عینک اور اس کے مضافات


\"Sheraz-Chauhan\"

پچھلے دنوں جب نئی عینک بنوا کر آیا تو پہلا احساس یہ ہوا کہ ’دنیا میں واپسی پر خوش آمدید‘ حالانکہ بظاہر یہ 2 ٹانگوں، اور دو عدسوں والی معمولی سی چیز جو گلیلیو کی مرہون منت ہے کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں ہو سکتی اگر اس میں اس میں نذر کے شیشے نہ ڈلتے ، نذر اس لئے لکھا کہ میں اپنی عینک نذر عینک محل سے بنواتا ہوں اس کی ضرورت تب محسوس ہوتی ہے جب کوئی شخص ازل سے ہر قول و فعل پر گہری نظر رکھتا ہو جس کے بعد نذر کی ضرورت از خود محسوس ہو جاتی ہے ۔

بچپن سے مجھے بزرگوں کی ایک بات بہت عجیب لگی جی کرتا تھا کہ انہیں کھری کھری سناوں مگر بیشتر بزرگ اس لئے کچھ سن نہ سنت تھے کہ وہ سن نہ سکتے تھے اور طعن و تشنیع میں ماہر الخاص تھے جیسے ماہرین ہوتے ہیں یہ وہ ماہر تو نہ تھے مگر بوڑھوں کا اک گروہ جن کا مقصد صرف گزرے وقت کی اچھائیاں اور عصر حاضر کی برائیاں کرنا ہوتا ہے وہ لوگ دنیا میں باقی بھی صرف اسی لئے ہوتے ہیں باقی دنیا میں ان کا کوئی کام نہیں ہوتا ۔

ان بزرگوں کا خیال ہوتا تھا کہ نسل نو میں عینک لگنا ایک انتہائی مہلک مرض جس میں ایک رمز ہے اور وہ رمز بزرگی کے مرض کے الٹ ہے ! خیر میں اس بات کا قائل نہیں کہ نگاہ کی کمزوری اب کا کوئی مسئلہ ہے کیونکہ یہ اگر اب کا مسلہ ہوتا تو چاند کو دیکھنے کے لئے گلیلیو عدسے کو موقوف کر دیتا اور اسے رگڑنے کے بجائے شٹاپو کھیلنے پر اکتفا کرتا، کیونکہ چاند سے دور ستارے ہیں جنہیں دیکھنے کی ابتدا اسی سے ہوئی ، نسل نو والدین کو ستارے لحظہ بھر میں دکھا سکتے ہیں جس کے لئے دن یا رات کی بھی قید نہیں ہے تو ایسی صورت حال میں عینک کو دوش دینا قطعاً مناسب نہیں ہے ۔

عینک کے بارے میں کون نہیں جانتا ہر زی زاں کرنے والا شخص جانتا ہے کہ عینک کیا ہے مگر اس میں ایک جو نقص ہے کہ یہ محتاج ہے کان اور ناک کے حالانکہ ان کا پہلا سہارا کسی کا ناک ہوتا ہے مگر اس میں بھی وہی خامی ہے کہ کسی بے ناک کو بھی وہی سہولیات دیتی ہے جو ناک والے کو مہیا کرتی ہے پھر کان اگر نہ ہوتے تو ان کا گزر بسر کچھ مشکل تھا انہیں سہارا لینا پڑتا اور عصر حاضر میں مقولہ مشہور ہے کہ آسرا موت ہے سو عینک موت کی وادیوں تک سفر کرواتی ہے خواہ نظارہ کیسا ہی کیوں نہ ہو ۔

اکثر یہ سوال میرے ذہن کے مختلف ادوار وا کیے بغیر مجھے سوچنے پر مجبور کرتا ہےعینک کے بارے میں لکھنے والوں نے کچھ نہ لکھا حالانکہ سب سے پہلے اسی کے بارے میں لکھنا چاہیے تھا کہ یہ پڑھنے کے لئے اہم ہے اور لکھنے کے لئے اس سے بھی زیادہ اہم ہے باقی ایک اصول ذہن نشیں میں رکھیں جس طرح جو لوگ پیدائشی سن نہیں سکتے وہ کبھی بول بھی نہیں سکتے تو اسی طرح جو پڑھ نہیں سکتے ان کا لکھا بھی مو سا ہی ہو گا جس وہ خود آ کر پڑھے گا اور پڑھنے کے لئے ایک عدد عینک کی ضرورت ہوتی ہے المختصر اگر آپ عینک کو بے معنی سمجھتے ہیں تو زمانہ آپ کو بے پڑھ ہی سمجھے گا ۔

عینک کے متعلق صرف انور مسعود کے اشعار ہی میری نظر سے گزرے فرماتے ہیں ۔

لطف نظارہ ہے اے دوست اسی کے دم سے
یہ نہ ہو پاس تو پھر رونق دنیا کیا ہے

تیری آنکھیں بھی کہاں مجھ کو دکھائی دیتیں
میری عینک کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

یہ قطع بالکل درست ہے اور حقیقت پر مبنی مگر میں پوچھتا ہوں کسی اور شاعر یا ادیب کا جی کیوں نہ کیا کچھ اس کے بارے میں لکھے حالانکہ ادیب ہونے کے لئے عینک کا اہم کردار ہے کہ جب تک کوئی ادیب حواس خمسہ کو برقرار رکھے ہوئے عینک کا سارا بوجھ ناک کے نتھنوں پر ڈال کر گرد و نواح پر گہری نظر نہ رکھتے ہوئے شاعری یا نثر کی کتاب پر تصویر نہ لگائے تو ادیب کیسے اور کیونکر کہلائے؟ علاوہ ازیں میرا ماننا ہے کہ عینک وہ واحد شے ہے جس کی عدم موجودگی میں آپ دنیا سے کٹ سکتے آپ اگر عینک کے سوا بس یا ٹرین میں سوار ہو جائیں تو ماسوا کے سفر آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔

جس طرح عینک کے بغیر دھندلاہٹ کا احساس ہوتا ہے اسی طرح میری سائنس اور اس کے مضافات کے ممکنہ اور متفقہ علیہ شوریدہ سروں سے التماس ہے کہ عقل کے لئے بھی کوئی دمالہ بنائیں تاکہ دھند کا احساس کم ہو ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments