جانا میرا لاہور اور کہلانا بگ باس


لاہور کا کافی حصہ خوبصورت ہے یہاں تاریخی عمارتیں اور خوبصورت میلوں میں پھیلے پارک ہیں۔ لاہور گھومنے کا ہر دفعہ ہی الگ مزہ ہے پر شرط یہ ہے کہ موسم سرد ہو۔ گرمی کے موسم میں لاہوری اپنے گناہوں کی سزا لاہور ہی میں بھگت لیتے ہیں۔ شاہی قلعے میں گھومتے ہوئے مجھے ہمیشہ یہ احساس ہوتا ہے جیسے اصلی وارثوں کی روحیں بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ کہیں شہزادیاں گھوم رہی ہیں تو کہیں باندیاں بھاگ دوڑ میں لگی ہیں۔ کہیں خواجہ سرا کام کرتے ہوئے مصروف دکھائی دیتے ہیں یعنی تصور میں …. تصور میں کبھی جھوم جاتا ہے دل، آپ کے حسن کی تصویر بن جاتا ہے دل ۔

تصور کا راستہ دل پر ختم کرکے آگے بڑھیں۔ ہم خود تو شیش محل بنا نہیں سکتے اس لئے دوسروں کا بنایا ہوا گھوم کے خوش ہو لیتے ہیں۔ اس سے پہلے جب بھی شاہی قلعے گئی ہوں تو اس جھروکے میں ضرور بیٹھتی تھی جس میں بادشاہ بیٹھ کے اپنے ملک کو چلاتے تھے ایسا کرنے میں مجھے عجیب مزہ آتا تھا پر اس دفعہ جو گئی تو پتہ چلا جھروکے میں نہیں بیٹھ سکتے شاید مرمت وغیرہ ہو رہی تھی۔ وہیں قریب ہی رنجیت سنگھ کے گیٹ اپ میں ایک آدمی کو کھڑا کیا گیا تھا۔ اور اس کے ہاتھ میں تلوار دی گئی تھی پہلے تو میں نے اس کے ساتھ فوٹو بنوایا پھر مجھ میں شاہ مزاجی عود کر آئی۔ میں نے اس کے ہاتھ سے تلوار لے کے چلانے کی کوشش کی تلوار سیدھی تو کیا اُ لٹی بھی نہیں چلائی گئی پھر ہمارے گروپ ممبرز اس کے ساتھ فوٹو بنانے لگ گئے اور میں نے اپنے آپ کو رنجیت سنگھ سمجھنا چھوڑ دیا۔

اس سے پہلے جب ہمار ا ٹولا سردیوں میں لاہور چکر لگانے آیا تھا تو بادشاہی مسجد سے ہوتے ہوئے ہم سکھوں کے گردوارے دیکھتے آگے نکل گئے یہاں کا ماحول کچھ عجیب تھا پھولوں کے کیبن تھے۔ وہیں ایک بن کباب کا ٹھیلا تھا۔ لاہور کا پانی ایسا ہے بھوک بہت لگتی ہے جبھی ہم نے ٹھیلے سے سینڈوچ کھانے کا سوچا تھا۔ کسی لڑکی نے سینڈوچ کھاتے ہوئے یوں ہی پوچھ لیا یہ کون سا علاقہ ہے۔ ٹھیلے والے نے لاپرواہی سے کباب تلتے ہوئے جواب دیا یہ ہیرا منڈی ہے۔ یہ سن کر تو ہم لوگ حواس باختہ ہوگئے تھے یعنی سٹی گم ہوگئی تھی سمجھ نہیں آرہا تھا کدھر کو بھاگیں۔ ہم نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ہم کبھی ہیرا منڈی بھی جاسکتے ہیں ۔ بھاگتے ہوئے نہ جانے کہاں آکے سانس لی تھی۔ لاہور کو پارکوں کا شہر سمجھا جاتا ہے کبھی حیدرآباد بھی پارکوں کا شہر تھا۔ گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ۔ فی الحال حیدرآباد والوں کا رانی باغ پر گذارہ ہے کوئی بیس بائیس سال پہلے گنجے پہاڑ پر بھی ایک خوبصورت پارک بنایا گیا تھا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا شہر کے مرکز سے بسیں وغیرہ چلاکر یہ منصوبہ کامیاب کیا جاتا پر ہوا کچھ یوں کہ عوام میں سے صرف موالی ہی یہاں پہنچ پائے ۔ لاہور کے پارک اتنے بڑے ہیں کہ چلتے چلتے آپ کے جوگر گھس سکتے ہیں۔ اتنی دفعہ لاہور آنے کے باوجود بھی میں نے چھانگا مانگا نہیں دیکھا تھا۔ دیکھا تھا بھائی پر صرف ٹی وی پر۔ سو اس دفعہ میں نے اپنے گروپ پہ زور زبردستی کی کہ چھانگا مانگا ضرور دیکھیں گے۔ کوئی راضی نہیں ہوتا تھا پر میں نے جلال دکھا کر ان کو راضی کر ہی لیا کہ ٹرین میں چڑھ کے جنگل کی سیر کریں گے ۔ میرے بھانجے نے کہا آپ ہمیں جنگل میں لئے جارہی ہو۔ وہاں اگر جھینگا لالا والے قبائلی مل گئے تو فاطمہ آنٹی آپ کو اور مما کو گول گول پکا کے کھائیں گے کہ آپ دونوں میں گوشت بہت ہے۔

خیر کھینچ کھانچ کے میں ان لوگوں کو چھانگا مانگا لے گئی میری دلی مراد پوری ہوئی تھی اب ہم ٹرین کا پتہ لگانے پہنچے تو یہ سن کر تو میں اداس ہوگئی کہ پٹریوں کی مرمت ہورہی ہے۔ کافی دنوں سے ٹرین چلی ہی نہیں۔ وہاں جھروکے کی مرمت، یہاں پٹریوں کی مرمت۔ لگتا ہے، لاہور کے لوگ مرمت کے بہت شوقین ہیں۔ وہاں بوٹنگ ہورہی تھی۔ سب لڑکیاں لڑکے بوٹنگ کرکے مزہ کرنے لگے۔ لاہور میں ریس کورس یعنی پولو گراﺅنڈ کا چکر لگایا۔ جناح باغ میں لائبریری بھی ہے ۔ میٹرو بس کا بہت شور سنا تھا، سوچا سواری کرکے مزہ کیا جائے۔ سارا کام ہی سسٹم کے تحت بہت اچھا جا رہا تھا ۔ نوازشریف نے یہ اچھا کام کیا ہے۔ میٹرو میں تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ ہم لوگ دو قسطوں میں چڑھ سکے ۔ مجھے ڈرائیور کی سیٹ کے پاس جگہ ملی تو حسب عادت اس سے حال احوال لینے لگی۔ وہ خوش طبیعت معلوم دیا۔ لاہور والے سب سے یوں ہی بات کرتے ہیں ۔ میرا ایک بھانجا چلتے ہوئے کچھ نہ کچھ گنگناتا رہتا تھا۔ سچ تو یہ ہے مجھے آج کل کے گانے سمجھ میں ذرا نہیں آتے۔ آخر تنگ آکر میں نے اس سے کہا کوئی احمد رشدی کا بھی گانا سناﺅ ۔ کون احمد رشدی؟ وہ حیران ہوگیا۔ اس عمر میں میں بھی مختار بیگم کو نہیں پہچانتی تھی پھر میں نے اسے ترکیب سے بتایا وہ گانا نہیں جو جو کوکو رینا والا یہ گانا نئے فنکاروں نے بھی گایا ہے ۔ اچھا وہ گانا …. اس نے گنگنانا شروع کیا ۔ میرے خیالوں پہ چھائی ہے اک صورت متوالی سی…. اچھا گا لیا تھا اس نے ….

واہگہ بارڈر پر ہمیشہ ہی ایک خلقت جمع ہوتی ہے ۔ ہندوستان پاکستان کی سرحد پر بڑاہی اچھا پروگرام کیا جاتا ہے دونوں جانب کے لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کے ہاتھ ہلاتے نعرے مارتے ہیں بہت ہی جوش جذبہ قومی ترانے ایک دوسرے پر لائٹیں مارنا یہ دنیا کی منفرد پریڈ ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے سے اتنے خوش ہیں تو سرحد یں کھول دی جانی چاہیں آخر جرمنی نے بھی دیوار گرادی ہے۔ اداکارہ زیبا بچپن سے ہی مجھے بہت پسند ہے ۔ میرے خیال سے پاکستان میں ابھی تک اتنی حسین ہیروئن پیدا نہیں ہوسکی ہے۔ پتہ کرواتے کرواتے ہم نے زیبا کا گھر ڈھونڈ نکالا۔ یہ گلبرگ میں تھا بلکہ یہ سڑک بھی علی زیب روڈ کہلاتی ہے ۔

ایک مکین نے بتایا کہ زیبا یہ گھر چھوڑ کر چلی گئی ہیں اب وہ ڈیفنس سیکٹر کیو 19 میں ہی ملے گی۔ اب میں وہاں پہنچی تو پتہ چلا آج کل طبیعت صحیح نہیں رہتی۔ دوائیں لے رکھی ہیں۔شام تک ہی جاگیں گی۔ افسوس ملاقات نہ ہو پائی۔ بہرحال میں نے گلدستہ اندر بھجوادیا جو بنواکے لائی تھی ۔ میں نے زیبا کی پہلی فلم ’انصاف اور قانون‘ دیکھی تھی میری عمر کی ہی بچی کو گود میں لئے محمد علی گاتے تھے، سو برس کی زندگی میں ایک پل، تو اگر کرلے کوئی اچھا عمل ….

شام کو ہم نور جہاں کے مقبرے پر پہنچے یہاں اس کے پہلے شوہر علی قلی خان سے جس کا خطاب شیر افگن تھا (کہ وہ شیر کا شکار کیا کرتا تھا ) ان کی بیٹی لاڈلی بیگم بھی یہیں دفن ہیں ۔ پر بابا کرتے تو کیا کرتے، نورجہاں کے مقبرے کی مرمت ہورہی تھی ۔ شاباش ہو پنجاب کے کلچر اینڈ ٹور ازم ڈیپارٹمنٹ کو۔ جب سیاحوں کے آنے کا ٹائم ہوتا ہے تو یہ لوگ سیمنٹ گارالے کے بیٹھ جاتے ہیں۔ دوسری طرف جہانگیر کا مقبرہ شان سے موجود تھا۔ رنجیت سنگھ نے جہانگیر کے مقبرے سے میرے ہیرے موتی لے کے سکھوں کے گرد وارے میں جاکے لگائے تھے واہ مرنے کے بعد مقبروں میں بھی مزے، سارے سفر میں ہمارے گروپ کی لڑکیاں لڑکے جو مجھے کن انکھیوں سے دیکھ کے کانا پھوسی کرتے تھے تو یہاں آکے پتہ چلا کوڈ ورڈ میں انہوں نے میرا نام بگ باس رکھ لیا تھا کہ ہر حالات میں میرا کہنا ماننا پڑتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).