نگران وزیر اعظم پر خوش آئند اتفاق رائے


وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے سابق چیف جسٹس ناصر الملک کو ملک کا نگران وزیر اعظم بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ اس طرح موجودہ منتخب حکومت کی مدت پورے ہونے سے چند روز پہلے غیر یقینی کی صورت حال کو ختم کرنے پر حکومت اور اپوزیشن کی سب جماعتوں کے لیڈر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ جسٹس ناصر الملک کا نام غیر متنازع ہے اور سب عناصر ان کی غیر جانبداری اور سیاسی عدم وابستگی کی تعریف کررہے ہیں۔ اسی طرح انہیں ایک اچھا جج اور بہتر منتظم بھی بتایا جا رہا ہے۔ جسٹس ناصر الملک ایک ایسے وقت میں ایسے انتخابات کی نگرانی کرنے والی حکومت کے سربراہ ہوں گے جن کے بارے میں بے شمار تنازعات، تحفظات اور شبہات جنم لے چکے ہیں۔ شک و شبہ کی یہ فضا صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان ہی موجود نہیں ہے بلکہ عام لوگ بھی اس حوالے سے شدید پریشانی اور بے یقینی کا شکار ہیں۔ گزشتہ ایک برس کے دوران نواز شریف کو وزارت عظمی سے برطرف کرنے کے بعد ان کے خلاف بد عنوانی کے مقدمات چلانے کے اقدام کے بعد سے یہ تاثر قوی ہؤا ہے کہ قومی سیاست سے مسلم لیگ (ن) کو باہر کرنے کے لئے نواز شریف کو کمزور اور غیر مؤثر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

 نواز شریف اور ان کے سیاسی ساتھیوں نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ ان کی حکومت کے خلاف اقدام دراصل ایک سازش کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ دنوں نواز شریف نے اس سازش کی تفصیل بتاتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ انہیں دراصل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنے کی سزا دی گئی ہے۔ نواز شریف کے اس مؤقف پر شدید سیاسی اختلاف رائے موجود ہے لیکن ملک میں سیاسی معاملات کی شکست و ریخت سے اس بات کی تصدیق ہورہی ہے کہ عسکری ادارے 25 جولائی کو منعقد ہونے والے انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سامنے آنے والی قیاس آرائیوں کے مطابق اس ممکنہ منظر نامہ میں نواز شریف کی سیاسی قوت کا مکمل خاتمہ شامل ہے۔ اس مقصد کے لئے ایک ایسی قومی اسمبلی منتخب کروانے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں کسی ایک پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہ ہو سکے۔ تاکہ درپردہ سیاسی رفو گری کرنے والے عناصر ایک ایسی حکومت قائم کروانے میں کامیاب ہو سکیں جو منتخب ہونے کے باوجود اتنی مستحکم نہ ہو کہ ریاست میں طاقت کے مراکز کو کنٹرول کرنے اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے پر مجبور کرسکے۔ اگرچہ ملکی سیاست میں طاقتور ریاستی اداروں کی مداخلت کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس بار جس شدت سے اس معاملہ پر گفتگو کا آغاز ہؤا ہے اور اعلیٰ ترین سطح سے جس طرح فوج کی نیک نیتی پر سوال اٹھایا جارہا ہے، اس سے پیدا ہونے والی صورت حال نگران حکومت اور اس کے سربراہ کے لئے بے حد مشکل ہو گی۔ بظاہر سب حلقے ان سے انصاف اور غیر جانبداری کا تقاضہ کریں گے لیکن درحقیقت سیاسی جماعتوں سے لے کر فوجی ادارے تک یہ توقع کریں گے کہ نیا نگران سیٹ اپ ان کی حکمت عملی یا خواہشات کی تکمیل میں معاون ہو۔ یہ صورت حال ان اندیشوں اور قیاس آرائیوں کے طوفان میں مزید سنگین ہو جاتی ہے کہ شاید قائم ہونے والی نگران حکومت کی مدت میں توسیع کا اہتمام کرلیا جائے تاکہ سیاست دانوں کی بدعنوانیوں کے معاملات انجام کو پہنچ سکیں اور قومی معاملات کی اصلاح کا اہتما م کیا جاسکے جو غیر منتخب مگر طاقتور اداروں کے خیال میں جمہوری حکومتوں کے دور میں بحران اور زوال کا شکار ہوتے ہیں۔

ان مسائل کے علاوہ نئے نگران وزیر اعظم اور حکومت کو پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے اس دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑے گا کہ جانے والی حکومت کے لیڈروں کی بدعنوانی کو منظر عام پر لایا جائے۔ نواز شریف کو سزا دی جائے اور شریف خاندان کی دولت بحق سرکار ضبط کی جائے۔ بدعنوانی کے خلاف عمران خان کی خواہشات کی فہرست بہت طویل ہے جس میں صرف نواز شریف ہی کا نام نہیں آتا بلکہ ہر اس سیاسی لیڈر کو شامل کیا جاتا ہے جو عمران خان کے سیاسی سفرمیں خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی لئے شہباز شریف کی بدعنوانی بھی عمران خان کو پریشان کرتی ہے اور وہ آصف زرداری کو بھی جیل کی کوٹھری تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ 2013 کے انتخابات سے لے کر گزشتہ برس پاناما کیس کا فیصلہ آنے تک رونما ہونے والے واقعات اور عمران خان کے سیاسی طرز عمل سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ اپنی خواہش پوری نہ ہونے پر وہ کس قسم کے شدید ردعمل کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ خواہشات کے حوالے سے عمران خان غلط یا درست کی تمیز کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ الزام لگانے اور مطالبے کرنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ملکی انتظام میں ہر بااختیار فرد یا تو ان کے الزامات کی روشنی میں اقدام کرے یا وہ خود بھی عمران خان کے غم و غصہ کا سامنا کرے۔ انہیں صرف وہ فیصلہ اور شخص اچھا لگتا ہے جو ان کے مؤقف سے سو فیصد اتفاق کرتے ہوئے ان کی سیاست کے لئے راتب مہیا کرنے کا سبب بن سکے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف عمران خان کی ناراضگی اور موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے لئے شیفتگی کی وجہ یہی مزاج ہے۔ افتخار چوہدری نے خلاف ضابطہ چار انتخابی حلقوں میں از سر نو گنتی کروانے کا حکم دینے سے گریز کیا تھا۔ اس لئے وہ معتوب ٹھہرے۔ جبکہ موجودہ چیف جسٹس کی نگرانی میں نواز شریف کو نہ صرف وزارت عظمیٰ سے نااہل قرار دیا گیا بلکہ انہیں اپنی پارٹی کی صدارت سے علیحدہ کرنے کا اہتمام بھی کیا گیا، اس لئے عمران خان انہیں بہترین منصف قرار دینے میں زور خطابت صرف کرتے رہتے ہیں۔ نگران وزیر اعظم کے طور پر جسٹس ناصر الملک کو عمران خان جیسے سیماب صفت لیڈروں کی خواہشات اور زمینی حقیقتوں کے درمیان حد فاصل قائم کرنے کا اہم کام کرنا ہوگا تاکہ جولائی میں ہونے والے انتخابات کسی حد تک منصفانہ ہوسکیں۔ تاہم ایسا متوازن اور غیر جانبدارانہ کردارادا کرتے ہوئے نگران حکومت کو سیاسی الزام تراشی کے طوفان کا سامنا بھی ہوگا۔

ملک میں آئندہ انتخابات کو بد عنوانی یا جمہوریت پر ریفرنڈم کی شکل دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ انتخابی عمل خود اپنی صفت میں جمہوری راستہ ہے۔ پاکستان میں مروج آئین کے تحت پارلیمانی جمہوری نظام کا انتخاب کیا جا چکا ہے اس لئے جمہوریت پر ریفرنڈم نہیں کروایا جاسکتا۔ یوں بھی پاکستان کی بنیاد عوام کی رائے سے سامنے آنے والے مطالبے پر رکھی گئی تھی۔ اس طرح اس ملک کا وجود اپنی خاصیت میں جمہوری مزاج کا حامل ہے۔ اس کے باوجود چند افراد کی غلطیوں اور چند سیاست دانوں کی خواہشات کے ہجوم میں آئندہ انتخابات سے پہلے جمہوریت کو ثانوی اور بد عنوانی کے معاملات کو ترجیحی ضرورت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ غیر منتخب قوتیں بھی اس غیر یقینی میں اضافہ کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے بھی گزشتہ چند ماہ کے دوران سو موٹو اختیار کے تحت حکومت کے خلاف اقدامات کرتے ہوئے یہ تاثر قوی کرنے میں کردار ادا کیا ہے کہ انتخابات اسی وقت اہم ہو سکتے ہیں اگر ان میں صرف وہ لوگ منتخب ہوں جو چند حلقوں کے لئے پسندیدہ ہوں اور چند خاص ممنوعات کو بدستور حد فاصل مانتے ہوئے کام کرنے پر راضی ہوں۔ اس طرح جولائی میں ہونے والا انتخاب ان معنوں میں جمہوریت پر ریفرنڈم ضرور بن چکا ہے کہ کیا انتخابات کے نتائج عوام کے ووٹ اور خواہش کے مطابق ہوں گے یا ایسا منظر نامہ سامنے لائیں گے جسے پہلے سے طے کیا جاچکا ہے۔

جسٹس ناصر الملک جو ملک کے چیف جسٹس کے علاوہ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں، اب نگران وزیر اعظم کے طور پر ایسے انتخابات کی نگرانی اور انہیں آزاد اور غیر جانبدارانہ بنانے کی کوشش کریں گے جس میں غیر جمہوری قوتیں عوام کے ووٹ کی طاقت کو چیلنج کرنے کی منصوبہ بندی کرچکی ہیں۔ اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں میں قائم ہونے والی نگران حکومتوں کی کارکردگی 25 جولائی کو سامنے آنے نتائج سے طے ہوگی۔ اگر ان انتخابات میں عوامی رائے جیت گئی تو ملک کی تاریخ نگران حکومتوں کو جمہویت کا محسن قرار دے گی اور اگر یہ نتائج انجینئرڈ اور کنٹرولڈ جمہوریت کا شاہکار بنے تو تاریخ میں نگران وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کی بے بسی کے ایک نئے باب کا اضافہ ہوجائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali