کیا اٹلی بھیجی جانےوالی پاکستانی لڑکی کا اسقاطِ حمل ہوا تھا؟


اٹلی کی رہائشی ایک 19 سالہ پاکستانی لڑکی کو چند روز قبل پاکستان کے شہر لاہور میں اس کے والدین کے گھر سے بازیاب کروا کر واپس اٹلی بھیجا گیا تھا۔

اطالوی میڈیا میں سامنے آنے والے بیانات کے مطابق لڑکی نے الزام عائد کیا تھا کہ اس کے والدین نے اسے گھر پر قید کر رکھا تھا اور اس دوران زبردستی اس کا حمل بھی گرایا گیا تھا۔

تاہم لاہور میں پولیس کے مطابق اسقاطِ حمل کے حوالے سے اطالوی میڈیا پر آنے والے اس بیان کی تصدیق ممکن نہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لڑکی کی والدہ نے اس حوالے سے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔

جبکہ لاہور کے گڑھی شاہو پولیس سٹیشن کے انچارج قیصر عزیز نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس کو دیئے گئے اپنے بیان میں لڑکی نے خود اس بات کی تردید کی تھی کہ اس کا بچہ گرایا گیا تھا۔

“اس کے محلے داوروں کا کہنا تھا کہ اس کا اسقاطِ حمل ہوا تھا تاہم مجھے دیئے گئے بیان میں لڑکی نے خود اس بات سے انکار کیا تھا کہ اس کا گھر پر زبردستی اسقاطِ حمل کیا گیا تھا۔”

ان کا کہنا تھا کہ لڑکی بہت قلیل مدت کے لیے پولیس کی تحویل میں رہی تھی اور میڈیکل یا طبی معائنہ کروانے سے اس نے خود انکار کر دیا تھا۔ بظاہر لڑکی کے جسم پر کوئی تشدد کے نشانات نہیں تھے اور نہ ہی اس نے اس کی شکایت کی تھی۔

قیصر عزیز کا کہنا تھا کہ لڑکی کو پنجاب کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن کے حکام کی موجودگی میں ان کے گھر سے بازیاب کروانے کے فوراً بعد ان کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر دیا گیا تھا جہاں سے انہیں اسلام آباد میں اٹلی کے سفارت خانے کے حکام کے سپرد کر دیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ چند روز اٹلی کے سفیر کے گھر قیام کہ بعد لڑکی کو جمعرات کے روز واپس اٹلی پہنچا دیا گیا تھا۔

اٹلی کے شہر ویرونا میں زیرِ تعلیم لڑکی نے لاہور سے اٹلی اپنی دوستوں کو پیغامات کے ذریعے بتایا تھا کہ رواں برس فروری میں ان کے گھر والے انھیں مبینہ طور پر زبردستی واپس پاکستان لے گئے تھے۔ دوستوں سے مدد کی اس اپیل میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں اٹلی واپس نہیں جانے دیا جا رہا تھا اور یہ کہ ان کی مرضی کے خلاف ان کا بچہ گرایا گیا ہے۔

بی بی سی سی بات کرتے ہوئے ان کی والدہ کا دعوٰی تھا کہ لڑکی نے انہیں حاملہ ہونے یا پھر اسقاطِ حمل کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا تھا اور “ہمیں اس حوالے سے کوئی علم نہیں۔”

تاہم ان کا کہنا تھا کہ لڑکی کے اٹلی میں “ایک مسیحی لڑکے کے ساتھ دوستی تھی اور ہمیں اس پر اس لیے اعتراض تھا کہ ایک تو وہ مسلمان نہیں تھا اور دوسرا لڑکے کا کردار ٹھیک نہیں تھا۔ وہ لڑکیوں کے ساتھ اسی طرح فلرٹ کرتا یعنی جھوٹی محبت جتلاتا تھا۔”

“ہم نے اپنی بیٹی سے اتنا تک کہہ دیا تھا کہ اگر وہ مسلمان ہو جاتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔”

ان کا کہنا تھا کہ لڑکی اپنی مرضی سے ان کے ساتھ پاکستان آئی تھی اور تین ماہ انتہائی خوشی سے یہاں رہتی رہیں۔ انہوں نے اپنے کزنز کی شادیوں میں بھر پور شرکت کی جس کی ویڈیو اور تصاویر بھی موجود تھیں۔

پنجاب کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن کی چیئرپرسن فوزیہ وقار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ لڑکی کو بازیاب کروانے کے لیے پولیس کے ہمراہ گئیں تو ان کا اندازہ یہ تھا کہ اس کا اسقاطِ حمل اٹلی میں ہوا تھا۔

“تاہم لڑکی نے ایسی کوئی شکایت نہیں کی اور نہ ہی ہم نے خود سے اس معاملے کی زیادہ چھان بین کی تھی کیونکہ ہمارے پاس تو یہ شکایت آئی تھا کہ اسے اس کی مرضی کے خلاف گھر پر رکھا گیا تھا جس پر ہم نے کارروائی کرتے ہوئے اس کو بازیاب کروایا۔”

ان کا کہنا تھا کہ لڑکی گھر میں قید نظر نہیں آئی حتکہ کہ اس کے کمرے کا دروازہ بھی بند نہیں تھا۔ اس کو پوچھا گیا کہ اسے قید رکھا گیا ہے تو اس نے اس بات کی تردید کی تو ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیا چاہتی تھیں۔

“تو لڑکی نے بتایا کہ وہ واپس اٹلی جانا چاہتی تھیں اور اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتیں تھیں۔ وہ بالغ تھیں اور ان کی مرضی کے مطابق انہیں واپس بھجوایا گیا۔”

لڑکی اطالوی شہری نہیں تھی تاہم ان کے پاس اٹلی کے مستقل رہائشی ہونے کا کارڈ موجود تھا جس پر وہ کسی بھی وقت اٹلی آنے اور جانے کا حق رکھتیں تھیں۔ پولیس کے مطابق انہیں جلد اٹلی کے شہریت ملنے والی تھی۔

لڑکی کی والدہ کا کہنا تھا پولیس اور دیگر حکام نے تمام عمل ا س قدر تیزی میں کیا کہ ان سے ان کی رائے جاننے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ تاہم پولیس کا کہنا تھا کہ لڑکی کو اس کے والدین کے ساتھ وقت دیا گیا تھا تاہم وہ اپنی مرضی سے اٹلی واپس جانے پر بضد رہیں۔

پولیس کے مطابق لڑکی کے لیے نیا پاسپورٹ بنوایا گیا تھا کیونکہ ان کے سفری دستاویزات لڑکی کے والدین کے پاس سے نہیں ملے۔ تاہم لڑکی کی والدہ کا کہنا تھا کہ ان سے پاسپورٹ مانگا ہی نہیں گیا۔

انہوں نے یہ بھی دعوٰی کیا کہ لڑکی جاتے ہوئے اپنے والد کا اٹلی کا پرماننٹ ریزیڈنٹ کارڈ بھی ساتھ لے گئی تھی تا کہ وہ اس کے پیچھے نہ آسکیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا وہ اپنی بیٹی کی تحویل کے لیے جلد واپس اٹلی جانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے پہلے ہی سے اٹلی میں وکیل کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp