تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور مرغ باد نما الیکٹ ایبل


ایک غیر مصدقہ افواہ کے مطابق الیکٹ ایبل اہلکاروں کو ڈنڈا دکھا کر تحریک انصاف میں شامل کیا جا رہا ہے۔ مداری کے بندر ڈنڈا دیکھ کر اپنا کرتب دکھاتے ہیں۔ کبھی یہ یونینسٹ پارٹی میں پائے جاتے ہیں تو کبھی ری پبلکن میں۔ پھر یہ پیپلز پارٹی کے جیالے بنے ہوتے ہیں تو اگلی حکومت میں یہ نون لیگ کے جانثار۔ کچھ مدت گزرے تو یہ نون سے قاف ہو جاتے ہیں۔ مداری کا ڈنڈا جس پارٹی کے ڈبے کی طرف اشارہ کرے یہ اس میں ہاتھ ڈال کر اپنی پیٹ پوجا کرتے ہیں۔ الیکٹ ایبل کا موقف دوسرا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ایک نظر بندہ حجرہ ہفت بلا پر ڈالے جس میں موجود کرپشن کے کیس، تھانہ، کچہری، نیب وغیرہ باہر آنے کو بے تاب ہیں تو بلاوجہ ہیرو بننے کی کیا ضرورت ہے۔ پاکستانی سیاست میں ہیرو نہیں مرغ باد نما کامیاب ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ بلا جبر و اکراہ تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں۔

اب تحریک انصاف اوپر والے کے فضل سے اتنی زیادہ پاپولر ہو چکی ہے کہ ایک ایک حلقے سے چھے چھے الیکٹ ایبل اس میں شامل ہونے کی افواہیں سننے کو مل رہی ہیں۔ تحریک انصاف والوں کو ان سے حلفے نامے بھروانے پڑ رہے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ سجنا اگر بر مالا رقیب کو پہنا دی تو قسم کھاؤ کہ تم بے وفائی تو نہیں کرو گے۔ تحریک انصاف کو ان پر شبہ ہو تو ہو لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہمارے الیکٹ ایبل حلف کی پاسداری کریں گے اور جس جماعت میں ان کی ڈولی لے جائی گئی ہے وہیں سے ان کا جنازہ نکلے گا۔ لیکن چند سوالات ہمارے ذہن میں بھی اٹھتے ہیں۔

یہ جو تحریک انصاف کے سچے پکے بے لوث کارکن تھے جو دھرنے تک میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے رہے، کیا ان کو یہ اچھا لگے گا کہ دکھ سہیں بی فاختہ اور انڈے کوے کھائیں۔ یعنی جب تک جدوجہد کا دور تھا اس وقت تک ان سے قربانی لی جاتی رہی مگر جب حکومت قریب دکھائی دے رہی ہے تو سہرا ان کو پہنایا جائے گا جن کے خلاف یہ جدوجہد کی گئی تھی۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔

دوسری بات یہ سوچنے والی ہے کہ جب تحریک انصاف کی حکومت بن جائے گی تو کیا یہ الیکٹ ایبل ڈنڈے سے ڈرنا چھوڑ دیں گے یا ڈنڈے کو ہی پیر مانتے رہیں گے؟ کیا اس وقت یہ مرغ باد نما کی بجائے گل محمد بن جائیں گے جس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ‌زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد (زمین ہل گئی لیکن گل محمد نہ ہل کے دیا)۔ اگر اس وقت ہمارے عظیم لیڈر عمران خان نے بجٹ کا بڑا حصہ ارض وطن کے دفاع کی بجائے تعلیم اور صحت وغیرہ پر لگانے کی کوشش کی تو کیا ان کا تختہ الٹنے میں یہ مرغ باد نما پیش پیش نہیں ہوں گے؟ یہ مرغ ڈنڈے کو پیر مانتے رہے تو کیا تحریک انصاف کی حکومت اپنی مرضی کے فیصلے کر پائے گی؟

ہندی داستانوں میں راجہ بکرماجیت کا اساطیری تخت مشہور ہے۔ اس کے پایوں کی جگہ بتیس پتلیاں جڑی ہوئی تھیں۔ بعد مدت کے اجین نگری کے راجہ بھوج کو زمین میں دبا ہوا وہ مضبوط تخت ملا جس پر بیٹھ کر راجہ بکرماجیت نے اپنی سلطنت پر ایسا راج کیا تھا کہ آج تک ہندی تقویم میں سنہ بکرمی چلا آ رہا ہے۔ اب راجہ بھوج جب بھِی ارادہ کرتا کہ تخت پر پدھارے تو تخت لرزنے لگتا اور ایک پتلی راجہ بکرماجیت کی ایک کہانی سنا کر پوچھتی کہ میاں تم نے ایسا کوئی کام کیا ہے جو تخت پر بیٹھنے کے خواہش مند ہو؟

تو یہ مرغ باد نما بھی عمران خان کے حق میں ویسی ہی پتلیاں ثابت ہوں گے۔ جب وہ وزیراعظم بننے کا ارادہ کریں گے تو پتلیاں اپنی اپنی کہانیاں سنانے لگیں گے اور فیصلہ یہ ہو گا کہ صرف چوہدری پرویز الہی، شاہ محمود قریشی یا خسرو بختیار ہی تخت پر بیٹھ سکتے ہیں۔ اس کے بعد عمران خان جب کوئی انقلابی فیصلہ کریں گے تو دیکھیں گے کہ تمام پتلیاں تخت کے نیچے سے سرک گئی ہیں اور ان کی حکومت زمین پر گری پڑی ہے۔

تو صاحبو، عرض یہ کیا ہے کہ اگر عمران خان کے سٹیج پر تحریک انصاف کے مخلص کارکنوں کی جگہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے مرغ باد نما ہی راج کرتے دکھائی دیں گے تو ان کا تخت ہمہ وقت لرزتا ہی دکھائی دے گا۔ لرزتے تخت والا راجہ جو حکومت کر سکتا ہے، وہ سب کو پتہ ہی ہے۔ مستحکم اور تبدیلی لانے والی حکومت وہ ہو گی جو وفادار کارکنوں اور ووٹروں کے بل پر بنے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar