نگران حکومت کے لئے نظر آتی مشکلات


چند روز قبل کسی امریکی اخبار میں چھپے ایک مضمون پر انٹرنیٹ کی بدولت نگاہ پڑگئی۔ اسے دو محققین نے مل کر لکھا تھا جوان دنوں مختلف ممالک کی سیاست پر نگاہ رکھتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہاں کے لوگ اور خاص کر نوجوان طبقہ جمہوری نظام سے مایوس کیوں ہورہا ہے۔

بہت تحقیق کے بعد نتیجہ انہوں نے یہ نکالا کہ سیاسی طورپر مایوس اورمفلوج نظر آتے ممالک میں حکومتی بندوبست چلانے کے لئے جو اصول ”آئینی صورت“ میں وضع کئے گئے ہیں وہ دورِ حاضر کے تقاضوںکے مطابق نہیں۔ ان کا مقصد سیاست کے طرز کہن کو برقرار رکھتے ہوئے روایتی اشرافیہ کے تحفظ کو یقینی بنانا اور ان کے مفادات کو تقویت پہنچانا ہے۔ اس ”آئین کے اندر“ رہتے ہوئے بھاری بھر کم وعدوں کے ساتھ جب کوئی سیاست دان بھرپور انتخابی مہم کے ذریعے اقتدار حاصل کرلیتا ہے تو اپنے وعدوں کو نبھانے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ لوگ اس کی ”آئینی مجبوریاں“ سمجھ نہیں پاتے۔ ہیرو زیرو ہوجاتاہے۔

اپنے دعویٰ کے اثبات کے لئے ان محققین نے برما پر خاص توجہ دی۔ آنگ سان سوچی ایک زمانے میں جمہوری مزاحمت کی بہت بڑی علامت سمجھی جاتی تھی۔گزشتہ چند برسوں سے وہ اقتدار میں ہے لیکن برما نہ صرف معاشی اور سیاسی ا عتبار سے مفلوج اور پسماندہ ہے بلکہ وہاں بدھ انتہاپسندی نے روہنگیا مسلمانوں کا جینا بھی دوبھر بنارکھا ہے۔ ”انسانی حقوق“ کی بہت بڑی علامت ہوتے ہوئے بھی آنگ سان سوچی ان کے تحفظ کے لئے عملی اقدامات تو دور کی بات ہے ہمدردی کے دو لفظ بھی نہ کہہ پائی ہے۔

یہ مضمون پڑھتے ہوئے مجھے 1988 یاد آ گیا۔ طویل انتظار اور جدوجہد کے بعد اس برس محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر عظم منتخب ہوئیں۔ انہیں مگر اس ”آئینی بندوبست“ میں رہتے ہوئے کام کرنا پڑا جو جنرل ضیاءنے اپنے دس سالہ اقتدار کو مستحکم بنانے کے لئے تشکیل دیا تھا۔ اس بندوبست کی بنیاد 1985کے غیر جماعتی انتخابات تھے جن کا مقصد بذاتِ خود جنرل ضیاء نے سیاست دانوں کو اقتدار ”منتقل“ کرنا نہیں بلکہ اس میں ”شریک“ کرنا بتایا تھا۔ انتقال اور شراکت کے باہمی تضاد کی بدولت جنرل ضیاءاپنے ہی نامزد کردہ وزیر اعظم کے ساتھ گزارہ نہ کر پائے۔29مئی 1988 کو اسمبلیاں توڑنے پر مجبور ہوئے۔ جونیجو مرحوم کو فارغ کردینے کے بعد مگر وہ یہ طے نہ کر پائے کہ ریاستی کاروبار کیسے چلایا جائے اور بالآخر اگست کے مہینے میں ایک فضائی حادثے کا شکار بن گئے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے درحقیقت اسی آئینی بندوبست کے تحت اقتدار سنبھالا تھا جو جونیجو حکومت کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ جونیجو صاحب کی طرح انہیں بھی صدارتی اختیارات کا نشانہ بناکردوبرس کی حکومت کے بعد فارغ کردیا گیا۔ اس فراغت کے بعد نواز شریف بھی مذکورہ بندوبست ہی کے تحت اپنی پہلی حکومت چلانہ پائے۔انہیں صدر نے گھر بھیجا تو محترمہ دوبارہ وزیر اعظم بن گئیں۔ تین سال بعد مگر انہیں بھی پیپلز پارٹی کے بنائے صدر نے فارغ کر دیا۔ اس کے بعد نواز شریف دو تہائی مینڈیٹ کے تحت وزیر اعظم کے دفتر لوٹے تو بہت تیزی سے اختیار واقتدار کو غیر پارلیمانی قوتوں سے لے کر اپنے دفتر منتقل کیا۔ اس انتقالِ اقتدارکی بدولت صدر لغاری، چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور بالآخر آرمی چیف جنرل کرامت سے استعفے لینے کے قابل ہوئے۔ دریں اثناء کارگل ہوگیا اور اس کے نتیجے میں جنرل ضیاءکا متعارف کردہ آئینی نظام بھی اس ملک میں لوٹ آیا۔

2008 کے بعد سے ہمارے سیاست دانوں نے 18ویں ترمیم ”متفقہ طور“‘ پر پاس کرلینے کے بعد ہمیں بہت امیدیں دلائیں۔ سیاسی استحکام مگر وطنِ عزیز کو نصیب نہیں ہوا۔ چیف جسٹس افتخار چودھری نے آئینی نظام کے تحت ہی سوموٹو اختیارات کو استعمال کیا۔ اب آئین کا آرٹیکل 62-Fاپنے جلوے دکھارہا ہے۔

سیاست دان ہمارے مگر اب بھی پُرامید ہیں۔ عمران خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کو یقینِ کامل ہے کہ آئندہ انتخابات کے روز وہ قومی اسمبلی کی کم از کم 105نشستیں ہر صورت حاصل کرلیں گے۔یہ نشستیں میری دانست میں اگر مل بھی گئیں تو تحریک انصاف محض واحد اکثریتی جماعت ہوگی۔ براہِ راست انتخابات 272نشستوں کے لئے ہونا ہیں۔ سادہ اکثریت سے حکومت بنانے کے لئے ان میں سے کم از کم 137کی تعداد جیتنا ضروری ہے۔ تحریک انصاف کو لہذا اپنا ہدف 140نشستیں بنانا ہوگا۔

اس تعداد کے حصول کے بعد بھی لیکن کیا ضمانت ہے کہ سوموٹو اختیارات ان کی بنائی حکومت کے چند ”انقلابی اقدامات“ کو ٹیک آف کرنے دیں گے۔یہ ٹیک آف نہ ہوا تو خان صاحب کے مداحوں میں بھی مایوسی پھیل جائے گی۔ عدم استحکام اور بے ثباتی کا ایک نیا کھیل شروع ہوجائے گا۔ اقتدار کے حصول کو یقینی سمجھتے ہوئے لیکن تحریک انصاف کے دوست مذکورہ امکانات کو دیکھنے کو بھی تیار نہیں ہورہے۔ ان کے لئے War Gamingیا Brain Stormingتو بہت دور کی بات ہے۔

فی الوقت میرا مسئلہ لیکن آئندہ حکومت کے بجائے نگران حکومت کے لئے واضح طورپر نظر آتی مشکلات ہیں۔ اس کالم میں FATFنامی ادارے کا ذکر شروع کیا تھا۔ میری بدقسمتی کہ ہمارے عوام کی اکثریت ابھی تک اس ادارے کے طے شدہ ”گرے“ یا ”بلیک“ لسٹ کے مضمرات نہیں سمجھ پائی ہے۔ وسط جون سے قبل لیکن ہمارا ”گرے“ میں شامل ہونا اب یقینی نظر آرہا ہے۔ بین الاقوامی معیشت کو ڈالر اکانومی، ورلڈ بینک اور IMFوغیرہ کے ذریعے کنٹرول کرنے والی قوتیں بہت مکاری سے یہ چاہ رہی ہیں کہ ہماری جن تنظیموں کو انہوں نے ”خطرناک“ بتارکھا ہے  Main Streaming کی آڑ میں سیاسی جماعتوں کی صورت آئندہ انتخابات میں حصہ نہ لیں۔

ذاتی طورپر میں اس سوچ کا مخالف ہوں۔”حزب اللہ“ لبنان کے انتخابات میں حصہ لیتی ہے اور ہمارے ہاں جن تنظیموں کو ”خطرناک“ بتایا جاتا ہے اس تنظیم کی قوت اور دائرہ کار کے مقابلے میں بہت کمزور ہیں۔ ”حزب اللہ“ کی انتخابی شکل کو مگر مشرق وسطیٰ میں استحکام کے وسیع تر تناظر میں قبول کرلیا گیا ہے۔ ہماری صورت میں شاید ایسا نہیں ہو پائے گا۔ بات ”گرے“ سے ”بلیک“ تک بھی جا سکتی ہے۔

کوئی سیاست دان اور ٹی وی سکرینوں پر چھائے اینکرخواتین وحضرات آپ کو مگر ان دنوں FATFکا ذکر کرتے سنائی نہیں دیں گے۔”ہرخبر پر نگاہ“ کے دعوے ایسی بے اعتنائی کے تناظر میں مضحکہ خیز سنائی دیتے ہیں۔ بطور صحافی لیکن میں یہ اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ آپ سے FATFکے پاکستان کے ساتھ معاملات پر نگاہ رکھنے کی فریاد کروں۔ میری فریاد نقار خانے میں طوطی کی آواز ہے۔ اسے سن لینے میں لیکن کوئی حرج نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).