جب خانہِ کعبہ میں ایک شخص مہدی بن بیٹھا


سعودی فوج کو مشورہ دینے والوں میں بھی، جن میں پاکستانی اور امریکی شامل تھے، شدید اختلاف رائے تھا۔ اس اختلاف کی وجہ سے بھی کئی سعودی فوجی مارے گئے تھے۔ ایک دن وزیرِ دفاع سلطان نے چند سعودی فوجیوں کو ایک خود کش ہیلی کاپٹر کی رسیوں سے خانہِ کعبہ کے صحن میں اتر کر باغیوں سے مقابلہ کرنے کا حکم دیا لیکن باغیوں نے انہیں اپنی بندوق کی گولیوں سے بھون دیا۔ جب وزیرِ دفاع اپنی کوششوں میں ناکام رہا تو اس نے شہزادہ ترکی کو باغیوں سے مقابلے کی پوری ذمہ داری سونپ دی۔

ترکی الفیصل نے ایک ایسا منصوبہ بنانے کی کوشش کی جس میں خانہِ کعبہ میں کم از کم جانوں کا نقصان ہو۔ اس نے بن لادن خاندان سے رابطہ قائم کیا کیونکہ وہ خاندان ایک طویل عرصے سے خانہِ کعبہ کی مرمت کر رہا تھا اور اس عمارت کے تہہ خانوں کے رازوں سے واقف تھا۔ اس نے بن لادن خاندان سے خانہ کعبہ کے نقشے منگوائے۔

جس وقت ترکی الفیصل باغیوں سے مقابلے کی تیاری کر رہا تھا باغی خانہِ کعبہ کے لائوڈ سپیکروں سے تقریریں کر رہے تھے اور مسلمانوں کو مہدیِ موعود کے آنے کی خوش خبری دے رہے تھے۔ اس وقت تک سارے شہر میں ہی کیا سارے ملک اور سارے عالمِ اسلام میں ایک عجیب سنسنی خیز خوف و ہراس کی لہر دوڑ چکی تھی۔

باغیوں سے مقابلے کے چوتھے دن سعودی فوجی خانہِ کعبہ میں داخل ہوئے اور باغیوں پر حملہ آور ہوئے۔ چاروں طرف خون ہی خون تھا۔ خانہ کعبہ میں جو باغی قتل ہوئے ان میں محمد بن عبداللہ القحطانی بھی شامل تھا۔ اس وقت تک خانہِ کعبہ میں گلی سڑی لاشوں کی بدبو پھیل چکی تھی۔ مہدی موعود کے قتل کے بعد بھی باغیوں نے ہتھیار نہ ڈالے۔

حالات کا بہتر جائزہ لینے کے لیے ترکی الفیصل نے فوجی وردی پہنی اور اپنے بھائی شہزادہ سعود، سالم بن لادن اور ایک حفاظتی دستے کے ساتھ خانہِ کعبہ میں داخل ہوا۔ ترکی تو یہ اندازہ تو ہو گیا تھا کہ باغی خانہِ کعبہ کے تہہ خانوں میں چھپے ہوئے تھے لیکن اسے بالکل اندازہ نہ تھا کہ وہ وہاں کب تک چھپ کر حملے کر سکتے ہیں۔ ترکی کے حکم سے لاشوں کو خانہِ کعبہ سے نکال کر کسی محفوظ مقام تک پہنچا دیا گیا۔

ترکی الفیصل کو اندیشہ تھا کہ اگر باغی کامیاب ہو گئے تو سعودی حکومت کا تختہ الٹ جائے گا۔ خانہِ کعبہ جس میں صدیوں سے دن رات مسلمان طواف کرتے رہتے تھے بالکل اجاڑ ہو گیا تھا۔ ترکی نے آسمان کی طرف دیکھا تو اسے بہت سے کبوتر خانہ کعبہ کا طواف کرتے دکھائی دیے۔

ترکی کو چند ماہرین نے مشورہ دیا کہ خانہ کعبہ کے تہہ خانوں کو پانی سے بھر دیا جائے اور پھر پانی میں برقی لہر دوڑا دی جائے لیکن اس مشورے پر عمل کرنا آسان نہ تھا۔ اس کے لیے پانی کی نہایت کثیر مقدار درکار تھی جسے حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ ایک اور مشورہ یہ تھا کہ خانہِ کعبہ کے تہہ خانوں میں ایسے کتے دوڑائے جائیں جن کے جسموں کے ساتھ بارودی بم باندھے گئے ہوں اور پھر ان بارودی بموں کو ریموٹ کنٹرول سے اڑا دیا جائے۔ لیکن خانہِ کعبہ میں ناپاک کتے بھیجنا آسان نہ تھا۔

ترکی کو جب کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے فرانسیسی کمانڈروں اور امریکی سی آئی اے کے نمائندوں سے رابطہ کیا جو طائف شہر میں سعودی فوجیوں کی ٹریننگ کر رہے تھے۔ فرانسیسی کمانڈر نے مشورہ دیا کہ خانہ کعبہ کے تہہ خانوں میں زہریلی گیس چھوڑی جائے۔ ترکی کی خواہش تھی کہ گیس اتنی زیریلی ہو کہ باغیوں کو بے ہوش کر دے لیکن اتنی زہریلی نہ ہو کہ انہیں ہلاک کر دے۔ اس منصوبے پر عمل کرنے کے لیے تین فرانسیسی فوجی مکہ آئے لیکن چونکہ مکہ میں غیر مسلموں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں اس لیے پہلے ان فرانسیسیوں کو مسلمان بنایا گیا پھر مکہ میں لایا گیا۔ فرانسیسی فوجیوں نے خانہِ کعبہ کے تہہ خانون میں زہریلی گیس چھوڑی لیکن اس گیس کا کوئی اثر نہ ہوا اور باغی اپنے مورچوں میں ڈٹے رہے۔

جب خانہ کعبہ کے صحن میں انسانی لاشوں کے انبار بڑھنے لگے تو سعودی فوجیوں نے خانہِ کعبہ کے تہہ خانوں کی دیواروں میں سوراخ کیے اور بم گرینیڈ پھینکے۔ پھر وہ حملہ آور ہوئے اور انہوں نے باغیوں کو بے دردی سے قتل کیا۔

العتیبی

آخر دو ہفتوں کے محاصرے کے بعد باغیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس حملے میں جو باغی زخمی ہوئے ان میں العتیبی بھی شامل تھا۔ اسے ہسپتال بھیج دیا گیا۔ خانہِ کعبہ سے رخصت ہوتے وقت اس کی داڑھی اور بال وحشیوں کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔ جب ترکی الفیصل العتیبی سے ملنے ہسپتال گیا تو العتیبی نے بستر سے چھلانگ لگا کر ترکی کا ہاتھ پکڑا اور اسے بوسہ دیتے ہوئے کہا ’بادشاہ سلامت سے درخواست کرو کہ مجھے معاف کر دیں، پھر وہ زارو قطار رویا اور روتے ہوئے کہنے لگا ’میں دوبارہ ایسی حرکت نہیں کروں گا، العتیبی کی گفتگو سن کر ترکی الفیصل حواس باختہ ہو گیا۔ اسے کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا کہے۔ اسے کچھ ہوش آیا تو اس نے العتیبی سے کہا ’تم نے معافی مانگنی ہے تو خدا سے معافی مانگو،

ایک اندازے کے مطابق ان دو ہفتوں کی جنگ میں 255 حاجی اور باغی اور 167 سعودی فوجی مارے گئے اور 560 باغی اور حاجی اور 451 فوجی زخمی ہوئے۔

اس جنگ کے دوران کئی اسلامی ممالک میں امریکہ کے خلاف ہنگامے ہوئے کیونکہ ایران کے مذہبی رہنما آیت اللہ خمینی نے ریڈیو پر اعلان کیا کہ اس بغاوت کے ذمہ دار امریکہ اور اسرائیل ہیں۔

سعودی حکومت نے العتیبی اور اس کے باسٹھ پیروکاروں کو سزائے موت دی اور 9 جنوری 1980 کو آٹھ شہروں میں بر سرِ عام ان کے سر قلم کر دیے گئے تا کہ سعودی حکومت سے بغاوت کے بارے میں سوچنے والوں کو عبرت حاصل ہو۔
سعودی عرب کی تاریخ میں پہلے کبھی ایک دن میں اتنے لوگوں کے سر قلم نہ کیے گئے تھے۔
May 26, 2018


اسی بارے میں

حرمین الشریفین پر حملوں کے دو واقعات

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail