150  طالبات کے ساتھ کمرہ امتحان میں کھیلتا ایک استاد


بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ یہ نہ تو کہانی ہے اور نہ ہی کوئی مبالغہ آرائی ہے، ماہ مبارک رمضان میں چلتا پھرتا شیطان، وہ چار روز تک سوچتی رہی کہ اس کے ساتھ یہ سب کیسے ہو گیا، کیا وہ اس پر آواز اٹھائے، کیا اس کو چپ رہنا چاہیے یا پھر اس کو باغی ہو جانا چاہئیے، معاشرہ کی اس گندگی کو روکنا کا ایک ہی طریقہ نظر آیا اسے کہ وہ معاشرے کو بتائے کہ اس صاف شفاف اور خوبصورت سڑک کے کنارے کئی جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہیں تاکہ باقی اس غلاظت سے بچ جائیں یا کم از کم اس جیسی سینکڑوں حوا کی بیٹیاں دوبارہ ایسی وہیات صورتحال کا شکار نہ ہوں۔ خیر 12 ویں روزہ کو اس نے یہ بات اپنے فیس بک اکاونٹ کی وساطت سے دنیا تک پھیلانے کا کام کر ہی دیا۔

4 روز پہلے اس کے اور اس جیسی کئی یاک معصوم روزہ دار بچیوں کے ساتھ یہ گھناونا واقعہ پیش آیا، وہ لکھتی ہے کہ 24 مئی 2018 کو صبح 8 بجے اسکا بیالوجی کا پریکٹیکل تھا، وہ پہلے بیج میں شامل تھی، نگران کی جانب سے یہ قید لگائی گئی تھی کہ دوران پریکٹیکل بچیوں کے ساتھ ان کا کوئی بھی استاد پریکٹیکل کمرہ میں موجود نہ ہوگا، لیکن ان کی ایک خاتون استاد نے پرنسپل سے خصوصی اجازت نامہ کے ذریعے اس پریکٹیکل کمرہ تک رسائی حاصل کی تھی، پریٹیکل سے پہلے یہ افواہ عام تھی کہ پریٹیکل لینے والا استاد سخت مزاج ہے، سو ایک ڈر پہلے ہی پیدا ہو گیا۔

کمرہ امتحان میں شروعات غیر اخلاقی کمینٹ سے ہوئی، جہاں پہلے بیج میں تقریبا 80 سے لڑکیاں تھیں۔ معذرت کے ساتھ اگلی سطریں انتہائی غیر اخلاقی ہونگی شاید، لیکن یہی سچ اور حقیقت ہے جس کو لکھنا ناگزیر ہے۔ لڑکی کے مطابق اس کے نگران نے ایک بار اس جواں سال بچی کے جسم کے پچھلے ابھار پر ہاتھ لگایا، اور دوسری بار اسی بچی کی ” برا سٹرپ” کو ٹٹولنے کی کوشش کی، سہمی ہوئی یہ بچی اس حرکت سے تقریبا حواس باختہ ہو چکی تھی، اور اس صورتحال میں کیا کرنا ہے کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی، یہ کسی چھوٹے سے قصبے، دیہات، گاوں یا چھوٹے شہر کی بات نہیں، یہ بات شہر اقتدار کی پڑھی لکھی بچی کی ہے، اس شہر میں بہترین قسم کی آزادی ہے، جنسی امتیاز کی صورتحال کم ہی نظر آتی ہے، لیکن اس شہر کے ایک جانے پہنچانے کالج ایچ-نائن میں یہ واقعہ پیش آیا۔

صبا علی کے مطابق یہی حرکت نہ صرف اسکے ساتھ بلکہ اس بیج اور اس روز پریٹیکل دینے والے ہر بیج کی تقریبا ہر لڑکی کے ساتھ ہوئی اور نمبر کٹ جانے کے خوف سے یہ سب بچیاں خاموش رہیں، جس نگران کی جانب سے یہ نازیبا حرکات کی گئی اسکا نام اس بچی کے فیس بک اکاونٹ پر موجود ہے، نام اس لیے نہیں لکھا رہا کہ ابھی تک یہ شدید قسم کے الزامات ہیں جن کی تحقیقات ہر حال میں ہونے چاہییں تاکہ اس جیسی اور ہزاروں بچیوں کو ایسے بھیڑیوں سے محفوظ کیا جا سکے۔ صنف نازک کے جسموں کے نازک حصوں سے کھیلتے یہ درندے ہر جگہ موجود ہیں،اور اس معاشرے میں خواتین اگر آواز اٹھائیں تو معاشرہ الٹا انکو ہی قصور کہتا ہے۔

گرے ہو ئے معاشرہ کی یہ ایک نہیں کئی ایک مثالیں ہیں، چند روز پہلے ڈیرہ غازی میں ایک جواں سال لڑکی کو بالوں سے گھسیٹے ہوئے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ہر شخص نے دیکھا، پھر یہ بھی دیکھا کہ ایک شخص اپنی ہی بہو کے ساتھ زیادتی کرتا چلا آ رہا ہے اور اپنے ہی بیٹے کو گھر میں آنے نہیں دیتا، بہو کو طلاق دلوا کر خود شادی کرنا چاہتا ہے اور اگر اس پر کوئی روکے تو پھر اسکو پستول دکھایا جاتا یا بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا جاتا، چند ماہ پہلے خوشاب میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ نظر سے گزرا جب ممبر امن کمیٹی نے اپنی ہی بہو پر جال ڈالنے اور ذیادتی کی کوشش کی، اور کسی حد تک کامیاب بھی رہا، شریف خاندان کی جانب سے واقعہ کو پبلک نہ کرنے کا کہا گیا ہے کہ اس سے ان کی عزت خراب ہوگی، خون سفید ہونے کا تو آپ نے سن رکھا ہوگا لیکن یہ خون بے غیرت ہوتا جا رہا ہے، اس حوالے سے قانون سازی کی جانی چاہیے اور ایسے عناصر کو شدید قسم کی سزا دینی چاہیے، اس جوش مارتے بے غیرت خون کے آگے اگر اب بند نہ باندھا گیا تو یہ درندے بے لگام ہو جائیں گے اور ہماری آپکی سب کی عزت غیر محفوظ ہو جائیں گی۔

وقار حیدر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار حیدر

وقارحیدر سما نیوز، اسلام آباد میں اسائمنٹ ایڈیٹر کے فرائض ادا کر رہے ہیں

waqar-haider has 57 posts and counting.See all posts by waqar-haider