الیکشن کے بعد کا منظر نامہ: لمحہ فکریہ


چلیئے ہم حقیقت کومان لیتے ہیں کہ نواز شریف اگلا وزیر اعظم نہیں۔ اپنی کردہ اور نا کردہ غلطیوں کی بنیاد پر اسے ایوان میں مطلوبہ نشستیں حاصل نہیں ہوئیں۔ کوئی خفیہ قوت اسکے پیچھے تھی یا عوام نے خالیہ دنوں کے انٹرویوز میں ہوئی گفتگو کو سراسر مسترد کردیا۔ مان لیتے ہیں ن لیگ کو ووٹ نہیں ملا۔ مگر دو سوال اسکے باوجود اپنی جگہ باقی رہیں گے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ اگلے جمہوری سیٹ اپ میں ن لیگ پاکستان کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت نا ہو؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ نواز شریف اپوزیشن کی سیاست کرے  اور حکومت ڈلیور بھی کر پائے؟

زیادہ پُرانی بات نہیں بشمکل تین سال پہلے جب بینظیر کی دو مرتبہ حکومت بنی، جس بُری طرح اُس وقت کی اپوزیشن نے اُسکی ٹانگیں کھینچی کیا ہم اُس تکلیف دہ سچائی سے نظریں چُرا سکتے ہیں؟ کیا یہ بات ماننے کے قابل ہے کہ الیکشن ہارنے کا مطلب نواز شریف کے سیاسی وزن کا ہوا میں تحلیل ہو جانا ہے؟ عدالت کے اقامہ پر فیصلے کے بعد جس مہارت سے نواز شریف نے اقتدار میں رہتے ہوئے اپوزیشن کی پوری سیاست کو ہائی جیک کیا اور ملک کے سیاسی بیانیئے کو اپنی ذات کے ارد گرد بُنا، کیا اسکے بعد بھی یہ سوچنے کی گنجائش باقی ہے کہ الیکشن ہو جائیں گے اور ن لیگ کے علاوہ کسی کی بھی حکومت بن جائے گی اور چیزیں اپنی جگہ پر واپس چلی جائیں گی؟

یہ صرف ہمارے ساتھ ہی نہیں امریکہ کے پچھلے الیکشنز اور برطانیہ کے بریگزٹ پول میں بھی جس طرح لوگوں نے ووٹ استعمال کیا وہ تعصب کی قوت کو حتمی اور فیصلہ کُن ثابت کرتا ہے۔ کسی دلیل، اخلاقیات سے جُڑی تبلیغ یا اعداوشمار پر مبنی کوئی بھی سچائی لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں ناکام ہوتی ہم سب نے دیکھی۔ پاکستان میں چونکہ دو ہی آپشنز ہیں۔ یا تو ن لیگ جیتے گی یا نہیں جیتے گی۔ ہم یہ مان لیتے ہیں کہ ن لیگ نہیں جیتی۔ مگر اسکے بعد کیا؟  ن لیگ کے جیتنے کے بعد بھی حکمرانی تعصب ہی کی تھی ورنہ دوہزار چودہ کے دھرنے کی کوئی  حیثیت نا ہوتی۔ اب جبکہ ن لیگ ہار جائے گی تب بھی  حکمرانی تعصب ہی کی رہے گی۔ تو پٌھر آگے کیا؟

پاکستان میں ہرمعاشی اشاریہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پچھلے بیس سال میں ملک نے ہر حؤالے سے ترقی کی ہے۔ جی ڈی پی، فی کس آمدنی، بنیادی انفراسٹرکچر، صحت، تعلیم اور ماحولیات سے جُڑی قانون سازیاں، اشاریے اور حساسیت ، شہروںمیں تبدیلی کی حالت یہ ہے کہ بیس سال بعد آنے والا کوئی بھی رہائشی خود اپنے گھر کا راستہ بھی تلاش نہیں کر سکتا۔ مواصلات کے نظام، ملٹی سٹوری بلڈنگز، مالز، ہائپر مارکیٹس،  فیشن چینز، یہ سب کچھ اور بہت کچھ بیس سال پہلے کی حقیقت میں کہیں موجود ہی نہیں تھے۔ جو فیملیز موٹر سائیکل لینے کے لئے سال ہا سال بچت کرتی اور جب بائیک خریدتی تو مٹھائیاں بانٹتی وہاں آج سپلٹ اے سی، ایل ای ڈی  اور کم از کم دو بائیکس ایک ناقابل گفتگو حقیقت ہے۔  یہ  سب پاکستان کی ایک سچائی ہے۔

دوسری جانب ہر شہری حالات کا رونا روتا ہے۔ بنیادی سہولتوں کی نافراہمی کا نوحہ پڑھتا ہے۔ حکومتی مشینری کی نا اہلی اور کرپشن کے قصے سُناتا ہے۔بجلی، پانی، گیس، ہسپتال، تھانے اور دیگر درجنوں محکموں سے جُڑے مسائل پر شور مچاتا ہے۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان  میں کہیں وہ سیاسی حقیقتیں ہیں جنکے ذمے آگے کے سفر کی سمت اور طریقہ کار کا تعین ہے۔ الیکشن کے بعد آنے والی حکومت کے سامنے اسی سمت اور سفر کے طریقہ کار کا تعین سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ ایک طرف  نواز شریف اور ن لیگ جیسی اپوزیشن جماعت کا سامنا کرنا۔ دوسرا  اُن بنیادی سوالات کا جواب ڈھونڈنا جنہوں نے نواز شریف اور ن لیگ کو اقتدار کے ایوانوں سے باہر دھکیل دیا۔ ساتھ ہی ساتھ لوگوں کو اُنکی غیر حقیقت پسندانہ خواہشوں کی فراہمی کے لئے سامان فراہم کرنا۔ اور وہ بھی موبائ فون کمیونیکیشن کے اس دور میں۔ کیا اگلی  حکومت کی خواہش مند جماعتوں یا  شخصیات کو اس گمبھیر صورتحال کا اندازہ ہے؟ کیا انہیں یہ معلوم ہے کہ ماضی میں کوئی بھی حکومت عوام کے مطالبات کے مطابق ڈیلیور کیوں نہیں کر سکی؟اُنکے پاس وہ کون سا طریقہ ہے کہ جو کام پچھلے تیس سال میں ممکن نا ہو سکا وہ اب ہو جائے گا؟

بدقسمتی سے دونوں دھڑے یعنی آج کی اپوزیشن جسکی سربراہی نواز شریف پر ہے اور کل کی حکومت جسکی خواہشمند پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی ہے، کسی کی بھی جانب سےحالات کی سنگینی کا ادراک نظر نہیں آتا۔ ہم واپس اسی اور نوئے کی دہائی کے کنارے کھڑے ہیں۔ اگر عمران خان نے دوہزار چودہ سے ہی دھرنوں کا آغاز کر دیا تو کیا گارنٹی ہے کہ ن لیگ لانگ مارچ کے آپشن میں دیر لگائے گی؟ اگر بلوچستان کی اسمبلی راتوں رات اپنا قبلہ بدل سکتی ہے تو کیا گارنٹی ہے کہ دوبارہ ایسا کچھ کسی اور صوبے میں ممکن نہیں؟ جن قوتوں نے ہمیشہ  معلق اسمبلیوں کو استحکام کی ضمانت سمجھا، کبھی کسی بھی منتخب وزیر اعظم کو توجہ سے کام کرنے نہیں دیا۔ کس بنیاد پر نئی آنے والے حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس مرتبہ اُسکے ساتھ وہ سب کچھ نہیں ہو گا؟

اہل سیاست اور فکر کو اس صورتحال میں بریکنگ نیوز سنڈرو سے نکل کر آنے والے دنوں، ہفتوں اور مہینوں کی ممکنہ صورتحال پر غور کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم بامعنی مباحثے کا  آغاز نہیں کریں گے۔ ہمارے مقدر میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی اُتارچڑھاؤ ہی بار بار آتا  رہے گا۔ 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).