاکستان جلد از جلد معاشی اور سماجی ترقی کی منازل طے کرے۔ ہم دوسری قوموں کو ہم پلہ سمجھتے ہیں، خود سے برتر نہیں۔ ہم اِس بات پر بھی نالاں ہیں کہ دُوسرے ملک جو ہمارے ساتھ آزاد ہوئے، ہم سے آگے نکل گئے۔ ہم باور کرتے ہیں کہ 1960ء کی دہائی کے اوائل میں، عالمی بینک نے جنوبی کوریا کو پاکستان کے دُوسرے پانچ سالہ منصوبے کی کامیاب تکمیل سے استفادہ کرنے میں معاونت کی۔ اُس کے بعد دونوں ملکوں کی معیشت الگ راستوں پر چل پڑی۔ چند برس بعد، کوریا ایشین ٹائیگرز کی فہرست میں شامل ہو گیا۔ پاکستان پیچھے رہ گیا۔

1970ء کی دہائی میں چار ملک حیرت انگیز رفتار سے ترقی کر رہے تھے۔ اُنہیں ایشین ٹائیگرز کا نام دیا گیا۔ اِن ملکوں میں سائوتھ کوریا، تائیوان، ہانگ کانگ اور سنگاپور شامل تھے۔ میں اُن دنوں گورنمنٹ کالج میں ایم اے اکنامکس کا طالب علم تھا۔ اِن ملکوں کی ترقی طالب علموں کے لئے مثال کے طور پر پیش کی جاتی تھی۔ اِس میں شک نہیں کہ اِن ملکوں کی معیشت نے بہت تیزی سے ترقی کی، مگر جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اُنہوں نے ترقی کے لئے جو راستہ اپنایا، کیا وہ پاکستان کے لئے قابلِ تقلید تھا؟

ہر قوم کی اپنی تاریخ، سماجی رویے، اخلاقیات اور رسوم و رواج ہوتے ہیں۔ ایشین ٹائیگرز کے تجربے کا بغور جائزہ لیا جائے تو اُن کا چنا ہوا راستہ، ہمیں قبول نہ ہوتا۔ ہماری قومی سوچ نے جو حدود و قیود طے کی ہیں، ہم معاشی ترقی کی خاطر اُن کے متعین کردہ دائرے سے باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ اِس سلسلے میں، سب سے پہلے چاروں ملکوں کے دفاعی نظام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اِن ملکوں کے پاس نہ قابلِ ذکر فوج تھی، نہ سامان حرب اور نہ ہی قابلِ اعتماد دفاعی نظام۔ یہ ذمہ داری امریکہ نے سنبھال لی۔ امریکی فوج نے اپنی چھائونیاں، اپنے ہوائی اڈے اور اپنا عسکری نظام قائم کر لیا۔ سرد جنگ کے تناظر میں اِس قسم کا دفاعی انتظام، اِن چاروں ملکوں اور امریکہ کی مشترکہ ضرورت تھی۔ جزیرہ نما کوریا، 1950ء کی دہائی میں جنوبی اور شمالی حصوں میں منقسم ہوا۔ شمالی کوریا، کیمونسٹ بلاک کی حمایت سے جنوبی حصے پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ جنوبی کوریا کے پاس اپنے دفاع کے لئے بندوق تو ایک طرف، گولی تیار کرنے کا انتظام بھی مفقود تھا۔ تائیوان کے حالات بھی مختلف نہ تھے۔ تائیوان، چین کا حصہ تھا۔ جب مائوزے تنگ کی فوجوں نے چیانگ کائی شیک کو شکست دی تو وہ اپنے حامیوں کے ساتھ تائیوان کے جزیرے پر منتقل ہو گیا۔ چیانگ کائی شیک کی حکومت کو کیمونسٹ چین کی جانب سے فوج کشی کا خطرہ تھا۔ ہانگ کانگ کے حالات بھی تائیوان جیسے تھے۔ وہ چین کا حصہ ہونے کے باوجود برطانیہ کے زیرِ تسلط تھا۔ ہانگ کانگ کی انتظامیہ کو ہمہ وقتی خوف تھا کہ چین کی فوجیں اُسے چند گھنٹوں میں ہڑپ کر سکتی ہیں۔ سنگا پور بھی ملائیشیا سے علیحدہ ہوا تھا۔ اُس کے لئے بھی بیرونی خطرات موجود تھے۔

چاروں ملک اپنا دفاع کرنے کے قابل نہیں تھے۔ اُنہوں نے اپنی جغرافیائی سرحدوں کو تحفظ دینے کی خاطر، اقتدارِ اعلیٰ میں امریکہ کو شامل کر لیا۔ البتہ اِس شراکت داری کا اُنہوں نے بھرپور معاشی فائدہ اُٹھایا۔ دفاعی اخراجات سے چھٹکارا پانے پر اپنے وسائل سرمایہ کاری کے فروغ پر خرچ کئے۔ بجلی کی فراہمی، بہترین سڑکیں، بندرگاہیں، ریل کا نظام اور صنعتی ترقی کے لئے اعلیٰ درجے کے انڈسٹریل زون قائم کئے۔ ان صنعتی علاقوں کے لئے پانی، گیس اور بجلی فراہم ہوئی۔ ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے گئے۔ جو صنعتیں وجود میں آئیں، اُن میں کام کرنے والوں کے لئے متعلقہ ہنر اور تربیت کا انتظام ہوا۔ چونکہ اِن ملکوں میں امریکی فوجیں تعینات تھیں، اس لئے نہ صرف امریکی بلکہ مغربی ممالک کے صنعتکاروں کو اپنے سرمائے کے تحفظ پر اعتماد تھا۔ یہ بھی یقین تھا کہ اِن ملکوں کی حکومتیں، امریکہ کی مرضی کے بغیر اپنی صنعتی اور مالیاتی پالیسیاں تبدیل نہیں کر سکتیں۔ چاروں ملکوں میں سرمایہ کاری کے لئے سستی زمین، کم شرح سود پر سرمایہ اور قلیل اُجرت پر ہنرمند افراد فراہم کئے گئے۔ اِن تمام سہولتوں نے منافع کی شرح کو دلکش بنا دیا۔ مغربی دُنیا سے دھڑا دھڑ سرمایہ کاری ہوئی۔ سرد جنگ میں امریکہ کے حلیف ہونے پر جدید ٹیکنالوجی کی منتقلی ممکن ہوئی۔ اِن چاروں ممالک اور امریکہ کے درمیان معاشی اشتراک آج بھی جاری ہے۔

اِس اشتراک کو ایک طرف سے خطرہ ہو سکتا تھا۔ پہلی اور دُوسری جنگ عظیم کے دوران، امریکی فوجی بیرونِ ملک اپنی بدمستیوں کے قصے چھوڑ آئے تھے۔ امریکی فوجی اڈے قائم ہوئے تو اُن مخصوص خطوں میں مقامی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ اپنے گھروں سے دُور، ڈالروں سے مالا مال، امریکی فوجی مقامی لڑکیوں کی تلاش میں رہتے۔ یہی وجہ تھی کہ فوجی اڈوں کے قرب و جوار میں جسم فروشی کی صنعت فروغ پاتی رہی۔

ہو سکتا تھا کہ اِس وجہ سے مقامی لوگوں اور امریکی فوج کے درمیان سماجی تنائو جنم لیتا۔ کشیدگی قابو سے باہر ہو جاتی، مگر اِس کی نوبت نہ آئی۔ اُس کی ایک وجہ ان ملکوں کا نظامِ حکومت تھا۔ کوریا میں فوجی جنرل حکمران تھے۔ اُن کا جبر ایک مثال کا درجہ رکھتا تھا۔ جہاں سویلین برسرِ اقتدار تھے اُنہوں نے بھی اظہار رائے کا گلا دبائے رکھا۔ شام ہوتے ہی، مقامی لڑکیاں بغل میں دبائے امریکی فوجی شراب خانوں کا رُخ کرتے۔ آہستہ آہستہ لوگ اُنہیں نظر انداز کرنے لگے۔ اُس کی ایک وجہ تہذیب و تمدن کا فرق تھا۔ ہماری نسبت اِن ملکوں میں غیرت کا تصور واضح نہیں۔ سماج، شخصی آزادیوں کا قائل ہے اور عورتوں کو ہماری طرح مخصوص نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ آزادی نسواں کے پھیلتے دائرے میں عزت اور حرمت کا احساس دُھندلا گیا۔ عورت ہو یا مرد، امریکہ کی طاقت اور ترقی کا خوش کن عکس عوام کے ذہن پر چھا گیا۔ آج بھی کوریا، تائیوان، ہانگ کانگ اور سنگا پور میں بیشتر مردو زن اپنے نام کے ساتھ ایک امریکی نام کی عرفیت کا اضافہ کرنے میں عار نہیں سمجھتے۔

اپنے آپ سے سوال کرنا چاہئے کہ کیا ہمیں وہ راستہ قبول تھا جس پر ایشین ٹائیگرز گامزن رہے۔ ہمیں اپنی معاشی ترقی کا تقابل اِن ممالک سے نہیں کرنا چاہئے۔ ہمارے حالات مختلف تھے۔ ہم نے ہندو اکثریت کے اکھنڈ بھارت سے اپنے لئے علیحدہ وطن حاصل کیا تھا۔ کیا ہم اپنے دفاع کے لئے کسی غیر پر بھروسہ کرتے؟ یہ ممکن نہیں تھا۔ اِس کے علاوہ قومی غیرت اور حمیت کا تصور ہمارے سماج میں مذہب کی بنیاد پر قائم ہے۔ کیا ہم اپنی اقدار پر سمجھوتہ کر سکتے تھے؟ اِس کا خیال تک بھی ذہن میں نہیں لایا جا سکتا تھا۔

البتہ ہم اِن ملکوں کے تجربے سے یہ سبق سیکھ سکتے تھے کہ دفاع اور اقدار پر سمجھوتہ کئے بغیر، سرمایہ کاری کو کس طرح فروغ دیا جا سکتا تھا۔ ہم یہ سبق نہ سیکھ سکے۔ ہماری حکومتیں چاہے فوجی ہوں یا سویلین، سرمایہ کاری کے فروغ میں بری طرح ناکام ہوئیں، مگر اِس کا ذکر پھر کبھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood