پاکستان میں معذور افراد کی حالت زار


یہ فقرہ ہمیں بچپن سے نصابوں میں پڑھایا اور روزمرہ میں بولا بھی جاتا ہے۔ یعنی دنیا کی ہزار نعمتیں ایک طرف اور تندرستی ایک طرف۔ اس فقرے کی اہمیت کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب آج سے دس دن پہلے ہفتے کی رات کمر میں اچانک شدید تکلیف شروع ہو گئی، شدید تکلیف پر قابو پانے کے لئے ادھر ادھر کے ٹوٹکے استعمال کئے ،لیکن درد تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ تکلیف اتنی بڑھ گئی کہ چلنا پھرنا محال ہو گیا۔ خدا خدا کرکے صبح ہوئی،چھوٹے بھائی کو ساتھ لیکر اسپتال پہنچ گئی، ٹسٹ کروانے کے بعد معلوم پڑا کہ مجھے تو نرو کمپریشن کی بیماری لاحق ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی ٹریٹمنٹ کے بعد کچھ دوائیاں پرچی پر لکھ دیں اور سات سے آٹھ روز تک مکمل بیڈ ریسٹ کا مشورہ بھی دے دیا ۔ ۔ تکلیف کو ساتھ لئے گھر پہنچی ،کمر کا درد تھمنے کی بجائے بڑھتا ہی گیا ،بیڈ ریسٹ کے ساتھ ساتھ کئی دن تکلیف کی صورتحال برقرار رہی۔ ان دس دنوں میں ایک خیال مستقل میرے زہن و دماغ میں رہا کہ تندرستی کتنی بڑی نعمت ہے ،کمر میں اٹھنے والا درد مجھے بہت سی ویلیوز سے آشنا بھی کر گیا ۔

ہم انسان سب سے کم اہمیت اپنی صحت کو دیتے ہیں ،تکلیف کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ہم انسانوں کو سب سے زیادہ اہمیت اپنی صحت کو دینی چاہیئے۔ وہ انسان جو معذور نہیں ہیں ،جو چل پھر سکتے ہیں ،شاید انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ لوگ جو معذور ہیں کس قدر المناک کیفیت میں زندگی کے ماہ و سال گزار رہے ہیں۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں پر معذور افراد کے ساتھ بدترین سلوک کیا جاتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق اسلام آباد اور گردونواح میں 8434 افراد مختلف اعضاء کی محرومی کا شکار ہیں۔ ان میں نابینا افراد کی تعدادکا تناسب 9.22، سماعت سے محروم افراد کی تعداد 29.89 ہے۔ ذہنی مفلوج افراد کی تعداد کا تناسب 12.46، ایسے افراد جو مختلف اقسام کی معذوری کا شکار ہیں ان کی تعداد کا تناسب 4.55 ہے۔ بلوچستان کی بات کی جائے تو وہاں پر معذور افراد کی کل تعداد 146421 ہے ۔ جس میں بینائی سے محروم کی تعداد کا تناسب 8.42 ہے۔ قوتِ سماعت و گویائی سے محروم افراد کی تعداد کا تناسب 5.24 ہے ۔ اپاہج افراد کی تعداد کا تناسب 14.81، ذہنی مفلوج افراد کی تعداد کا تناسب 5.61 فیصد، دیگر معذوریوں کے شکار افراد کی تعداد کا تناسب 54.96 اور مختلف ڈس ایبلڈ افراد کی تعداد کا تناسب 6.35 فیصد ہے۔

صوبہ سندھ میں کل 929400 افراد معذوری کا شکار ہیں۔ جن میں 7.48 افراد بینائی سے، 6.18 افراد قوتِ سماعت و گویائی سے ، اپاہج افراد کی تعداد کا تناسب 10.56، ذہنی مفلوج افراد کی تعداد کا تناسب 7.87، مختلف و دیگر ڈسایبلیٹی کے شکار افراد کی تعداد، مفلوج افراد کی تعداد کا تناسب 7.45، مختلف ڈس ایبلیٹیز کے شکار افراد کی تعداد کا تناسب 8.92 اور دیگر کی تعداد کا تناسب 53.29 فیصد ہے۔ پنجاب کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں! یہاں پر نابینا افراد کی تعداد کا تناسب 8.48، قوتِ سماعت و گویائی سے محروم افراد کی تعداد کا تناسب 8.17، اپاہج افراد کی تعداد کا تناسب 20.83، ذہنی مفلوج افراد کی تعداد کا تناسب 7.87، مختلف و دیگر معذوریوں کے شکار افراد افراد کی تعداد کا تناسب 8.07 اور 39.84 ہے ۔ خیبرپختونخوا میں کل 375،752 افراد مختلف معذوریوں کا شکار ہیں۔

ان میں نابینا افراد کی تعداد کا تناسب 7.24 فیصد ہے قوتِ سماعت اور قوتِ گویائی سے محروم افراد کا تناسب 7.69،اپاہج افراد کا تناسب 31.17، ذہنی مفلوج انسانوں کی تعداد کا تناسب 7.43، مختلف قسم کی معذوری کے شکار افراد کا تناسب 8.11 جبکہ دیگر کا تناسب 31.90 ہے۔ معذوری خواہ کیسی بھی ہو ،انسان کسی دوسرے فرد کا محتاج بنکر رہ جاتا ہے۔ اس بات کا احساس مجھے اس وقت ہو جب دس دن میں بیڈ سے ہل جل تک نہیں سکتی تھی اور واش روم تک جانے کے لئے مجھے اماں یا بہن کے سہارے کی ضرورت پڑتی تھی ۔

شاباش اور سلام ہے ان افراد کو جو معذور ہونے کے باوجود کسی کے محتاج نہیں ہوتے اور کامیابی حاصل کرتے چلے جاتے ہیں ۔ پاکستان میں بلائنڈ کرکٹ ٹیم بھی ہے ، وقاص احمد جیسے معذور افراد بھی جو اپنی معذوری کو اپنی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بننے نہیں دیتے۔ اس ملک میں معذور افراد کے لیے غیر سرکاری تنظیمیں بھی سرگرم ہیں مگر حکومتی سطح پر ان افراد پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ ظلم کی انتہا ملاحظہ کیجیئے کہ معذور افراد اپنے حق کے لیے گورنر ہاؤس کے سامنے احتجاج بھی کرتے ہیں، میٹرو بس اسٹیشن بھی بلاک کرتے ہیں، پھر بھی ان کی سنتا کوئی نہیں۔ پاکستان میں چھٹی مردم شماری میں معذور افراد کے اندراج کا خانہ تک موجود نہیں تھا۔ حکومت اور ریاست کی زمہ داری ہے کہ معذور افراد کے لئے مربوط پالیسی بنائی جائے اور ان کے مسائل کے حل کا مستقل انتظام کیا جائے ۔

بحثیت انسان اور مسلمان ہماری یہ زمہ داری ہے کہ ان معذور افراد کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آئیں۔ مخیر حضرات کو چاہیے کہ ان افراد کی صحت و تندرستی کے لئے زیادہ سے زیادہ رقم فلاحی اداروں کو فراہم کریں ۔ اگر خالق نے ہمیں معذوری سے محفوظ کیا ہوا ہے تو ان کا درد سمجھنا بھی ہمارا فرض ہے۔ تندرستی کے معنی ہیں جسم کا صحیح حالت میں ہونا تندرستی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ جس کا مقابلہ دنیا کی اور کوئی چیز نہیں کر سکتی۔ انگلش میں ایک ضرب المثل ہے۔ (ھیلتھ از ویلتھ)یعنی تندرستی دولت ہے۔ اور یہ سچ ہے کہ تندرستی حقیقی دولت ہے۔ صحت کی قدر اس وقت آتی ہے۔ جب انسان بیمار ہوتا ہے۔ مجھے بھی اس بات کا احساس تب ہوا جب میں بیماری کی کیفیت سے گزری ۔ اچھی صحت کے لئے ضروری ہے کہ صفائی،اعتدال،اور احتیاط کو مدنظر رکھا جائے۔ اگر انسان اپنے جسم کی صفائی،لباس کی صفائی،صاف آب و ہوا،صاف پانی اورصحت بخش غذابرقرار رکھے تو ایک اچھی صحت کا حامل ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کے لیے ورزش بھی بہت ضروری ہے۔ ورزش سے جسم مضبوط اور غفلت دور ہوتی ہے۔ ورزش کرنے سے جسم میں چستی اورتازگی آتی ہے۔ انسانی صحت کے لیے ایک اچھی عادتیں بھی مفید ثابت ہوتی ہے۔

انسانی جسم مشین کی طرح ہے۔ اس مشین کی مدت عموماً 70-60 سے سو سال تک ہے۔ اگر اس مشین کی حفاظت نہیں کریں گے تو ابتدائی عمر میں ہی مختلف بیماریوں کا شکار ہوجائیں گے۔ ۔ پاکستان میں اس وقت 15 لاکھ لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ 54 فیصد اندھے پن کی وجہ سفید موتیا ہے۔ سفید موتیے کا پھٹنا کالا موتیا کہلاتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب سفید موتیا پک جاتا ہے۔ اس لیے اس بات کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ سفید موتیا پکے بلکہ ابتدا میں ہی آپریشن کرالینا چاہیے۔ پاکستان میں بہت سے لوگ اپنی کم علمی، لاپرواہی اور خوف کی وجہ سے کالے موتیے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جسمانی طور پہ چاق و چوبند ہونے کی اہمیت کے بارے میں جتنا بیان کیا جاۓ تھوڑا ہوگا – آج کل کے معاشرے میں جہاں زیادہ وقت بیٹھے رہنے کا ہی رجحان پیدا ہوتا جا رہا ہے اس بات کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے کے ہم اپنی جسمانی سرگرمیوں میں اضافہ کریں تاکہ دل کی بیماریوں اور وزن میں اضافے کو قابو میں کیا جا سکے –

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2