کیا 2018 کے انتخابات 1970 جیسے ہوں گے؟


فاٹا کے پاکستان کے ساتھ انضمام کے بارے میں منظور ہونے والی قراردادوں اور اس پر کئے گئے تجزیوں کے شور و غوغا میں ہمیں مرحوم ڈاکٹر فیروز احمد بہت یاد آئے کیونکہ اب پاکستان کے طول و عرض میں ان کی طرح ٹھوس تجزیہ کرنے والا موجود نہیں ہے۔ اب روزمرہ کے منتخب اور من مانے واقعات کو آگے پیچھے کرکے بیان کرنے کو تجزیہ نگاری کا نام دیا گیا ہے۔ یا پھر مقتدر حلقوں سے متعلق اندر کی خبر منظر عام پر لانے پر داد وصول کی جاتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کو متحرک سمجھتے ہوئے، تبدیل ہوتے معاشی اور سماجی حالات کی بنا پر کوئی غیر جانبدارانہ تجزیہ نہیں کیا جاتا۔ اگر ایسا کیا جاتا تو یہ نتیجہ بہت پہلے نکالا جا سکتا تھا کہ قبائلی علاقوں میں جدید ریاست کے ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اب بھی پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں ہونے والے سیاسی یدھ کو ٹھوس مادی تبدیلیوں کے تناظر میں نہیں دیکھا جا رہاجس کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ زیادہ تر سیاسی پیش گوئیاں ذاتی خواہشات کے اظہار سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔

ڈاکٹر فیروز احمد نے اپنے رسالے ’پاکستان فورم‘ میں بیگم نسیم ولی خان کے 1977 کے پاکستان قومی اتحاد میں شمولیت کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ خیبر پختونخوا (تب کا صوبہ سرحد) میں پشتون قوم پرستی کی معاشی بنیادیں ختم ہو چکی ہیں اور اب پختون سیاست دان مرکز پرست سیاست کا حصہ بن جائیں گے۔ ان کی بنیادی دلیل یہ تھی کہ 1977 تک آتے آتے پشتون علاقے کی معیشت باقیماندہ پاکستان کے ساتھ متصل ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں اس علاقے کے عوام متحدہ پاکستان میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ عمومی سطح پر دیکھا جائے تو خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں سے جس بڑی تعداد میں لوگ کراچی اور پنجاب کی طرف نقل مکانی کرتے چلے آئے ہیں اس سے ڈاکٹر فیروز احمد کی پیشگوئی بالکل درست ثابت ہوئی۔ اب یہ حقیقت ہے کہ خیبر پختونخوامیں خالص پشتون قوم پرستی کی سیاست کرنے والی کوئی سیاسی پارٹی موجود نہیں ہے: عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) بھی علاقائی مفادات کی بات تو کرتی ہے لیکن پشتون قوم کی علیحدگی کی نہیں۔ قبائلی علاقوں میں بھی جس طرح کی معاشی اور سماجی تبدیلیاں آئی ہیں ان کی وجہ سے ان علاقوں کا مفاد بھی پورے پاکستان میں بہتر انداز میں حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے یہ امر حیران کن نہیں ہے کہ اس علاقے کی عوامی تحریک پاکستانی ریاست کا حصہ رہتے ہوئے اپنے حقوق کا تحفظ چاہتی ہے۔

اس موضوع پر لکھتے ہوئے راقم نے کئی سالوں سے بار بار یہ کہا ہے کہ فاٹا اور باقیماندہ قبائلی علاقوں میں بدلتی ہوئی معاشی حقیقتوں کی بنا پر ان علاقوں میں ریاست کے جدید ادارے قائم کرکے ترقیاتی پروگرام بنانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر فیروز احمد کے تجزیے کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کہا گیا کہ اگر یہ علاقہ افغان جنگ کا حصہ نہ بھی بنتا تب بھی اس علاقے سے مزدور پیشہ طبقے کی کراچی، پنجاب اور بیرون ملک نقل مکانی سے معاشی اور سماجی حالت مکمل طور پر تبدیل ہوچکی ہے: جب کسی علاقے کے عوام کا بہت بڑا حصہ بڑے شہروں اور غیر ملکوں سے روزی کما کر اپنے گھروں کو منتقل کرتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ نئے خیالات بھی جنم لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کسی علاقے میں لمبے عرصے کے لئے جنگ ہوتی رہے اور عوام دربدر بھٹکنے کے لئے مجبور ہو جائیں تو بہت سی پرانی اقدار کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دو عظیم جنگوں کا میدان مغربی یورپ امریکہ سے بہت زیادہ روشن خیال ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس میں کوئی بھی حیران کن بات نہیں ہے کہ اس علاقے سے منصفانہ نیا معاشرہ قائم کرنے کے لئے روشن خیال آوازیں آئی ہیں۔ یہ امر تو واضح ہو چکا ہے کہ فاٹا اور قبائلی علاقوں کے بارے میں ٹھوس تجزیے کی عدم موجودگی اور اصلاحات کے نفاذ میں کئی دہائیوں کی دیر ہوئی لیکن اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم آج کے پنجاب اور پاکستان میں ٹھوس تجزیوں کی بنا پر پیشگوئیاں کر رہے ہیں؟

میڈیا کا عمومی بیانیہ یہ ہے کہ عوام کا فیصلہ بد عنوانیوں پر ہوگا۔ مزید برآں یہ کہ انتخابات کی ہار جیت کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ کس کے پاس کتنے قابل انتخاب (الیکٹبلز) سیاست دان ہیں۔ اسی طرح سے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کو بنیاد بنا کر بہت سے نتائج نکالے جا رہے ہیں۔ آج کے پنجاب کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے 1970کے انتخابات یاد آتے ہیں جب میڈیا میں یہ پیش گوئیاں عام تھیں کہ مغربی پاکستان میں کونسل مسلم لیگ سب سے زیادہ سیٹیں جیتے گی اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کی پارٹی اکثریت نہیں حاصل کر پائے گی۔ لیکن اگر 1960کی دہائی میں ہونے والی معاشی تبدیلیوں (بالخصوص پنجاب کا سبز انقلاب) اور 1968کی ایوب خان مخالف تحریک کا بغور جائزہ لیا جاتا تو یہ نتیجہ نکالا جا سکتا تھا کہ پاکستان کے بہت سے علاقے سیاسی اور سماجی انقلاب کے لئے تیار ہو چکے ہیں۔ لیکن ہوا وہی جو تاریخ کا ایجنڈہ تھا: مغربی پاکستان کے بیشتر علاقوں میں پاکستان پیپلز پارٹی بغیر قابل انتخاب سیاستدانوں کے جیت گئی اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ ایک کے علاوہ سب سیٹیں جیت گئی۔

اب بھی پنجاب کسی بڑی تبدیلی کے دہانے پر کھڑا ہے اور 2018 کے الیکشن کے نتائج حیران کن ہو سکتے ہیں۔ پنجاب کی تاریخ میں 1970کا الیکشن بہت بڑا موڑ تھا۔قطع نظر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی خوبیوں اور خامیوں کے پنجاب کے عوام نے جمہوری اور معاشی آزادیوں اور انصاف کا ایجنڈہ اپنایا تھا۔ اس کے بعد آنے والی نام نہاد جمہوری و غیر جمہوری حکومتیں اسی ایجنڈے کی نفی کرتی رہی ہیں یا اسے طفل تسلیاں دیتی رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ 1970کا الیکشن پرانے جاگیرداری نظام کی نفی اور نئی امنگوں کا ترجمان تھا۔ ضیاالحق کی جابرانہ پالیسیاں پیپلز پارٹی کو ختم نہ کر سکیں اور تمام تر رکاوٹوں کےباوجود 1988میں بینظیر بھٹو جیت کر وزیر اعظم بن گئیں۔

نوے کی دہائی میں پیپلز پارٹی کے دئیے ہوئے پرانے خواب اور مسلم لیگ (ن) کے ترقیاتی ماڈل کے درمیان جنگ ہوتی رہی جو کہ 2007 اور 2013میں نواز شریف کی جیت کی شکل میں سامنے آئی۔ پچھلے چالیس سالوں میں پنجاب کی کایا کلپ ہو چکی ہے: اب زیادہ تر آبادی شہروں میں مقیم ہے اور بچے کھچے دیہات میں بھی شہروں جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ یہ آبادی جدید ریاستی اداروں ، انفراسٹرکچر اور مکمل جمہوریت کی خواہش مند ہے۔ پنجاب میں باوجود مذہبی انتہا پسندی کے مظہر کے 1970کے مقابلے میں بہت زیادہ سماجی اور انفرادی آزادی ہے اور سیاسی سطح پرآزادی کی طلب ہے۔ مسلم لیگ (ن) اپنی کارکردگی کی بنا پر زیادہ مقبول رہی ہے اور اب وہ مکمل جمہوریت کی بحالی کا دعویٰ لے کر سامنے آئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف کے جمہوری نعرے میں 1970کے عوامی ایجنڈے جیسا رنگ ہے؟ اگر ہے تو قابل انتخاب (الیکٹبلز) سیاست دانوں کی بنیاد پر کی گئی پیش گوئیاں غلط ثابت ہوں گی۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو ریاستی تنظیم ابتری کا شکار رہے گی: یہ سب کچھ اس وقت تک ہوگا جب تک عوامی ایجنڈے کو حقیقت میں تبدیل نہیں کیا جاتا۔

ڈاکٹر منظور اعجاز
Latest posts by ڈاکٹر منظور اعجاز (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر منظور اعجاز

بشکریہ روز نامہ جنگ

dr-manzoor-ijaz has 1 posts and counting.See all posts by dr-manzoor-ijaz