یہ کوئی جاسوسی کہانی ہے؟


پاکستان میں ایک بڑی تعداد کا بچپن عمران سیریز کی جاسوسی کہانیوں کے کرداروں کے ساتھ گزرا، ابن صفی کی تخلیق اتنی مقبول ہوئی کہ ان کرداروں کو پڑھنے والوں کیلئے زندہ رکھنے کی خاطر مصنف کے بستر مرگ پر جانے کے بعد نئے خالق تیار کرلیے، ان میں مظہر کلیم نے ابن صفی کو نا صرف زندہ کردیا بلکہ نئے کردار متعارف کرا کے اپنی جگہ بھی بنا لی۔ اور پھر یوں جاسوسی کی دنیا ویران ہونے سے بچ گئی، یہ سلسلہ چلتا رہا۔

یہ قصے ستر اور اسی کی دہائیوں کے ہیں، انہیں دنوں میں ملک کے اندر جاسوسی کی ایک حقیقی دنیا بھی آباد تھی، سوویت یونین ، امریکہ کی لڑائی میں کئی عالمی کردار پاکستان میں بھی سرگرم تھے۔ پڑوسی ملک کے ساتھ مختلف محاذوں پر ایک بھرپور خفیہ جنگ لڑی جا رہی تھی۔ بلکہ کسی حد تک آج تک جاری ہے۔

فوجی ادوار ہوں یا پھر سویلین حکومتیں سرحد کے دونوں جانب یہ خفیہ نقل وحمل شاید ان ریاستوں کی ضرورت بن گئی۔ جسے یہ پڑوسی اپنے لیے اب ناگزیر تصور کرتے ہیں۔

جاسوسی کی اس دنیا کی بے شمار کہانیاں ہیں، جن سے بہت کم پردہ اٹھا اور اگر کچھ حقائق کبھی منظرعام آئے بھی تو ان کے پس منظر میں سیاسی یا بہت حد تک دفاعی حکمت عملی کا زیادہ عمل دخل رہا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ سچ سامنے بہت کم آئے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس عمل کا بوجھ اٹھانے کی ذمہ داری کوئی لینے کو تیار نہیں ہو سکتا۔

ماضی میں روس اور امریکہ کے جاسوسوں نے کئی اہم رازوں سے پردے اٹھائے جن پر سفارتی اور دفاعی محاذوں پر تلخی پیدا ہوگئی۔ دونوں بڑی طاقتیں کئی بار ایٹمی جنگ کے دھانے تک بھی پہنچ گئیں

پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری جاسوسی کی اس جنگ میں دونوں ممالک کے اب تک کے تلخ وشیریں تعلقات کے دوران بے شمار مواقع آئے جب ایک دوسرے کے جاسوس پکڑے جانے پر کشیدگی کی سطح بڑھتی رہی۔ جاسوسی کی یہ دنیا سیاست کے محاذ پر بھی اتنی ہی زیادہ سرگرم رہی، جتنی دفاعی یا سفارتی محاذوں پر تھی۔

اسی کی دہائی میں پیپلزپارٹی مخالف سیاسی اتحاد بنانے کی اہم ذمہ داری نبھانے والے اسد درانی پچھلے پچیس سال میں بے شمار بار سیاست بلکہ عدالتوں میں موضوع بحث بنتے رہے، لیکن یہ شاید کسی سیاسی جماعت حتیٰ کہ اہم ریاستی ادارے کے گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ان کا حصہ رہنے والا یہ سابق جنرل حریف ملک کی فوج کے ایک سابق ہم منصب سے ہاتھ ملا کر اہم قومی رازوں کو بے نقاب کرنے کا انقلابی قدم اٹھائے گا۔ انقلابی شاید اس لیے کہ جب انقلاب لانے کی کوشش ہوئی اس وقت سب طاغوتی قوتوں کے کاسہ لیس تھے اور اب ایسے دور میں جب نہ سیاست کوئی نظریہ رہی اور نہ نظریات کا کسی کو خاص علم ہے، ایسے میں صرف مفادات پر زد پہنچنے پر انقلابی سوچ کا لفظی اظہار دیکھنے میں آجاتا ہے۔

جاسوسی کی دنیا کے دو “ہیرو” نہ جانے کسی فلم کیلئے کہانی لکھ رہے تھے یا پھر انہیں سچ بولنے کا دورہ پڑا۔ لیکن ہم سچ بھی محض سچ کی خاطر نہیں بولتے ،صورتحال بھی بڑی غیرمعمولی ہے، جس میں دشمن کے ساتھ بیٹھ کر “سب کہہ دو” کے اعترافی انداز میں بیان کر دیا۔

رازوں سے پردے ہٹانے کی ٹائمنگ جیسے کوئی سیاسی مقصد ظاہر کرتی ہے لیکن اس میں بھارتی افسر کا تعاون معاملے کو زیادہ پیچیدہ بنا رہا ہے، اسد درانی کے معاملے میں جذباتیت کا پہلو زیادہ پایا جاتا ہے، اے ایس دُلت پھر بھی اپنے جاسوسوں کا دفاع کرتا دکھائی دیتا ہے۔

جاسوسی کی دنیا کے دونوں پنڈتوں نے بھی شاید عمران سیریز کے ناول پڑھے تھے کہ انہیں اس کتاب کو لکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔

دونوں ایک طرف تو اس سب کچھ کا اعتراف بھی کرتے رہے جن کے وہ ذمہ دار تھے اور اپنے تجربے کی بنیاد پر بعد کے ادوار کا بھی انکشاف کرتے رہے۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری عمل کو ناصرف پاگل پن قرار دیا بلک اس ماحول کو ختم کرنے اور دونوں ممالک کے عوام کیلئے ایک پرامن زندگی کی خواہش کااظہار بھی کر گئے۔ اتنی سچی اور اتنی اچھی باتیں کچھ پلے نہیں پڑ رہیں۔ آخر اتنا زیادہ پرامن سوچ کہاں سے آگئی۔ شکوک مزید جنم لیں گے شاید ان میں کمی نہ آئے۔ کیا دونوں کے ہم منصب موجودہ افسروں کو یہ باتیں ہضم ہوجائیں گی۔ ان کے لیے بھی نئی پریشانی کا سامان پیدا کر دیا۔ اب یہ تو ممکن نہیں وہ جس دنیا میں رہتے ہیں اس میں اپنا کردار تبدیل کرلیں۔ یہ کوئی ابن صفی یا مظہر کلیم کی عمران سیریز تھوڑی ہے۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar