نقشے پر چرن جیت سنگھ کا لہو پھیل گیا ہے


میں نہیں جانتا کہ چرن جیت سنگھ ساگر کون تھے۔ اب جان کر کرنا بھی کیا ہے۔ایک ہی ملاقات تھی۔ پاکستان کے اقلیتوں کے چند نمائندہ افراد کی ایک نشست میں ملاقات ہوئی تھی۔ نشست کیا تھی بس دکھوں کی پوٹلیاں تھیں جو انہوں نے اپنے کاندھوں پر لاد رکھی تھیں۔ اس گفتگو میں جہاں ان کے دیگر کئی تکالیف کا نوحہ تھا وہاں ان کے لہجے کی اذیت ناقابل بیان تھی۔ ’ ہمارا وطن، ہمارا پاکستان، ہمارا دیس، ہماری وطن سے محبت، ہماری پاک سرزمین‘ جیسے الفاظ کا اتنا زیادہ استعمال انہوں نے کیا کہ باقاعدہ اذیت ہونے لگی۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا۔ ان سے پوچھا نہیں جا سکتا تھا کہ ہر تین جملوں کے بعد ثابت کرنا کیوں ضروری ہے کہ آپ پاکستانی ہیں اور آپ اس ملک سے محبت کرتے ہیں۔ یہ ان کے لاشعور کا خوف تھا کہ ان کی حب الوطنی سوال کے کٹہرے میں ہے۔ یہ وہ احساس تھا جو اس سماج نے ان کے لاشعور میں بٹھا دیا تھا کہ وہ کسی بھی لمحے ’ غیر‘ قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ یہ حال سرحد کے اس پار ہم دیکھ چکے ہیں جب ہندوستانی مسلمانوں کو طعنہ ملتا ہے کہ پاکستان چلے جاﺅ۔

چرن جیت سنگھ انتہائی دائیں طرف

اسی محفل میں چرن جیت سنگھ بھی تھے۔ خاموش طبع، بردبار، حلیم۔ وہ جن کو چہرے کو دیکھ کر باپ کا شفیق اور ملائم چہرہ یاد آتا ہے۔وہ ملائم اور شفیق چہرہ اب نہیں رہا۔ کم گو چرن جیت سنگھ کوہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا گیا۔جرم کیا تھا معلوم نہیں۔ چرن جیت کے قتل پر افسوس کیا تو اہل وطن نے اس میں سے ’ را‘ کی سازش ڈھونڈ نکالی۔ اہل وطن فرمانے لگے کہ چونکہ پچھلے دنوں ہندوستان میںگگن دیپ سنگھ نے ہندو بلوائیوں سے ایک مسلمان کی جان بچائی تھی اس لئے گگن دیپ سنگھ سے پاکستانیوں کی ہمدردیوں کو دیکھ کر ’ ر“ نے چرن جیت سنگھ کو مروا دیا۔ اہل وطن سے کوئی شکوہ نہیں۔ اہل وطن لال قلعے کی فتح مندی کا خواب دیکھنے کے عادی ہیں۔ اہل وطن یقین رکھتے ہیں کہ ہولوکاسٹ کی تاریخی حقیقت نہیں بلکہ یہ ایک افسانہ ہے۔ اہل وطن یقین سے بتاتے ہیں کہ ورلڈ ٹریڈ ٹاورز سی آئی اے نے خود گرائے تھے ۔ کچھ تو یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ چنگیز خان ایک بہادر مسلمان سلطان تھا۔ ایسے میں کیا شکوہ اور کیا شکایت!

 ہاں ان احباب کی بات قابل غور ہے جو بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں۔ وہ فرماتے ہیں اس قتل کو اقلیتوں کے ساتھ جبر سے نہ جوڑا جائے۔ وہ خبر دیتے ہیں کہ ایسے قتل ذاتی عناد و دشمنی کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔ یہ امکان ماننے میں بھی کوئی امر مانع نہیں۔ ان سے تو کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ ہم تو سوال ریاست سے پوچھتے ہیں جس پر اقلیتوں کے تحفظ کی آئینی ذمہ داری ہے۔ سوال یہ کہ لاڑکانہ میں مندر کس نے ذاتی عناد کی وجہ سے لوٹا؟ سوال یہ کہ بہالپور میں چرچ پر حملہ کس عناد میں کر کے16 افراد مارے گئے؟ لاہور میں ہندو بستیوں کو آگ کس نے ذاتی دشمنی کی بنا پر لگائی؟ پشاور چرچ میں83 انسان کس دشمنی کی نذر ہوئے؟ ایسٹر کے موقع پر لاہور میں 73 افراد کس نے دھماکے میں اڑا دئیے؟ کراچی میں موٹر سائیکل سواروں نے بس میں 43اسماعیلی کس دشمنی میں قتل کیے؟ جہلم میں فیکٹری کو آگ کس نے لگائی؟ کوٹ رادھا کشن میں عیسائی جوڑے کو بھٹی میں کس نے جھونکا؟ کوئٹہ میں چرچ پر حملہ کس دشمنی میں ہوا؟

 یہاں اقلیتیں کتنی محفوظ ہیں یہ نقشے پر پھیلا لہو بتا رہا ہے۔ یہاں اقلیتیں پہلے کتنی محفوظ تھیں اس بارے میں پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل کے استعفی کی ایک عبارت دیکھ لیجیے۔ ’ مشرقی پاکستان کے مسئلہ کو ایک طرف رکھتے ہوئے، اب مجھے مغربی پاکستان خاص طور پر سندھ کا حوالہ دینے دیجئے۔ بٹوارے کے بعد مغربی پنجاب میں تقریباً ایک لاکھ اچھوت ذات لوگ تھے۔ شاید یہ نوٹ کیا گیا ہو کہ ان کی خاصی بڑی تعداد کو اسلام قبول کرا لیا گیا۔ صاحبان اقتدار کو بار بار کی عذرداشت کے باوجود ابھی تک مسلمانوں کی اغوا کردہ ایک درجن اچھوت ذات لڑکیوں میں سے صرف چار کو بازیاب کرایا جا سکا ہے۔ ان لڑکیوں کے ناموں کے ساتھ ان کے اغوا کنندگان کے نام بھی حکومت کو دیے جاچکے ہیں۔ مغویان لڑکیوں کی بازیابی کے انچارج افیسر کی طرف سے دیے گئے حالیہ آخری جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ ’اس کا کام ہندو لڑکیوں کی بازیابی تھا اور’اچھوت‘ ہندو نہیں۔‘

یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔ پوچھنا بس یہ تھا کہ اچھوت تو ہندو نہیں ہوتے کیا یہ عیسائی، سکھ، احمدی، ہندو اور اسماعیلی اقلیت ہوتے ہیں؟ کیا یہ انسان ہوتے ہیں؟ کیا ان کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے؟

 چرن جیت سنگھ سے میں نے گوردوارہ دکھانے کی فرمائش کی تھی۔ چرن جیت نے وعدہ کیا تھا۔ کہنے لگے، ’ ضرور لے کر جائیں گے۔ پشاور قریب ہے آپ پشاور آئیں، میں آپ کو گوردوارے میں دال کھلاﺅں گا‘۔پشاور کئی بار جانا ہوا مگر چرن جیت سنگھ کے پاس نہ جا سکا۔ کل کے وعدے پر ٹالتا رہا۔ وہ کل آ نہ سکا۔ ایسے کئی سارے کل ہیں جو نہیں آئے۔وہ کل جن میں ہمارے بچوں کے خواب رکھے ہیں۔ وہ کل جب اس دھرتی پر سورج کی روشنی اپنے پورے رنگوں کے ساتھ دکھائی دینے لگے۔وہ کل جہاں پرندوں کے گھروندوں کو گھاس کے تنکے نہیں، ان کا گھر سمجھا جائے۔ وہ کل جہاں شکوے میں درد کا کرب سنائی دینے لگے۔ وہ کل جہاں خون کا رنگ لال نظر آئے۔ چرن جیت کے ساتھ وعدے والا کل تو شاید اچھا ہوا نہیں آیا۔ میں نے گوردوارہ دیکھنا تھا۔ کسی مان میں آکر وہ سفید داڑھی والا شفیق بابا اگر کسی مسجد لے جانے کی فرمائش کر دیتا تو میں اس کو کیا جواب دیتا؟

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah