احمدیت کے بارے میں برداشت کی روایت کیوں ختم ہوئی؟


ڈاکٹر صوفی محمد ضیا الحق صاحب گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی کے صدر شعبہ تھے۔ وہ عربی زبان، بالخصوص عباسی عہد کی عربی کے بہت جید عالم تھے۔ اتنے بڑے عالم ہونے کے باوجود صوفی صاحب لکھتے نہیں تھے۔ جب کبھی طالب علم ان سے استفسار کرتے کہ آپ لکھتے کیوں نہیں ہیں تو صوفی صاحب بڑے مزے کا جواب دیا کرتے تھے۔ فرماتے قرآن حکیم میں اللہ نے کہا ہے اقرا۔ اللہ نے پڑھنے کا حکم دیا ہے، لکھنے کا نہیں اور میں پڑھ رہا ہوں۔

ایسے محترم اساتذہ کی باتیں ہم جیسے نالائق شاگردوں کا بہت بڑا سہارا ہوتی ہیں۔ دوست احباب اور شاگرد جب کبھی مجھ سے لکھنے کا تقاضا کرتے تو میں صوفی صاحب کا یہ جواب سنا کر جان چھڑا لیا کرتا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بعض دوستوں کی انگیخت اور وجاہت مسعود صاحب کی عنایت سے کچھ لکھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہم سب پر میری تحریریں تقریباً پانچ برس سے شائع ہو رہی ہیں۔ اس اشاعت برقی کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ قاری کے رد عمل سے فوری طور پر آگاہ ہو جاتے ہیں۔ میں ان تمام قارئین کا شکرگزار ہوں جنھوں نے بہت حوصلہ افزا رد عمل دیا۔ اس کے باوجود بعض اوقات یہ احساس ہوتا ہے کہ بعض قارئین کی نظر سے رد عمل دیتے وقت تحریر کا بنیادی نکتہ نظر انداز ہو جاتا ہے۔ ہم سب پر میری ایک تحریر بعنوان احمدیت: برداشت سے عدم برداشت تک شائع ہوئی تھی۔ اس تحریر میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ باوجودیکہ ختم نبوت اسلام کا اساسی عقیدہ ہے، کیا وجہ تھی کہ مرزا صاحب کی وفات کے تیس برس بعد تک بھی بڑے بڑے علما احمدیوں کو مسلمانوں کا فرقہ تسلیم کرتے رہے۔ یہی وہ بات تھی جو کمنٹس میں نمایاں نہ ہو سکی۔ اس وقت تک احمدیوں کے خلاف جو تحریریں چھپتی تھیں وہ ویسی ہی ہوتی تھیں جیسا کہ باقی مسلمان فرقے آپس میں کافر کافر کھیلتے تھے۔

گوپال کرشن گوکھلے

میں کوئی محقق نہیں بس آوارہ خوانی کی کچھ عادت ہے۔ ایک دن ڈاکٹر اختر النسا کی کتاب اقبال اور زمیندار مل گئی۔ ڈاکٹر صاحبہ کی کتاب کی غرض و غایت علامہ اقبال کے متعلق زمیندار اخبار میں جو کچھ شائع ہوتا رہا، اسے جمع کرنا ہے۔ انھیں احمدیوں یا ان کے عقاید سے کوئی واسطہ نہیں۔ تاہم مطالعہ کرتے وقت مجھے کچھ صفحات پر چونکنا پڑا کیونکہ مجھے پہلی بار یہ معلوم ہو رہا تھا کہ سن 1935 بلکہ اس کے بعد بھی بڑے بڑے علما اور اسلام کے علم بردار صحافی احمدیوں کا شمار مسلمانوں میں ہی کرتے رہے ہیں۔ میں ان کی کتاب سے اس بات کے چند شواہد پیش کرنا چاہتا ہوں۔

18 فروری 1912 کو اسلامیہ کالج کے حبیبیہ ہال میں مسٹر گوکھلے کے مسودہ لازمی تعلیم کی حمایت میں ہونے والے جلسے میں احمدیان لاہور کے مشہور مبلغ خواجہ کمال الدین نے یہ قرارداد پیش کی:

 مسلمانوں کا یہ عام جلسہ جبر کے اس عام اصول کی بڑے زور سے تائید کرتا ہے جو مسٹر گوکھلے نے اپنے مسودہ قانون تعلیم ابتدائی میں اختیار کیا ہے، اس لیے کہ یہ اصول، اسلام کے تابع ہونے کے علاوہ اس ملک کے باشندوں کی مادی اور اخلاقی فلاح کا ممد ہے۔ (ص 16)

25 اپریل 1920 کو امریکہ میں مسلمان مبلغین کے داخلے پر پابندی کے خلاف ایک جلسہ کا اعلان کیا گیا۔ اس جلسے کے داعیان میں علامہ اقبال اور مولانا ظفر علی خان کے ساتھ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ کا نام بھی درج ہے۔ بلکہ ان کا نام پہلے نمبر پر ہے۔ (ص 99 ) ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ کا تعلق احمدیان قادیان کے ساتھ تھا۔ وہ لاہور میں مسلمانوں کی تمام ثقافتی، سیاسی اور تعلیمی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتے تھے۔ اپنی وفات (1936 ) تک انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کے رکن رہے۔ وفات سے نو دس دن پہلے انجمن کی میٹنگ میں ان کا ختم نبوت کی تشریح پر کچھ اختلاف ہوا تھا لیکن اس کے باوجود ان کو انجمن سے نکالا نہیں گیا تھا۔ اس واقعے کی تفصیلات ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب زندہ رود جلد سوم کے صفحات 559-60 پر مندرج ہیں۔

مولانا ظفر علی خان

22  جنوری 1927 کو بعض آریہ سماجی اخبارات مثلا پرتاپ اور ملاپ کے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کا جواب دینے کے لیے ایک جلسہ عام کا اعلان شائع ہوا جس کے داعیان کے اسما کی فہرست میں ماسٹر فقیر اللہ صاحب، سیکریٹری احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کا نام بھی موجود ہے۔ (ص 100)

جب سوامی شردھانند کا قتل ہوا تو مسلمانوں کے خلاف ہندووں کے پروپیگنڈے میں بہت تیزی آ گئی جس کا جواب دینے کے لیے 22 جنوری 1927 کو موچی دروازے میں فرزندان توحید کا اجتماع ہوا۔ زمیندار اخبار کی رپورٹ کے مطابق “اس جلسے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ تمام فرقوں کے مسلمان اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کفر کے مقابلے میں اسلام کی عزت کی حمایت کے لیے دوش بدوش اور پہلو بہ پہلو بیٹھے ہوئے تھے۔ دیوبندی، حنفی، حزب الاحناف، شیعہ، احمدی، اہل حدیث، جدید تعلیم یافتہ؛ غرض تمام طبقوں اور فرقوں کے مسلمان موجود تھے۔” ص 106

خواجہ کمال الدین

29 جنوری 1927 کو مسلمانان لاہور کے جلسے کا اعلان شائع ہوا۔ اس جلسے کی صدارت علامہ اقبال نے کرنا تھی اور مقررین میں مولانا غلام مرشد اور مولانا محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور کے اسما درج تھے۔ ص 101

سماجی آریہ اخبارات مثلاً ملاپ اور پرتاپ نے مسلمانوں کے خلاف جو پروپیگنڈہ شروع کر رکھا تھا اس کا جواب دینے کے لیے 22 مارچ 1927 کو باغ بیرون موچی دروازہ میں ایک جلسہ عام کا اعلان شائع ہوا جس میں امید ظاہر کی گئی تھی کہ اس میں ہر طبقے کے مسلمان شریک ہوں گے۔ اس جلسے کے داعیان میں یہ لوگ شامل تھے:علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان، مولانا احمد علی وغیرہم کے ساتھ ماسٹر فقیر اللہ، سیکریٹری احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کا نام بھی شامل تھا۔ ص 100

4 مارچ 1927 کو اسلامیہ کالج کے حبیبیہ ہال میں مرزا بشیر الدین محمود نے سائنس اور مذہب کے موضوع پر تقریر کی۔ صدارت علامہ اقبال نے کی۔ (ص 23)

13 مئی 1927 کو لاہور کے ہندو، سکھ اور مسلمان نمائندوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی، مسلمانوں کے نمائندوں میں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ کا نام بھی درج ہے۔ ص 108

مولانا محمد علی (لاہوری جماعت)

انجمن حمایت اسلام کا سالانہ جلسہ تیس مارچ تا یکم اپریل 1923 کو منعقد ہوا۔ اس میں جن علما نے خطاب کرنا تھا ان کے اسمائے گرامی ملاحظہ ہوں:

سید سلیمان ندوی، مولوی ابوالوفا ثنا اللہ امرتسری، مولوی اصغر علی صاحب روحی، مولوی محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اور مولوی احمد علی امام مسجد دروازہ شیرانوالہ، لاہور۔ ان ناموں میں سب سے دلچسپ نام مولانا ثنا اللہ امرتسری کا ہے۔ وہ مرزا غلام احمد صاحب کے ساتھ مناظرے کرتے رہے تھے بلکہ مرزا صاحب کی زندگی کا آخری مناظرہ انھی کے ساتھ ہوا تھا۔ اس بنا پر انھیں فاتح قادیان کا لقب دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود مرزا صاحب کی وفات کے پندررہ برس بعد بھی امیر جماعت احمدیہ لاہور کے ساتھ جلسے سے خطاب کرنے میں انھیں کوئی عار نہیں تھا۔

مولانا ظفر علی خان کی 1926 کی نظم کا ایک مصرع ہے:

مجھ سے ناراض رضائی بھی ہیں، مرزائی بھی

مرزا صاحب کی وفات کو ایک سو تیرہ برس گزر چکے ہیں۔ ظاہر ہے احمدیوں نے اس عرصے میں کوئی نیا دعویٰ تو نہیں کیا ہو گا۔ چلیے اچھا ہوا کہ قومی اسمبلی نے انھیں غیر مسلم بھی قرار دے دیا۔ اس کے باوجود ہم ان کو گولی کا نشانہ بنا رہے ہیں، ان کی عبادت گاہوں کو مسمار کر رہے ہیں۔ میرا سوال صرف یہ ہے کہ اگر مرزا صاحب کی وفات کے تیس برس یا اس سے زاید عرصہ تک بھی مسلمان احمدیوں کے ساتھ امن و آشتی سے رہ رہے تھے، بھلے ان کے خلاف فتوے بازی بھی ہوتی رہتی تھی۔ اب ایسا کیا ہو گیا ہے کہ ہم ان کے ساتھ امن سے رہنے بلکہ ان کا وجود بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).