ن لیگ اکثریتی پارٹی بن کر ابھر سکتی ہے!


تحریک انصاف کے سیاسی بصیرت والے دوست اگرٹھنڈے مزاج کے ساتھ تجزیہ کریں تو نواز شریف انہیں اپنے محسن نہ سہی تو حقیقی مدد گارکی حیثیت میں ضرور نظر آئیں گے۔ بدھ کے روز اپنے ایک طویل بیان کو جو اب عدالتی ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے ایک پریس کانفرنس میں دہرانے کے بعد سپریم کورٹ کے ہاتھوں سیاسی عہدے کے لئے تاحیات نااہل ہوئے نواز شریف نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ”محب وطن“ اور ”بردبار“ گروہ کے لئے شدید مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ اپنے تئیں ریاست کے دائمی اداروں اور نون کے لاحقے والی مسلم لیگ میں موجود سیاسی اشرافیہ کے نمائندوں کے درمیان ”پل“ بنے افراد کی فراغت ہوگئی۔ ان کے پاس اب یہ دعویٰ کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں رہا کہ چند خرانٹ صحافی جن کی حب الوطنی کو مشکوک بناکر بھی پیش کیا جاتا ہے ”معصوم“ نواز شریف کو گھیرگھار کر ان سے کچھ ایسی باتیں نکلوالیتے ہیں جو ”حساس“ ہوتی ہیں۔ تین بار وزیر اعظم رہے شخص کے منہ سے یہ باتیں اداہوں تو وطنِ عزیز کی سلامتی کے لئے خطرہ بن جاتی ہیں۔ حال ہی میں ایسا ہی ایک انٹرویو ہوا۔ اس میں نواز شریف سے منسوب باتوں نے طوفان کھڑا کردیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں عسکری قیادت کے روبرو وضاحتیں دینے پر مجبور ہوئے۔ شہباز شریف صاحب کو بھی یہ بتایا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ نون سے وابستہ قومی اسمبلی کے اراکین میں بغاوت پھوٹ پڑی ہے۔ انہیں فوراَ اسلام آباد پہنچ کر پریشان ہوئے افراد کے سوالات کے جوابات دینا ہوں گے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر حواس باختہ ہوئے اسلام آباد آئے۔ بغاوت پر تلے اراکین کو یقین دلایا کہ وہ اپنے بڑے بھائی کو دردمندانہ التجاﺅں اور آئندہ انتخابات کا واسطہ دے کر چند ”حساس“ معاملات کے بارے میں خاموش رہنے پر مجبور کردیں گے۔ نظر بظاہر وہ یہ وعدہ نبھانے میں ناکام رہے۔

بدھ کے روز اپنی پریس کانفرنس میں نواز شریف صاحب نے بلکہ Moreover کر دیا۔ اس Moreoverکے بعد پاکستان مسلم لیگ کے وہ تمام Electablesجو ابھی تک کسی نہ کسی وجہ سے اس جماعت میں ٹھہرے ہوئے ہیں ”آزاد“ ہوگئے ہیں۔ تحریک انصاف میں لیکن ان سب کو کھپانے کی اب گنجائش موجود نہیں رہی۔ سردار عاشق گوپانگ نے شاید اسی لئے سیاست سے ریٹائر ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ چکوال کے سردار غلام عباس نے نواز شریف کے حالیہ انٹرویو کے بعد ”وطن کی محبت میں“ مسلم لیگ نون چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ عمران خان صاحب کو مگر یہ بات بھولنا بہت مشکل محسوس ہورہا ہے کہ چکوال کے اس ہیوی ویٹ Electableنے 2013کے انتخابات سے صرف ایک مہینہ قبل ہی ان کی جماعت کو چھوڑ دیا تھا۔ جہانگیر ترین کی کاوشیں بھی انہیں رام نہیں کر پائیں۔ چکوال ہی سے اُٹھے مگر ایک پیر صاحب ہیں۔ راولپنڈی میں رہتے ہیں۔ خان صاحب اکثر روحانی رہ نمائی کے لئے ان سے بھی رجوع کرتے ہیں۔ شنید ہے کہ اب وہ سردار غلام عباس کے سفارشی ہیں۔

تحریک انصاف کی جانب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ٹکٹ بانٹنے والی کھڑکی پر اگرچہ ”ہاﺅس فل“ کا بورڈ لگ چکا ہے۔ ابھی تک نون کے لاحقے والی مسلم لیگ میں براجمان Electables کے لئے واحد راستہ اب یہ رہ گیا ہے کہ وہ جرات سے کام لے کر اپنی جماعت کی جنرل کونسل کا ہنگامی اجلاس بلائیں۔ اس اجلاس میں بھرپور دیانت سے کام لیتے ہوئے یہ اعلان کردیا جائے کہ نواز شریف جنہیں سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی کے باوجود نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے تاحیات قائد کا منصب دیا گیا تھا، اپنی ہی بنائی جماعت کے لئے ”خودکش بمبار“ ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ حقیقت بیان کرنے اور منافقانہ افسوس کے اظہار کے بعد نواز شریف کو قائد کے عہدے سے فارغ کرتے ہوئے شہباز شریف کو تنظیمی اعتبارسے مسلم لیگ کا حتمی قائد ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ وہ اپنے بھائی کو ”دغا دینے“ پر راضی نہ ہوں تو چودھری نثار علی خان صاحب کو بالآخر نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کا نیا صدر چناجاسکتا ہے۔ ن لیگ اکثریتی پارٹی بن کر ابھر سکتی ہے!

یہ ”نون“ اپنے قائد کو ”وطن کی خاطر“ قربان کردینے کے بعد انتخابی مہم کے لئے نکلی تو واہ واہ ہوجائے گی۔ پنجاب کے تمام حلقوں میں کانٹے دار مقابلے دیکھنے کو ملیں گے۔ ایسے ماحول کی بدولت نون کے لاحقے والی مسلم لیگ اگر واحد اکثریتی جماعت بن کر نہ بھی ابھری تو مستقبل کی ایک تگڑی اپوزیشن ضرور بن جائے گی۔ عمران دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس ملک کے وزیراعظم نہیں بن پائیں گے۔

نوازشریف مگر 1985ءسے انتخابی سیاست کے داﺅ پیچ سے آشنا ہیں۔ تین سے زائد دہائیوں کے تجربے کے بعد  Electablesکی اصل وقعت کو خو ب جان چکے ہیں۔ انہیں خبر ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔ جس اجلاس کی میں توقع کر رہا ہوں وہ ہو نہیں پائے گا۔ ابھی تک نون کے لاحقے والی مسلم لیگ سے جڑے افراد کے لئے تحریک انصاف میں جگہ نہ بن پائی تو وہ ”آزاد“ ہو جائیں گے۔ ان کی یہ ”آزادی“ مگر اس وقت کسی کام نہیں آئے گی۔ 2018 کا انتخاب درحقیقت  “Brands”کے درمیان تخت یا تختہ والا مقابلہ ہے۔ ایک برانڈ ہے عمران خان اور دوسرا نواز شریف۔ نواز شریف برانڈ کا بیانیہ  Electables کے لئے اپنانا مشکل ہے۔ تھانہ کچہری کے مسئلے۔ بینکوں سے لین دین اور احتساب بیورو کا خوف انہیں مذکورہ بیانیے سے دور رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ عافیت فقط عمران خان کا برانڈ ہی مہیا کرسکتا ہے۔ ویسے بھی کپتان کو ابھی تک چانس نہیں ملا ہے۔ ”چانس“ والی بات کو دہراتے ہوئے بھی کافی ووٹ اکٹھے کئے جا سکتے ہیں۔ پنجاب اور  KPKمیں لہذا تحریک انصاف کے لئے Sweep کے امکانات روشن نظر آرہے ہیں۔ یہ امکانات 1997کے بعد ہمیں خان صاحب کی صورت ایک اور ”ہیوی مینڈیٹ“ والا وزیر اعظم دے سکتے ہیں۔ غالباَ نواز شریف کی خواہش بھی یہی ہے کہ خان صاحب کے وزیر اعظم منتخب ہوجانے کے بعد وہ کسی دن پوچھ سکیں :”اب مزہ آیا“۔ ذاتی طور پر اگرچہ مجھے یقین ہے کہ دو تہائی اکثریت کے بعد بھی وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد کپتان کو ”مزا“ نہیں آئے گا۔ ان کے ا قتدار سنبھالنے کے چند ہی ماہ بعد دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ منتخب حکومتوں کو مفلوج بنانے کی جو ٹیکنالوجی خان صاحب نے متعارف کروائی ہے ان کی حکومت کے خلاف بھی مزید نفاست مگر شدت کے ساتھ ہر صورت استعمال ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).