شاعر کے گھر پر تو چھاپہ بھی نہیں پڑتا


ہمیں امیر ہونے کا تو نہیں لیکن امیر نظر آنے کا بڑا شوق ہے۔ جب بے نظیر بھٹو نے اپنی بیٹی کا نام بختاور رکھا، تب ہم نے سوچا کہ شائد پرانے ناموں کا فیشن ہے۔ تب سے ہم نے اپنی امی کا اصل نام کنیز فاطمہ بتا نا شرع کیا۔ اس سے پہلے اپنی سہلیوں اور جاننے والوں کو ہمیشہ ان کا نام عنبرین بتا تے تھے۔ کیوں کہ ہمیں لگتا تھا کہ پرانے نام۔ غریب ہی رکھتے ہیں۔

ہماری دادی، امی سے ہمیشہ اس بات پر ناراضی کا ظہار کرتیں کہ خود سارا دن کام میں جتی رہتی ہیں اور لڑکیوں سے کام نہیں کرواتیں۔ امی جب دادی کی سنی ان سنی کر دیتیں تو دادی ہمیں براہ راست ڈاٹتیں۔ کام وام سیکھ لو ورنہ پرائے گھر میں ذلیل ہو گی۔

کیوں ذلیل ہوں گے۔ ہم تو نوکر رکھیں گے۔ ہمارا جواب ہوتا۔

ہمیں فیشن کرنے کا بھی بہت شوق تھا۔ اس زمانے میں کون سا ہیر اسٹائل تھا جو ہم نے نہیں اپنایا۔ ڈائنا کٹ۔ مرینہ کٹ۔ حتیٰ کہ بوئے کٹ بھی۔ اور دادی کی ڈانٹ ڈپٹ بھی جاری رہتی۔

دادی اگر ناک میں لونگ۔ ہونٹوں پر سرخی یا ساڑھی بندھی دیکھتیں تو ٹوکتیں۔ لڑکیا ں یہ سب شادی کے بعد کرتی ہیں۔ اور ہم پٹ سے جواب دیتے۔

دادی، شادی نہیں ہوئی تو کیا ہم سارے ارمان قبر میں لے کر جائیں گے۔ اور دادی اس بے باکی پر اپنے گال پیٹ ڈالتیں۔

ہماری امی بھی بڑی شریر تھیں، اب بھی ہیں۔ لیکن پاپا کے جانے کے بعد وہ بات نہیں رہی۔ امی جب بھی کریلے پکاتیں، دادی کہتیں۔

کڑوے ہیں۔ ’’ہیں‘‘ کو زرا زیادہ کھینچ دیتیں۔ امی لاکھ کریلوں کو نمک سے دھوتیں۔ دھوپ میں رکھتیں، تین کلو کریلے آدھ کلو رہ جا تے۔ مگر دادی کا شکوہ اپنی جگہ رہتا۔ ایک بار دادی نے خوشی خوشی کریلے کھائے اور دستر خوان سے اٹھتے ہوئے یوں تعریف کی۔ دلہن آج تم نے بہت اچھے کریلے بنائے۔ بالکل بھی کڑوے نہیں تھے۔ لگا ہی نہیں کہ کریلے کھا رہی ہوں۔ بالکل توری کی طرح میٹھے۔ آئندہ ایسے ہی کریلے بنانا۔ امی کی دبی دبی مسکراہٹ سے ہم سمجھ گئے کہ انہوں نے آج اپنی ساس کو توری کھلا کر داد سمیٹی ہے۔

ہاں تو ذکر ہورہا تھا امیر ہونے کے شوق کا، اسی شوق میں ایک ایسے شاعر سے شادی کی جسے لوگ بڑا شاعر کہتے تھے۔ ہم نے تو بڑا لفظ امیروں کے لیے سنا تھا۔ ہمیں کیا معلوم تھا، یہاں ہر کسی کا اپنا اپنا بڑا شاعر ہے۔ مگر یہ تو سچ مچ قد اور مزاج کے اعتبار سے بڑے شاعر ہیں۔ یہ بہادر شاہ ظفر کی طرح افسرِ شاہانہ بننے کا گلہ کیا کریں گے، انہیں تو شاہوں سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ شاہوں سے بیر میں تاجِ گدائی تو لازم ہے۔

ایک مرتبہ ہماری کزن کے ہاں ڈاکہ پڑا۔ بڑا افسوس ہوا۔ اس کے میاں کسٹم میں تھے۔ لاکھوں روپے جوڑ جوڑکر جو کروڑوں کا سامان بنایا تھا۔ ڈاکو دن دہاڑے لے اڑے۔ غریب کزن کے ہاتھوں کی نو نو چوڑیاں بھی اتار لیں۔ کوئی ایک ماہ بعد ہماری ایک کولیگ نے بھی اپنے گھر ڈاکے کی خبر دی۔ اور ایک ایک چیز کے بارے میں بتایا کہ کس طرح ڈاکو ان کے بچوں پر گن رکھ کر گھر سے قیمتی چیزیں سمیٹ رہے تھے۔ ہمیں بڑا رشک آیا۔ ظاہر ہے جن کے گھر میں قیمتی سامان ہو گا وہیں ڈاکو آئیں گے۔ ایک بار ہماری خالہ کے گھر بھی ڈاکہ پڑ گیا۔ اور ڈاکو ان کے گھر سے پندرہ ہزار روپے اور ان کی نقلی چوڑیاں لے اڑے۔ خالہ کے گھر ڈکیتی کا سن کر کچھ تسلی ہوئی کہ اکثر ڈاکو منکسر المزاج بھی ہو تے ہیں وہ امیر غریب نہیں دیکھتے۔ کسی کو بھی شرفِ میزبانی بخش دیتے ہیں۔ خالہ کے ڈاکہ پڑ سکتا ہے تو ہمارے گھر بھی پڑ سکتا ہے۔ سوچا ایک بار ڈاکو آجائیں۔ پھر کن کن چیزوں پر انہوں نے ہاتھ صاف کیا۔ وہ سب تو دل سے جوڑ کر بتا دیں گے۔ اب اپنی سہلیوں، اسکول اسٹاف اور رشتے داروں میں ڈاکے کی نوید سنا کر خود کو امیر ظاہر کرنے کی آرزو بھی تو پوری کرنی تھی۔ جب کبھی دروازہ زور سے بجتا۔ ہمیں ڈاکو کا شبہ ہوتا۔ لیکن کبھی مالک مکان کرایہ کا تقاضہ کرنے آدھمکتا تو کبھی کوئی مداح یا کوئی دکان دار۔

صاحب بڑے شاعر تو ہیں لیکن مشہور بھی بہت ہیں۔ ایک میل دور سے اگر کوئی مداح کسی بھی دکان دار سے ان کا نام لے دے تو وہ۔ اسے خود تیز تیز قدموں چل کر، ہمارے دروازے تک چھوڑنے آتا ہے۔ مداح کے دل میں شاعر کی قدر و منزلت بڑھ جاتی ہے، اور دکان دار کو ادھار واپس ملنے کی امید۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی ڈاکے کے شوق میں مبتلا ہونے کی۔ 97، 98 میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن جاری تھا۔ گھر گھر چھاپے پڑ رہے تھے۔ ہر ایک کی زبان پر تھا کہ کیسے رینجرز ان کے گھر میں گھس آئی اور اسلحہ کی کھوج میں گھر کے کونے کونے کی تلاشی لی۔ سوچا ڈاکہ نہ سہی، چھاپا ہی سہی۔ کچھ تو بتانے کو ملے گا۔ ایک دن سن گن ملی کہ آج محلے میں چھا پا پڑ رہا ہے۔ گھر کی ایک ایک چیز قرینے سے رکھی۔ شاعری کی ان کتابوں سے گرد جھاڑی۔ جو محبتوں کے آٹو گراف کے ساتھ ملی تھیں۔ کہ شاید کسی کو شاعری بھی پسند ہو۔

شام کو میاں حسبِ معمول گھر سے نکلنے لگے تو ہم نے ان کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ چھاپے کے دوران ان کی تھکن اتارنے کے لیے ایک دوغزلیں اپنے پاس رکھ لیں تاکہ جب وہ آئیں تو آپ انہیں سنا سکیں۔ ان کے لیے یہ کتنا بڑا اعزاز ہوگا۔ وہ اپنے بچوں کو جا کر بتائیں گے کہ اتنے بڑے شاعر کے گھر انہوں نے چھاپا مارا تھا۔ سخت ڈانٹ پڑی کہ تم نے ابھی تک مجھے ایک دو غزلیں سنانے والا عمومی شاعر ہی سمجھا ہے۔ (ہم بھول گئے تھے یہ پانچ غزل سے کم کسی کو نہیں سناتے) ہم نے کہا تو اپنا مسودہ دے دیجیے گا۔ ہو سکتا ہے چھاپا مارنے والے متاثر ہو کر چھپوا بھی دیں۔ ایک طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر آ گئی، بولے۔

نہ میں ڈپٹی نذیر احمد ہوں نہ یہ مراۃ العروس کا مسودہ ہے۔ جسے ان کے بچوں کے ہاتھ سے لے کر ریسٹ ہاؤس میں آکر ٹھہرنے والے ایک کلیکٹر نے چھپوا دیا تھا۔ اور نہ یہ وہ دور ہے۔

یہ تو کھری کھری سنا کر چلے گئے۔ ہم نے بچوں کو اچھے کپڑے پہنائے اور خود بھی بن سنور کر بیٹھ گئے کہ کہیں چھاپے والے ہمیں غریب سمجھ کر الٹے قدموں لوٹ جائیں۔

تھوڑی دیر بعد شور ہوا تو دروازہ کھول کر جھانکا۔ رینجرز ہمارے بائیں والے گھر سے ایک لڑکے کو پکڑ کر وین میں ڈال رہی تھی۔ شاید گھر سے اسلحہ ملا تھا۔ بڑا اطمینان ہوا۔ سوچا اب ہمارے گھر میں آئیں گے۔ مگر وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے دروازہ بند کر دیا۔ کہ جب بجائیں گے تب ہی کھولیں گے۔ کافی دیر گزر گئی۔ رہا نہ گیا تو دروازہ کھول کر حالات کا جا ئزہ لیا۔ دائیں گھر والی پڑوسن کے لڑکے بالے کو باہر کھڑا دیکھا۔ اس نے اشارے سے بتا یا کہ اس کے گھر چھاپا مارا جا رہا ہے۔ دل بلیوں اچھلنے لگا۔ دائیں بائیں چھاپے کے بعد اب ہمارے ہی گھر کا نمبر تھا۔ ایک بار پھر لپ اسٹک لگا کر اپنے ہونٹوں کو فریش کیا۔ بڑے والے نے اب تک اپنی شرٹ گندی کر لی تھی اسے دوسری شرٹ پہنائی۔ اور انتظار کی کوفت سے بچنے کے لیے کچن میں جا کر آٹا گوندھنے لگے۔ گاڑی اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی تو برے برے خیالات دل میں آنے لگے۔ گندھے ہاتھوں سے دروازہ کھولا تو رینجرز کی گاڑی جا رہی تھی۔ بالے باہر کھڑا تھا، ہمیں دیکھتے ہی بولا آنٹی آپ تو بڑی خوش نصیب ہیں۔ سب جگہ چھاپا پڑا آپ کے گھر نہیں پڑا۔ لگتا ہے انکل کی پہنچ اوپر تک ہے۔ ذرا آکر ہمارا گھر دیکھیں، ایک ایک کونے کی تلاشی لی ہے۔ سارا گھر اجڑا پڑا ہے۔

دور رینجرز کی گاڑی دھول اڑاتی جارہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).