غداروں کی تلاش میں چاک ہوتا دامن
ملک و قوم کے غداروں اور قومی راز فاش کرنے والوں کی تلاش میں صحافیوں ، ماہرین ،سیاست دانوں اور عسکری چابکدستوں نے گزشتہ کچھ عرصہ میں جو پھرتی دکھائی ہے، اس سے اپنے ہی دامن کے بہت سے داغ نمایاں ہونے لگے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ اتنا نقصان ان بیانات یا باتوں سے نہیں پہنچتا جتنا اس معاملہ کو بات سے بتنگڑ بنا کر خود اپنے مفاد کو پہنچایا جارہا ہے۔ قومی مفاد، ضابطہ اخلاق اور اخفائے راز کی باتیں کرتے ہوئے یہ جاننے کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اگر کسی طرف سے غلطی سے کوئی راز کی بات کہہ بھی دی گئی ہے تو اس کو مزید اچھال کر دشمن کے شبہ کو یقین میں نہ بدلا جائے کہ ضرور اس ریاست کے محافظوں نے کوئی ایسا کام کیا ہے جس کی پردہ دری کے خوف سے ہنگامہ بپا ہے۔ افسوس اور حیرت کا مقام ہے کہ گزشتہ دو ہفتے کے دوران یہ کام پہلے ملک کی فوج کی طرف سے نوازشریف کے ڈان کو دئیے گئے انٹرویو میں کی گئی بعض باتوں پر ڈرامائی صورت حال پیدا کرکے کیا گیا اور اب نواز شریف آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کی بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سابق سربراہ اجیت سنگھ دلت کے ساتھ ہونے والی گفتگو پر مبنی کتاب کے حوالے سے اسی طرح کی سنسنی خیزی پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جس کا ارتکاب پہلے فوج نے نواز شریف کے بیان کو غلط قرار دینے کے لئے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلا کر کیا تھا۔ حیرت انگیز طور پر فوج جیسا منظم ، مستحکم اور ہر نوع کی صلاحیتیوں سے مالا مال ادارہ بھی حب الوطنی اور قومی بیانیہ کے ایک خاص ڈھب کی حفاظت کے لئے تین بار سابق وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے خلاف میدان میں اترنے پر آمادہ ہو گیا۔ کیوں کہ اس وقت بھی ایک سیاسی مقصد پیش نظر تھا ۔ اور اب جبکہ نواز شریف جنرل اسد درانی کے معاملہ کو قومی حساسیت کا سنگین مسئلہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو بھی یہ اس کے اہداف صرف سیاسی ہیں۔
ممبئی حملوں، نان اسٹیٹ ایکٹرز اور پاکستان کے خفیہ اداروں کے بارے میں نواز شریف کے بیان میں اگر کوئی غلط معلومات شامل تھیں تو ان کی تردید ایک پریس ریلیز، ایک بیان یا ایک ٹویٹ کے ذریعے کی جاسکتی تھی۔ لیکن فوج کے بزرجمہروں کو لگا اب اونٹ پہاڑ کے نیچے آیا۔ جو شخص سپریم کورٹ کی طرف سے وزارت عظمی سے نکالے جانے اور پھر اپنی ہی پارٹی کی قیادت سے محروم کئے جانے کے باوجود روزانہ کی بنیاد پر نیب کے ریفرنسز کی سماعت بھی بھگت رہا ہے، اپنی اہلیہ کی سنگین علالت کے باوصف نیب عدالت کے کی طرف سے اجازت نہ ملنے پر ملک میں ہی قیام پذیر ہے اور پارٹی میں دراڑیں پڑنے اور نئی کنگز پارٹی کے معرض وجود میں آنے کے باوجود اپنے سیاسی مؤقف پر اڑا ہؤا ہے ، اب ایک بیان کی ٹھوکر سے اس کی زبان بندی بھی ہو سکے گی اور یہ واضح بھی کیا جاسکے گا کہ معاملہ سول ملٹری تعلقات میں پائے جانے والے تصادم کانہیں ہے بلکہ ایک ایسے شخص کی ’بدنیتی ‘ کا ہے جو اگرچہ ملک کا تین بار وزیر اعظم رہ چکا ہے لیکن وہ اپنی جان بچانے کے لئے کسی بھی وقت کسی بھی قومی مفاد کا سودا کرنے پر تیار ہوسکتا ہے۔ لگتا ہے نواز شریف فوج کے اس حملہ یا ردعمل کے لئے تیار تھے۔ اس لئے انہوں نے بیان واپس لینے یا اس کی تردید کو ماننے کی بجائے قومی سلامتی کمیٹی کے بیان کو ہی مسترد کردیا اور یہ بھی کہا کہ وہ وقت کے ساتھ مزید ایسے پہلوؤں سے بھی پردہ اٹھا سکتے ہیں جو قومی مفاد میں سامنے آنا ضروری ہے۔ قومی مفاد کے تحفظ کے علاوہ اس کی تشریح و توضیح کی ذمہ داری چونکہ عسکری اداروں نے اپنے مضبوط شانوں پر اٹھا رکھی ہے، اس لئے نواز شریف کو غدار، ملک دشمن اور قوم کے راز فروخت کرنے والا سیاستدان قرار دینے کا واویلا چہار سو سنائی دینے لگا۔
ابھی اس محاذ آرائی کا کوئی واضح نتیجہ سامنے نہیں آیا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹینٹ جنرل (ر) اسد درانی اور اے ایس دلت کے مکالمہ پر مشتمل کتاب ’ دی سپائی کرانیکل۔ را ، آئی ایس آئی۔ اور امن کاسراب‘ سامنے آگئی۔ دیکھنے والوں کو اس میں دونوں ہمسایہ اور دشمن ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہوں کی طرف سے دیکھے جانے والے امن کا خواب اور خواہش تو دکھائی نہیں دی لیکن اس میں یہ نظر آگیا کہ دونوں ملکوں کے جاسوسوں کے سابق کماندار مل بیٹھ کر باتیں بھی کرتے رہے اور ان کو جمع کرکے ایک کتاب کی صورت میں شائع بھی کردیا گیا۔ تاہم نواز شریف کی طرح فوج اس کتاب اور اس میں کی گئی باتوں پر ردعمل کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ نواز شریف کو سینیٹ کے سابق چئیرمین رضا ربانی کی طرف سے غیر متوقع مدد بھی مل گئی جنہوں نے یہ کہہ کر فوج کو دفاعی پوزیشن میں کھڑا کردیا کہ ’اگر کوئی سویلین یہ باتیں کہتا تو قیامت بپا ہوجاتی اور اسے غدار قرار دیاجاتا‘ ۔ اس اچانک مدد کے زور پر نواز شریف نے اپنے بیان میں مزید قوت پیدا کی اور سابق فوجی جنرل کی طرف سے قومی راز افشا کرنے کے معاملہ پر غور کے لئے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ داغ دیا۔ یعنی فوج نے ان کے ڈان والے بیان پر جو گیند ان کی طرف اچھالی تھی نواز شریف نے اسے پوری قوت سے واپس فوج کی طرف لڑھکایا ہے۔ سابق وزیر اعظم اور سابق چئیرمین سینیٹ اور ملک کی دو بڑی پارٹیوں کے رہنماؤں کے ان سخت بیانات کے بعد فوج کے لئے اس کتاب ، اس کے مندرجات اور اس کے مصنف سے فاصلہ دکھانا ضروری ہو گیا تھا۔ پہلے اعلان کیا گیا کہ اس کتاب کے حوالے سے اپنا مؤقف واضح کرنے اور یہ بتانے کے لئے کہ سابق فوجی ہونے کے ناتے جنرل اسد درانی نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی تو نہیں کی، انہیں 28 مئی کو آرمی ہیڈ کوارٹر طلب کیا گیا ہے۔ اس دوران چونکہ سیاست دانوں اور غداروں کی تلاش میں دن رات سرگرداں مبصرین کی موشگافیاں جاری رہیں اور لوگوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ پاکستانی آئی ایس آئی کا سابق سربراہ بھارت کی ’را ‘ کے سابق سربراہ کے ساتھ ملتا رہا اور اس گفتگو میں قومی رازوں پر اظہار خیال کرتا رہا ہے۔ اس لئے اب فوج کو یہ اعلان کرنا پڑا ہے کہ یہ جانچنے کے لئے کہ کیا جنرل درانی نے فوج کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے یا نہیں ان کے خلاف باقاعدہ کورٹ آف انکواری قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ فوجی عدالت ایک حاضر سروس لیفٹینٹ جنرل کی نگرانی میں کام کرے گی اور کتاب کے مندرجات اور جنرل درانی کے بیان کی روشنی میں کسی نتیجہ پر پہنچے گی۔ فوج نے اس دوران جنرل درانی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کے لئے مجاز اتھارٹی یعنی وزارت داخلہ کو درخواست بھی بھیج دی ہے۔ فوج نے چونکہ اس کتاب پر اٹھنے والے طوفان پر خاموشی اختیار کرنا مناسب نہیں سمجھا لہذا اب پورے عسکری ادارے کو اس کی زد سے بچانے کے لئے اس انتہائی اقدا م کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔
اہم قومی امور پر ڈائیلاگ کے رویہ کو قومی مفاد پر سودے بازی قرار دینے کے اس چلن کے باعث ملک میں خارجہ پالیسی، علاقائی امن، سیکورٹی کی صورت حال اور ہمسایہ ملکوں سے تعلقات کے امور پر کبھی متوازن اور حقیقت پسندانہ گفتگو ممکن نہیں ہو سکی۔ اسی لئے ان موضوعات پر پاکستان میں لکھے جانے والے مضامین اور تبصرے سرکاری بیانیہ تو پیش کرتے ہیں لیکن اس میں اصل حقائق اور پیچدگیوں پر روشنی نہیں ڈالی جاسکتی۔ بعض معاملات کو ممنوعات قرار دے کر قومی مکالمہ کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اس رویہ کے سبب ملک کی سیاست بھی متاثر ہوتی ہے اور سلامتی کو لاحق خطرات کا بھی اندازہ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ملک میں جمہوریت کی بات تو کی جاتی ہے لیکن جب ملک کے جمہوری لیڈر ہی اظہار رائے اور اہم امور پر کھل کر بات کرنے کو سول ملٹری تعلقات کے تناظر میں دیکھنا ضروری سمجھنے لگیں اور کھل کر بات کرنے کی کسی کوشش کو فوج پر حملہ آور ہونے کے لئے اہم ہتھیار مان لیا جائے تو اس سے معاملات میں الجھاؤ اور اداروں میں کشیدگی پیدا ہونا ضروری ہے۔
اس حوالے سے یہ نوٹ کرنا بھی اہم ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد دارنی 26 برس قبل 1992 کو آئی ایس آئی کے سربراہ اور فوجی جنرل کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے تھے۔ انہیں ملکی سیاست میں آئی ایس آئی کے کردار پر سامنے آنے والے شبہات کی وجہ سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینا پڑی تھی۔ قومی سیاست میں آئی ایس آئی کی مداخلت اور کردار کا معاملہ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ میں دستاویزی طور پر ثابت ہو چکا ہے جس پر اب تحقیقات ہو رہی ہیں تاکہ ’مجرموں‘ کا سراغ لگایا جاسکے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ربع صدی قبل ریٹائر ہونے والے ایک جنرل کے پاس ایسے کون سے راز ہو سکتے ہیں کہ وہ اب قوم کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں ہے۔ کیا ملک کے عسکری اداروں نے اس مدت میں اپنے طریقہ کار اور حکمت عملی میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں کی۔ اس سوال کا مثبت جواب کسی بھی کتاب یا بیان سے زیادہ قومی مفاد کے لئے مہلک ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ملک کے ’رازوں کا امین‘ آئی ایس آئی کا ایک سابق سربراہ بھارتی ایجنسی کے سابق سربراہ سے دنیا کے تین ملکوں میں ملتا ہے اور اس سے ہونے والی گفتگو پر مشتمل کتاب بھی شائع ہوجاتی ہے ۔ اس دوران آئی ایس آئی یا دیگر قومی انٹیلی اداروں کو اس سرگرمی کی بھنک بھی نہیں پڑتی اور وہ کتاب آنے سے پہلے قومی مفاد کو پہنچنے والے اس نقصان کی روک تھام کرنے میں بری طرح ناکام رہتے ہیں۔ یہ صورت حال کتاب کے مندرجات سے زیادہ تشویش اور پریشانی کا سبب ہونی چاہئے۔
اس وقت فوج کو جس شرمندگی اور بدحواسی کا سامنا ہے اس کا اصل سبب یہ ہے کہ فوج بطور ادارہ مسلسل قومی سیاست میں حصہ دار بنا ہؤا ہے۔ یہ بات نوشتہ دیوار ہونی چاہئے کہ فوج ہو یا کوئی دوسرا قومی ادارہ، وہ جب بھی منصبی فرائض کے علاوہ سیاسی معاملات میں مداخلت ضروری سمجھے گا تو اس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑے گی۔ فوج اپنے ہی ایک سابق جنرل کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ قیمت ادا کرنے پر مجبور ہوچکی ہے۔
- فیض آباد دھرنا رپورٹ: شہباز شریف استعفیٰ دیں - 16/04/2024
- ایرانی حملوں کے بعد اسرائیل ’ناقابل تسخیر‘ نہیں رہا - 15/04/2024
- سانحہ بہاولنگر پر پاک فوج کٹہرے میں - 15/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).