جسٹس ناصرالملک وکلا حلقوں میں “انگلش جج” کے لقب سے جانے جاتے ہیں


سوات سے تعلق رکھنے والے سابق چیف جسٹس ناصر الملک کے خاندان کے لوگ سیاست میں تھے۔ ناصر الملک کے والد اور بھائی سینیٹر رہے۔ سترہ اگست 1950 میں پیدا ہونے والے ناصرالمک نے ایک غیر ملکی خاتون سے شادی کی ہے۔

وکلا کے حلقوں میں ناصر الملک کو ‘انگلش جج’ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ انتہائی کم گو اور نفیس شخصیت کے مالک ناصرالملک کے بارے میں پہلا بڑا تنازع اس وقت سامنے آیا جب جاوید ہاشمی نے عمران خان کے حوالے سے ان پر الزام لگایا کہ وہ جوڈیشل مارشل لا لگائیں گے۔ عدالت میں ناصرالملک نے اس کی مختصر سی وضاحت کی کہ وہ عمران خان سے صرف ایک بار ملے تھے جب وہ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر تھے اور یہ ملاقات ان کے وکیل حامد خان کی خواہش اور درخواست پر ہوئی تھی اور اس میں دیگر افراد بھی موجود تھے۔

میڈیا سے دور رہنے والے ناصرالملک نے عدالتی تقاریب میں بھی صحافیوں سے فاصلے رکھے اور ایک موقع پر جب تقریب کے دوران کچھ ججوں نے بعض رپورٹرز سے بے تکلفی سے ہنسی مذاق کیا تو جسٹس ناصرالملک نے اپنے قریب کھڑے ہم مزاج جسٹس اعجاز افضل سے کہا تھا کہ ‘ہم چلتے ہیں پریس کانفرنس شروع ہو گئی ہے’۔ یہ بات کئی لوگوں نے سنی۔

ناصرالملک نے بطور چیف جسٹس کوئی سو موٹو ایکشن نہیں لیا۔ ان چار ججوں میں شامل تھے جنہوں نے فیصلہ دیا تھا کہ آئینی ترمیم کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ دوران سماعت کئی مواقع پر کئی ساتھی ججوں سے اختلاف کیا اور ان کے غیر متعلقہ سوالات پر ناخوشی کا اظہار کیا۔ ان میں موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار بھی شامل ہیں جن کو ناصر الملک نے عدالت میں غیرمتعلقہ سوال کرنے پر ٹوکا۔

عمران خان کے انتخابی دھاندلی کمیشن میں ان کے وکیل عبدالحفظ پیرزادہ کے طویل دلائل ہوں یا کسی عام سے مقدمے میں غیر معروف وکیل کی باتیں، ناصرالملک ہمیشہ سب کو خندہ پیشانی اور سکون سے سن کر فیصلہ دیتے۔ ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ جج تھے جن کے فیصلے بولتے تھے۔ تاہم لاپتہ افراد کے مقدمے میں ان کی عدالت بھی دیگر تمام ججوں کی طرح ناکام رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).