سچائی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ


سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بعد اب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی ’ٹروتھ کمیشن‘ بنانے اور 1947 سے لے کر اب تک قوم کو پیش آنے والے سانحات کے بارے میں سب سچ قوم کے سامنے لانے پر اصرار کیا ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹینٹ جنرل (ر) اسد درانی اس وقت اپنے ہم منصب بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ ملک کر کتاب لکھنے اور اس میں بعض ان کہی باتیں بتانے پر سخت تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اسد درانی کو اب جی ایچ کیو طلب کیا گیا ہے تاکہ وہ اس کتاب کے بارے میں اپنا مؤقف بیان کرسکیں۔ اس بلاوے کی وجہ ممبئی حملوں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کے بارے میں 12 مئی کو دئیے گئے نواز شریف کے بیان پر فوج کے سخت ردعمل اور اب اسد درانی کی کتاب پر سیاستدانوں کی ناراضی بھی ہو سکتی ہے تاکہ اس بحث کو سمیٹنے کا اہتمام کیا جاسکے۔ لیکن نواز شریف کا بیان ہو یا اسد درانی کے انکشافات، بنیادی سوال یہ ہے کہ قومی تاریخ کے بعض پہلوؤں پر بات کرنا اور انہیں قبول کرنا کیوں مشکل بنا دیاگیا ہے۔ ملک کی وہ کون سی قوتیں ہیں جنہیں ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کے ذکر سے اندیشے لاحق ہوجاتے ہیں اور سچ بولنے والی آوازوں کو دبا کر بحیثت قوم ہم کون سا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کیا پاکستان میں اسد درانی کی کتاب پر پابندی لگا کر یا ان کی سرزنش کرنے سے اور بھارت میں کتاب کے اجرا کے موقع پر اسد درانی کو ویزا دینے سے انکار کرکے سچائی کو دبایا جاسکے گا ۔ اور کیا سرحد کے دونوں طرف حکمرانوں کی طرف سے سچ کو دبا کر دشمنی پالنے کوہی قومی مفاد قرار دیاجاتا رہے گا۔ اس اندھی اور بلا جواز دشمنی کو نئی نسلیں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اب سچ سامنے لانے اور غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بات کرنے والے لیڈر ہی عوام کی آواز بن سکتے ہیں۔

پاکستان میں اگر واقعات کی سچائی تک پہنچنے کے لئے کمیشن بنانے اور ان کے نتیجہ میں سامنے آنے والی بے یقینی کی تاریخ دیکھی جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہو گا کہ جب بھی اس ملک کو کوئی سانحہ پیش آیا تو اس کی جانچ پڑتال اور سچ سامنے لانے کے لئے کمیشن بنانے کا اہتمام کیا گیا ۔لیکن اس قسم کے کمیشن کی رپورٹ کبھی منظر عام پر نہیں لائی گئی۔ ان رپورٹوں کے مندرجات کے بارے میں غیر مصدقہ اطلاعات اور غیر سرکاری طور پر سامنے آنے والی معلومات کی بنیاد پر ہی مباحث کئے جاتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے سقوط ڈھاکہ کے بعد بننے والے حمودالرحمٰن کمیشن اور 3مئی 2011 کو ایبٹ آباد پر امریکی حملہ میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر بننے والا ایبٹ آباد کمیشن شامل ہیں۔

حکومتوں نے یہ کمیشن بنا تو دئیے لیکن ان کی رپورٹوں کو منظر عام پر لانے سے گریز کیا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ ان رپورٹوں میں ایسا کوئی دھماکہ خیز مواد یا انکشاف موجود نہ ہوں جس کے بارے میں لوگوں کو پہلے ہی معلومات فراہم نہ کردی گئی ہوں لیکن کثیر قومی وسائل صرف کرکے ایک بڑے سانحہ پر کمیشن بنانے اور اس کے بعد اس کی رپورٹ کو صیغہ راز میں رکھنے سے ضرور اندیشے اور شبہات جنم لیتے ہیں۔ اس طرح تاریخ کے واقعات کو تسلسل میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ اور غیر مصدقہ معلومات کی بنیاد پر رائے قائم ہونے سے غلط فہمیاں اور دوریاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن قومی مفاد کے نام پر فیصلے کرنے والے معلومات تک رسائی کے اس دور میں مسلسل اس بات پر اصرار کررہے ہیں کہ بعض معاملات قومی حساسیت کے حوالے سے ’ریڈ لائن ‘ میں آتے ہیں، اس لئے انہیں بیان کرنا درست نہیں۔ جب بھی کوئی شخص ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے خلاف شدید رد عمل دیکھنے میں آتا ہے۔ اگر وہ شخص نواز شریف کی طرح سویلین ہو تو فوج قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلا کر اپنی ناراضی کا اظہار کرتی ہے اور عام لوگ اور مبصر اس ناراضی کو حتمی انجام تک پہنچانے کے لئے غداری اور ملک دشمنی کے فتوے ارزاں کرنا شروع کردیتے ہیں۔ تاہم اگر وہ شخص کوئی سابق جنرل ہو تو غداری یا ملک دشمنی کے فتوے تو سننے میں نہیں آتے لیکن اس کی جوابدہی ضروری سمجھی جاتی ہے۔

نواز شریف پر تنقید کرنے والے لوگ ہوں یا اسد درانی کی کتاب پر نواز شریف کی سخت کلامی ہو۔ یا سینیٹ کے سابق چئیرمین رضا ربانی کا یہ غصہ کہ ’ ایسی بات کوئی سیاست دان کرتا تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا‘۔ اس سے ماضی کے بارے میں سچ بولنے کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی۔ افسوس نواز شریف جو اب قومی رازوں سے پردہ اٹھا کر سیاست میں فوجی مداخلت کا راستہ بند کرنا چاہتے ہیں اور رضا ربانی جو اس ملک میں جمہوریت اور پارلیمنٹ کی برتری کے لئے جد و جہد کرنے والی ایک معتبر شخصیت ہیں ۔۔۔۔ دونوں ہی یکساں طور سے اسد درانی کے خلاف بیان دیتے ہوئے یہ بتانے سے قاصر رہے ہیں کہ کیا وہ سچ بتانے چاہئیں جنہیں اب تک جان بوجھ کر قوم سے پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ اور کیا اسد درانی نے ایسی کوئی بات کہی ہے جو پہلے سے معلوم نہیں تھی اور جس پر بات کرنے اور رائے بنانے کی ضرورت نہیں تاکہ ادارے مناسب طریقے سے فیصلے کرنے کے قابل ہو سکیں ۔اور عام لوگ قیاس آرائیوں ، افواہوں اور ’سینہ گزٹ‘ پر یقین کرنے کی بجائے سچ کا سامنا کریں اور اس کے مطابق اپنی رائے تیارکریں۔

دونوں سیاسی لیڈروں کا احتجاج درست ہونے کے باوجود نامکمل ہے اور اس سوال کا جواب سامنے لانے سے قاصر ہے کہ کیا ماضی میں اختیار کی گئی قومی پالیسیوں کے حوالے سے بات کرنا اور بعض سچائیوں کو ریکارڈ پر لانا اتنا بڑا جرم ہے کہ شہری آزادیوں کی بات کرنے والے سیاست دان بھی اسد درانی کے حق اظہار کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ان دونوں سیاست دانوں کا رد عمل دراصل فوج کے خلاف غصہ کا اظہار ہے لیکن اگر وہ خود اپنے بیانات پر غور کریں تو ان کےذریعے وہ ایک فرد کے حق اظہار رائے پر بات کرتے ہوئے اس اصول کو مستحکم کرنے کا سبب بنے ہیں کہ اس قوم کے ماضی کی باتیں کرتے ہوئے بعض ریڈ لائینز عبور کرنا منع ہے۔ اگر یہ اصول اب بھی ہمارا قومی منشور ہے تو کوئی سچائی کمیشن بننے سے سرکاری ریکارڈ آفس میں چند مزید فائیلوں کا اضافہ کرنے سے کیا مقصد حاصل کیا جاسکے گا۔

 ضرورت تو اس بات کی ہے کہ نواز شریف بھی اپنا نامکمل سچ پورا بیان کریں، اسد درانی کو بھی بات کرنے دیں اور اسی طرح جو دوسرے لوگ ریڈ لائن کے خوف سے خاموش ہیں ، وہ بھی ان سچائیوں کو سامنے لائیں جن سے وہ آگاہ ہیں تاکہ اس قوم کو ماضی میں کی گئی ان غلطیوں کا پتہ چل سکے جن کا خمیازہ اب تک بھگتا جارہا ہے۔ اگر سچ بولنے اور اسے قبول کرنے کے اس رویہ کو تسلیم نہیں کیا جائے گا تو اس سے تو صرف یہی سمجھا جائے گا کہ فوج ہو کہ سیاست دان ، وہ ابھی تک ماضی کے واقعات کو ایک خاص فلٹر سے دیکھنا اور دکھانا چاہتے ہیں۔ یعنی ماضی کی غلطیوں کا ذکر کرنا اور ان سے سبق سیکھنا منع ہے۔ ایسے ماحول میں اس مزاج کے ساتھ کوئی ٹروتھ کمیشن کیوں کر اس قوم کی آنکھیں کھولنے کا کردار ادا کرسکے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali