قائداعظم کا نیا پاکستان دیکھ


قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں اسلامیان ہند نے پاکستان حاصل کر لیا تو خواب کی کھیتی پر بہار آگئی۔ یہ خوش خبری موسم گرما کی آندھی کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف پھیل گئی۔ ہمارے قصبے تک بھی پہنچی۔ لڑکے بالے مارے خوشی کے گلی کوچوں میں نکل آئے۔ ہم میں سے جنہیں پاکستان ٹائمز پڑھنے کا موقع ملا وہ انور علی کے ننھا سے ضرور واقف ہیں۔ یوں سمجھئے کہ درجنوں ننھے ناچتے گاتے گلیوں میں نکل آئے تھے ۔ کوئی ایک ٹانگ پر ناچتے ہوئے چمٹا بجانے لگا۔ کوئی آنکھیں بند کر کے ڈھول پیٹے جا رہا تھا۔ دیر تک یہ ہنگامہ جاری رہا تو بزرگوں نے گلی میں جھانک کر ہانک لگائی کہ کم بختو کیا یہیں پر اودھم مچاتے رہو گے؟ پاکستان چلنے کی تیاری کرو۔ تو صاحب ہم نے پوٹلیاں اٹھائیں اور پاکستان کی طرف نکل پڑے۔ جنہیں زیادہ جلدی تھی وہ کھیتوں اور پگڈنڈیوں کی طرف ہو لیے۔ کچھ نے ریل کا راستہ پکڑا۔ بہت سے ایسے تھے کہ مارے خوشی کے ٹرین کی چھت پر جا بیٹھے۔

پاکستان بننے کی خوشی سنبھالے نہیں سنبھلتی تھی۔ ایم ڈی تاثیر نے ’پاکستان مبارک ‘کے عنوان سے پے در پے کئی مضامین لکھے۔ شوکت تھانوی نے قاضی جی کا کردار تخلیق کیا اور ’پاکستان ہمارا ہے‘ کا ریڈیائی سلسلہ شروع کر دیا۔ شاعر قصیدے سنا رہے تھے۔ خطیب اپنی تقریر کے جوہر دکھا رہے تھے۔ ہم سب کشاں کشاں پاکستان پہنچ گئے اور حیرت کے عالم میں ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ اس موقع پر امرتسر کے شاعر نفیس خلیلی نے لکھا تھا۔

دیکھتا کیا ہے میرے منہ کی طرف

قائداعظم کا پاکستان دیکھ

اس بھیڑ میں حسن عسکری کو ایک بڑھیا کی آواز سنائی دی جو خود کلامی کے انداز میں کہہ رہی تھی۔ ’مسلمانوں نے اپنا گھر بنا لیا ہے۔ ٹوٹا پھوٹا ہے تو کیا ہوا۔ سر چھپانے کو چھت تو مل گئی‘۔ حسن عسکری ایک جذباتی آدمی تھے۔ وہ اس جملے کو لے اڑے۔ انہوں نے اسے پاکستان میں سیاسی شعور بیدار ہونے کی علامت جانا۔ ماﺅں کے دل میں بہت وسعت ہوتی ہے۔وہ سخت سے سخت حالات میں بھی محبت کی چھاﺅں دینا جانتی ہیں۔ اڑچن اس میں یہ ہے کہ دنیا کے معاملات ماﺅں کی محبت کے تابع نہیں۔ وہ شاعر بھی اس بڑھیا کے کہیں آس پاس ہی موجود تھا جسے چند برس بعد لکھنا تھا۔

                کوئی دریچہ ہوا کے رخ پہ نہیں بنایا

                مرے بزرگوں نے سوچ کے گھر نہیں بنایا

عوام کا سیاسی شعور بیدار ہونے کی دلیل میں بہت کشش ہے۔ اس میں بہت سی امید ہے۔ تاہم عوام کی سیاسی بیداری میں بہت سا ابہام بھی ہے۔ ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں۔ ہمارے ہاں سیاسی شعور بیدار ہونے کی آواز وقفے وقفے سے سنائی دیتی ہے۔ جیسے کہنی کی چوٹ میں رہ رہ کے ٹیس اٹھتی ہے۔ ایوب خان نے مارشل لا لگایا تو پرچہ لگا کہ عوام کا سیاسی شعور بیدار ہو گیا ہے۔ اب وہ دقیانوسی سیاست دانوں کے جال میں نہیں پھنسیں گے۔ فاطمہ جناح نے صدارتی انتخاب لڑا تو ہمارا سیاسی شعور بیدار ہوا۔ پیپلز پارٹی کا قیام سیاسی شعور کا کرشمہ تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کانفرنس سیاسی شعور کا اعلان تھا۔ بھٹو صاحب کی عوامی حکومت کا قیام سیاسی شعور کا مرہون منت تھا۔ آپ گنتے جائیں۔ وقت کی ہر کر وٹ پر ہم نے سیاسی شعور کی نشان دہی کی۔

استاذی غلام مصطفی تبسم کے ایک پنجابی مصرعے کا مفہوم یہ ہے کہ ’رانجھن یار کی جھوک آخر کہاں ہے۔ بار بار نظر آتی ہے مگر قریب نہیں آتی‘۔ تو سیاسی شعور کی یہ رانجھن جھوک ان دنوں عمران خان صاحب کے ’پہلے سو دن کے ایجنڈے‘ میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گارشیا مارکیز کے ناول ’سو برس کی تنہائی‘ کی ٹکر پر عمران خان صاحب نے ’اقتدار کے سو دن‘ کی بندش مرتب کی ہے۔ غالباً عمران خاں صاحب کو یاد نہیں رہا کہ کولمبیا کے اسی  ادیب نے “اقتدار کی تنہائی” کی ترکیب بھی  استعمال کی ہے۔ اس کے لئے خان صاحب کو گارشیا گبریل گارشئیا ہی کا ناول “جنرل کی بھول بھلیاں” پڑھنا پڑے گا۔ خیر پڑھنے کیا ضرورت ہے۔ جولائی کا آخری ہفتہ کون سا دور ہے۔ وقت بہت کچھ پڑھاتا بھی ہے اور سمجھاتا بھی ہے۔

تو ذکر تھا کہ عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد پہلے سو دن کے لئے کیا ارادے باندھ رکھے ہیں۔ خوابوں کا ایک دراز سلسلہ ہے، سپنوں کی ایک لڑی ہے، ارمانوں کی زنجیر ہے۔ دیوانے کا پاؤں درمیاں ہے۔۔۔ خدا عمران خان کو لمبی زندگی دے اور وہ نئے پاکستان میں چین کی بانسری بجائیں۔ خواہشات کی اس فہرست میں ایک وعدے کا اضافہ ہماری طرف سے بھی کر لیں۔ نئے پاکستان میں حکومت اس امر کو یقینی بنائے گی کہ ہر شادی شدہ جوڑے کی پہلی اولاد نرینہ ہو گی۔ اگر وعدہ ہی کرنا ہے اور اسے پورا کرنے کے وسائل اور طریقہ کار کی کوئی فکر نہیں تو صاحب چاند میں جو بڑھیا چرخہ کات رہی ہے اس کے لیے جنرل سیلز ٹیکس کی معافی کا اعلان بھی کر دیں۔ عمران خان کے خلوص میں کلام نہیں۔ عبدالحمید عدم نے لیکن کہا تھا۔ عدم خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے۔ خلوص کے بندوں میں یہی خامی ہے کہ سیاسی شعور کی گت بجائے جاتے ہیں۔ اس میں معاشی شعور کا سُر نہیں لگاتے۔ اجتماعی معاملات کا شعور تمدن اور معیشت کی فہم سے ترتیب پاتا ہے۔

کبھی ہمیں ملائشیا کے مہاتیر محمد کی خبر سنائی جاتی ہے۔ کبھی طیب اردوان کی نوید دی جاتی ہے۔ ملائشیا اور ترکی کے اپنے معاشی حقائق ہیں۔وہاں کی خواندگی کی شرح مختلف ہے۔ سیاسی تاریخ مختلف ہے۔آبادی کے خدوخال مختلف ہیں۔ ملائشیا ، ترکی اور چین سمیت دنیا کے کسی ملک سے سیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہم کسی خلائی سیارے میں نہیں رہتے۔ کسی جزیرے کے باسی نہیں۔ اس دنیا کا حصہ ہیں اور ہمیں دنیا بھر کے انسانوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ تاہم سمجھنا چاہیے کہ سیاسی بندوبست کوئی پہاڑی جڑی بوٹی نہیں کہ اسے اٹھا کر اپنے چولے میں رکھیں اور میدانی علاقے میں شفا کی پڑیاں تقسیم کر دیں۔

انصاف اور مساوات کا خواب بہت خوبصورت ہے اور ہم سب کا سانجھا خواب ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں انصاف اور آزادی کے دو دھارے ساتھ ساتھ بہتے ہیں۔ انصاف کے دریا کی لہر زیادہ بلند ہو جائے تو آزادی کا چشمہ سوکھ جاتا ہے۔ اگر آزادی کی ندی منہ زور ہو جائے تو انصاف کا تالاب سوکھ جاتا ہے۔ سیاسی شعور اسی کا نام ہے کہ انصاف اور آزادی میں توازن کیسے قائم کیا جائے۔ انسانی خوشی کا تصور انصاف اور آزادی کے دو رنگوں سے عبارت ہے۔

اشتراکی معاشرے میں انصاف کے نام پر آزادی کا گلا دبایا گیا اور سرمایہ دار دنیا میں آزادی کا پرچم اٹھا کر انصاف کی کشتی ڈبوئی گئی۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ معیشت کی بنیاد علم اور پیداوار ہے۔ پیداوار میں اضافہ کیے بغیر مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تو ایسی مساوات محض غربت کا پھیلاﺅ ہو گی۔ اصل مقصد یوٹوپیا کی مساوات نہیں، غربت کا خاتمہ ہے۔ معاشی ترقی کے دوران غریب اور امیر کا فاصلہ بڑھتا ہے۔ اس پر زور دینے سے محض انارکی پھیلتی ہے۔ امید کی اصل کرن غریب اور امیر کے بیچ میں متوسط طبقے کا پھیلاﺅ ہوتا ہے۔ معاشی ترقی ایک خاص سطح تک پہنچنے کے بعد شرح ترقی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ ناگزیر مرحلہ نظام کی ناکامی کا نشان نہیں ہوتا۔

پیداوار بڑھانے کے لیے سب سے پائیدار ذریعہ تعلیم ہے۔ تعلیم محض مہارتوں اور ٹیکنالوجی کی منتقلی نہیں۔ علم کو معیشت کا بامعنی حصہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم علم کی تخلیق میں شریک ہوں۔ تعلیم کے بتاشے بانٹنے سے علم کی ثقافت پیدا نہیں ہوتی۔ علم کی تخلیق کے لیے ہم عصر علمی اصول ضابطے اپنائے جاتے ہیں۔ آج کا علم سائنسی طریقہ کار پر مبنی ہے۔ ہم نے انصاف کی بھاگ بھری لال پری کا ایسا تعاقب شروع کیا ہے کہ آنکھیں بند کرکے دلدل میں دھنس رہے ہیں۔ مابعد جدیدیت کی دنیا تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ جدیدیت سے کندھا تو ملایا جائے۔ ہم نے جدیدیت سے دشمنی پال رکھی ہے اور جمہوریت کو مسلسل کوستے رہتے ہیں۔ اس طرح ہماری معیشت کا مستقبل اچھا نہیں ہو سکتا۔ یہ شعور کی بیداری نہیں، شعور سے انحراف ہے۔ ہماری سیاسی بیداری کے یہی ڈھنگ ہیں تو ایسی بیداری سے نیند بہتر ہے۔ میر کی طرح سے منڈکری سی مار کر سو جائیے۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے سوتے رہنا ہی نیکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).