کچرے میں رزق تلاش کرتے سونے جیسے ہاتھ


”میں امیر ہونا نہیں چاہتا، امیر ہوجاؤ تو لوگ تنگ کرتے ہیں طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں، چھیڑتے ہیں کہ یہ کیسے امیر ہوگیا؟ اتنا پیسہ کہاں سے آگیا اس کے پاس؟ میں یہی خوش ہوں اورساری زندگی یہی گزارنا چاہتا ہوں۔“ زندگی کا سادہ لیکن پختہ فلسفہ بیان کرنے والا دس سالہ صبیح، جام چھاکرو میں رہتا ہے اور روزانہ کئی گھنٹے کوڑے کے ڈھیر سے کام کی چیزین چن کر بیچتا ہے۔

کراچی کے مضافات میں جام چھاکرو کا علاقہ کوڑے کرکٹ کا قبرستان کہا جاتا ہے۔ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کے اعداد وشمار کے مطابق شہر میں پیدا ہونے والا یومیہ پندرہ ہزار ٹن کچرا کراچی کے مختلف لینڈ فل سائیٹس پر زمین برد کیا جاتا ہے۔ جہاں یہ کچرا پھینکا جاتا ہے یہ مقامات شہر کے ہنگاموں اور رونقوں سے کوسوں دور بنائے گئے ہیں۔ جام چھاکرو بھی ایک ایسی ہی جگہ ہے جہاں روزانہ صبح سے دوپہر تک ان گنت ٹرک شہر بھر سے سات سے آٹھ ٹن کچرا اٹھا کر یہاں لاتے ہیں اور پھر شروع ہوتی ہے ایک ایسی داستان جس کے بارے میں ایک عام آدمی باخبر نہیں۔ اس گوٹھ میں داخل ہونے سے قبل دو رویہا پکی سڑک اور ایک نہر جو حب ڈیم سے جاکر ملتی ہے سفر کو سہل بنائے رکھتی ہے۔ لیکن جیسے جیسے آپ اس گوٹھ میں داخل ہوتے جاتے ہیں تو کچا راستہ اس گوٹھ کی طرف مڑ جاتا ہے اور پھر ہر جانب سے سفید اور کالا دھواں آپ کا استقبال کرتا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ناک پر ماسک لگا کر آپ آگے بڑھتے جاتے ہیں لیکن اس جلتے ہوئے کوڑے کے پہاڑو ں پر آپ کو بے شمار لوگ اپنا رزق تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔

گھر سے نکلنے والے کوڑے کی آخری منزل کہاں ہے اور اتنا ٹنوں کچرا جہاں پہنچتا ہے وہاں اس کچرے کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے؟ یہ سوال مجھے شہر سے اتنا دور لے گیا۔ جس کچرے کو میں گھر میں دو روز سے زیادہ رکھنے کی روادار نہیں۔ اس میں سے اٹھنے والا تعفن مجھے کوڑا اٹھانے والے کو تاخیر سے آنے پر جھڑکیاں دینے پر مجبور کردے۔ آج اسی کچرے نے میرا بانہیں کھول کر استقبال کیا تو میں اس سے نظر چراتے ہوئے تیز تیز آگے بڑھنے لگی۔ جیسے جیسے قدم بڑھتے گئے کوڑے کے پہاڑوں کی اونچائی بھی بڑھنے لگی۔ ٹرک آتے اور کچرا پھینک کر نکل جاتے، پہلے ان میں سے جو چننے والا ہوتا وہ وہاں کام کرنے والے چن لیتے اور پھر باقی ڈھیر کو آگ لگا دی جاتی، جب وہ کوڑا راکھ کا ڈھیر بن جاتا تو اس میں سے دھات اور کانچ ڈھونڈنا اور بھی آسان ہوجاتا۔ ان مراحل اور مناظر کو میں دیکھ کر آگے سے آگے بڑھتی چلی گئی۔ ان کچروں سے اپنے مطلب کی اشیاءڈھونڈنے والے اپنے کام میں اتنا مگن تھے کہ کسی نے مجھے پلٹ کر دیکھنا تک پسند نہ کیا میں جو تھوڑی دیر پہلے تک خود کو کچھ مختلف محسوس کر رہی تھی اس شدید نظر اندازی کے سبب اپنے ہونے کا مطلب جان گئی کہ اچانک چلتے چلتے مجھے ایک آواز سنائی دی جس نے مجھے چونکا دیا۔

دو بچیاں ملکر کوڑے سے کچھ تلاش کر رہی تھیں چھوٹی بچی نے جب ایک مضبوط لکڑی بڑی بچی کو پکڑائی تو آواز آئی تھینک یو۔ میرے قدم وہی جم گئے۔ یہ بارہ برس کی زبیدہ ہے جو پانچویں جماعت کی طالبہ ہے اور یہاں کچرے سے لوہا، پیتل، ہڈیاں، کانچ علیحدہ کر نے کے بعد اسے مقامی کباڑئے کو بیچ دیتی ہے۔ پڑھنے کی لگن اپنی جگہ لیکن گھر کا چولہا جلانے کے لئے اپنے گھر کے دوسرے افراد کی طرح وہ بھی یہ کام کرنے پر مجبور ہے۔ لیکن زبیدہ کا یہ خواب ہے کہ وہ خوب پڑھے، کچھ بنے اور پھر اس جگہ سے نکل کر شہر میں جاکر گہری سانس لے۔ بارہ برس کی زبیدہ نے کراچی کبھی بھی نہیں دیکھا اس کا ماننا ہے کہ وہ جب پڑھ لکھ جائے گی تو ہی شہر اس کا مقدر بن سکے گا ورنہ ساری زندگی یہی گزر جائے گی۔

لیکن دس سال کا صبیح زبیدہ کی طرح خواب نہیں دیکھتا، وہ اپنی ساری زندگی یہی گزارنا چاہتا ہے اس کے دوست اسکول جاتے ہیں کیونکہ وہ سب ٹیچر کی مار سہہ سکتے ہیں وہ نہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ مس مجھے مارنا چھوڑ دیں میں اسکول چلا جاوں گا۔ کوڑے میں پھینکا جانے والا پرانا میک اپ کا سامان وہ کوڑے سے الگ کر کے اسے توڑنے میں مصروف تھا وہ اس میں سے پلاسٹک الگ کرکے ایک چھوٹی سی ڈھیری بنا چکا تھا کام میں مگن رہتے ہوئے اس نے ایک خواہش کا اظہار کیا کہ وہ میری صورت بناءماسک کے ایک نظر دیکھنا چاہتا ہے اور پھر میں نے اپنا ماسک اتار پھینکا اور اس آلودہ فضاءمیں گہرا سانس لیتے ہوئے اسے مسکرا کر دیکھا۔ میرے اس سوال پر کہ وہ اپنی ماں زینب کے ساتھ گھنٹوں کام کرتا ہے تو اسے کیا ملتا ہے؟ وہ ہنسا اور بولا باجی اتنا کونسے ہزاروں روپے کماتے ہیں کہ میں اپنا حصہ لوں۔ اماں مجھے دس روپے دیتی ہے خرچی کے لئے“، ہم دونوں ملکر اتنا کماتے ہیں کہ ایک کلو آٹا، تھوڑا سا دودھ، گھی، چینی، پتی آجاتی ہے چائے روٹی سے پیٹ بھر لیتے ہیں۔

مجھے پہلی بار اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھے اپنا آپ بہت چھوٹا محسوس ہوا۔ زینب اس ساری گفتگو کے دوران ہاتھ سے کچرے کو الٹ پلٹ کرتی رہی اور کانچ ایک طرف اور دھات دوسری طرف کرتی رہی۔ میں نے زینب سے پوچھا یہ کام کرتے ہوئے ہاتھ تو زخمی ہوتے ہوں گے؟ دھواں بھی بہت ہے کیا طبیعت خراب نہیں ہوتی؟ اس پر زینب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ عادت ہے اس کام کی اور اگر کبھی بخار ہوجائے تو گولی کھا لیتے ہیں بخار اتر جاتا ہے، اگر ہاتھ پر زخم آجائے تو یہ راکھ پڑی ہے ناں اسی کو زخم پر لگا کر کوئی پٹی باندھ لیتے ہیں اللہ کے کرم سے ایک دو دن میں ٹھیک ہوجاتا ہے اصل میں ہم اگر زندگی کو بوجھ سمجھنا شروع کردیں تو کچھ بھی نہ کرسکیں ہم سے تو یہ سب اللہ کروارہا ہے وہی رازق بھی ہے وہی مسیحا بھی۔ ان دونوں ماں بیٹے کا زندگی پر اطمینان اور چہرے کی مسکراہٹ نے میرے اٹھتے قدم من من بھر کے کر دیے۔

حد نگاہ نظر آنے والے کوڑے کے ڈھیر کی دوسری جانب مجھے ایک آدمی ریت چھاننے والے چھننے سے کچرا صاف کرتا دکھائی دیا۔ اب تک میں نے جتنے بھی لوگوں کو دیکھا وہ ہاتھ یا کسی لکڑی سے کچرے کو چھانٹتے دکھائی دیے تھے۔ میں اس شخص تک کوڑے کی ڈھیریوں پر سے خود کو بچتے بچاتے پہنچ ہی گئی۔ اس شخص نے اپنا تعارف مجھے اسلم کے نام سے کروایا اور بتایا کہ اس نے راج مزدوری کا کام بھی سیکھ رکھا ہے اور شہر میں جاکر یہ کام بھی کیا لیکن مزدوری کم ہونے اور طویل اوقات کے سبب اس نے واپس اسی کام پر آنے کا فیصلہ کیا۔ اسی وجہ سے اس کے پاس بیلچہ اور یہ چھننا موجود ہے جو اس سے دوسرے لوگ بھی لے جاتے ہیں۔ اسلم اس سہولت کی وجہ سے کم وقت میں زیادہ مال جمع کرچکا تھا جس میں لوہا، پیتل اور ہڈیاں شامل تھیں۔ اسلم کے چھ بچے ہیں اور وہ بھی ایک مقامی این جی او کے قائم کردہ اسکول میں مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کی خواہش ہے کہ اس کے بچے بڑے ہوکربھلے مزدوری کریں یا کہیں گارڈ کی نوکری کر لیں لیکن یہ کام نہ کریں کیو نکہ اس کام میں سختی بہت ہے۔

کچرا بھر کر لانے والے تیز رفتار ٹرکوں کی دھول تو دوسری جانب کوڑے کے پہاڑوں سے اٹھنے والا دھواں ماحول کو مزید آلودہ اور گھٹن زدہ کر رہا تھا لیکن ان سب سے تھوڑی دور وہ کچی آبادی ہے جہاں کچرے اور راکھ سے رزق تلاش کرنے والے یہ سونے جیسے لوگ بستے ہیں۔ اس آبادی میں کوئی گھر بھی پکا نہیں، کسی گھر کا دروازہ نہیں، سب پھلوں کی پیٹیوں، جھاڑیوں کی باڑ یا پھر فاضل لکڑی سے بنے ہوئے تھے اگر کوئی چار دیواری رکھتی ہے تو وہ ایک چھوٹی سے مسجد ہے جس کے چاروں جانب چار فٹ کی پکی دیوار ہوگی، اس سے آگے چھوٹے موٹے تندور، ہوٹل، پھیری لگانے والے اور کباڑئیے بیٹھے ملتے ہیں۔ لینڈ فل سائیٹ سے چھوٹی چھوٹی بوریوں میں جمع کیا ہوا آٹا چینی، پتی کا خرچہ اٹھائے یہ محنت کش کباڑئیے کو اپنا مال تولواتے اور مٹھی بھر چند روپے اور سکے لے کر بجلی پانی سے محروم گھر کی طرف لوٹ جاتے۔

عابد جو یہاں پچھلے تیس برسوں سے کباڑئیے کا کام کر رہے ہیں انھوں نے بتایا کہ یہاں جمع ہونے والا پلاسٹک، گتھا، لوہا، ہڈیاں اور کانچ ایک بار پھر سے چھانٹی کے عمل سے گزرتا ہے اور پھر کراچی بھیج دیا جاتا ہے۔ جہاںیہ ری سائیکل ہوتا ہے یا پھر کسی بھی مصرف میں لایا جاتا ہے۔ عابد کے مطابق اس گوٹھ میں کچرے سے اپنا رزق ڈھونڈنے والوں میں لگ بھگ پانچ سے چھ ہزار لوگ وابستہ ہیں۔ جو شروع سے یہی کام کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ اسی بستی میں رہتے ہیں تو کچھ آگے کے گوٹھوں سے یہاں چل کر آتے ہیں جب تک کچرے کے ٹرک آتے رہتے ہیں یہ کام چلتا رہتا ہے اور پھر عصر سے پہلے پہلے سب بھاؤ تاؤ کرنے کے بعد اپنے اپنے گھر چولہا جلانے کا بندوبست کرنے لگتے ہیں۔ عابد کا کہنا ہے کہ یہ آپ کے لئے کچرا ہوگا پر اس کوڑے سے کئی انسانوں کے پیٹ کی آگ بجھتی ہے یہ ہمارا رزق ہے، یہ ہم پر اللہ کا کرم ہے جس کا جتنا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar